ایٹمی قوت کے ساتھ معاشی قوت بنیں

عبد الحمید  جمعـء 2 جون 2023
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

بھارت نے 18مئی1974کو پوکھران میں ایٹمی دھماکے کر دیے تو پاکستان کے لیے بہت گھمبیر صورتحال پیدا ہو گئی۔بھارت ایک بڑا ملک،بڑی صنعتی بنیاد اور بڑی فوج رکھنے کے ساتھ ساتھ ایٹمی قوت والا ملک بن گیا۔اس سے برِ صغیر میں طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہوا۔

ان نیوکلیئر تجربات نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ بھی اپنے پروگرام کو آگے بڑھائے اور برِ صغیر میں طاقت کے توازن کو واپس لانے کی کوشش کرے۔ سابق وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے فوری طور پر سائنس دانوں سے مشورے شروع کر دیے۔

سائنس دانوں اور افواجِ پاکستان کے افسران سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ کچھ بھی ہو،پاکستان کو نیوکلیئر قوت بنانا ہے۔خوش قسمتی سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو اس وقت بیرون ملک کام کر رہے تھے وہ پاکستان آئے، وزیرِ اعظم سے ملے اور جناب بھٹو نے انھیں اس پروجیکٹ کا سربراہ بنا دیا۔

غلام اسحاق خان نے بھی مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کو فنڈنگ یقینی بنائی۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اس پروجیکٹ کی تکمیل میں بے حد دلچسپی لی اور 1980کی دہائی کے آخری سالوں میں پاکستان نے لیبارٹری ٹیسٹ کر کے یقین کر لیا کہ ہم نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے اور اب یہ تجربہ کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔

11مئی 1998کو بھارت نے ایک دفعہ پھر پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے۔یہ تجربات کیا کامیاب ہوئے بھارت کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔بھارتی حکومت نے تیوری چڑھالی اور بات پاکستان کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے پر آ گئی۔

بھارتی رہنماؤں نے آزاد جموں و کشمیر کو بزور حاصل کرنے کا کہنا شروع کر دیا۔بھارت کی طرف سے قوت کے استعمال اور جنگی زبان میں بات کرنے کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے مناسب سمجھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربات کر ڈالے۔پاکستان کے اس فیصلے کی بھنک پڑتے ہی مغربی دنیا میں کھلبلی مچ گئی۔وہ کسی صورت بھی تیسری دنیا کے ایک مسلمان ملک کو ایٹمی قوت بنتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

پاکستان میں اس وقت جناب محمد نواز شریف کی حکومت تھی۔امریکی صدر بل کلنٹن نے نواز شریف صاحب کو اوپر نیچے پانچ بار فون کر کے ایٹمی تجربات نہ کرنے کا کہا اور ساتھ ہی پاکستان کو پانچ ارب ڈالر کی امداد دینے کی پیشکش کی البتہ پاکستانی حکومت نے تہیہ کر لیاکہ بھارت کے اقدامات کا موثرر جواب دیا جائے گا،اگر اب جواب نہ دیا گیا تو پھر شاید کبھی نہ دیا جا سکے۔

یہ بھی فیصلہ ہو گیا کہ بھارت نے جتنے تجربات کیے ہیں ان سے ایک ٹیسٹ زیادہ کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا جائے اور ساری دنیا خاص کر بھارت پر یہ بات واضح کر دی جائے کہ پاکستان کو ترنوالہ سمجھنے والے بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم کی قیادت میں حکومتِ پاکستان کی منظوری کے بعد افواجِ پاکستان اور پاکستانی سائنسدانوں نے بقیہ فریضہ انجام دیا۔چاغی کے بے آباد پہاڑوں میں ٹیسٹ سائٹ بنائی گئی۔ 28مئی 1998 کو بعد دوپہر تین بجکر 15منٹ اورتیس سیکنڈ پر بٹن دبایا گیاتو زیرِ زمین زبردست ارتعاش پیدا ہوا۔

پہاڑوں کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہوا۔پہاڑ سنہرے رنگ میں رنگے جانے لگے۔پہاڑوں پر جمی گرد اوپر اُٹھنے لگی اور پھر سنہرا بادل بن کر پہاڑ کے اوپر چھا گئی۔

ایٹمی تجربات کامیاب ہوتے ہی موقع پر موجود افراد نے بے ساختہ اﷲ کی کبریائی کا نعرہ والہانہ انداز میں لگایا۔یہ وہ عظیم تاریخی لمحہ تھا جب پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا خواب حقیقت میں تبدیل ہوا۔تجربوں کی کامیابی کے کچھ دیر بعد وزیرِ اعظم جناب نواز شریف نے قوم سے مختصر خطاب میں قوم کو یہ خوش خبری سنائی۔

پاکستان کے اندر قوم کا جوش و خروش دیدنی ہو گا جس کا میں صرف اندازہ لگا سکتا ہوں۔میں خود اس وقت جدہ میں تھا۔  سعودی عرب میں وہاں کے رہنماؤں اور شہریوں کی عجیب حالت تھی۔پہلی دفعہ ایسا ہو رہا تھا کہ ہر سعودی ہم پاکستانیوں کو دیکھ کر دور سے ہی چہرے پر بشاشت اور خوشی سجا لیتا تھا اور انگوٹھا اوپر اُٹھا کر ویل ڈن کہنے کا اشارہ کرتا تھا۔

نیوکلیئر تجربات کے فوراً بعد جہاں امریکا اور مغربی دنیا کی طرف سے پاکستان پر فوجی اور معاشی پابندیاں تو لگ گئیں لیکن شکر ہے کہ بھارت کی زبان تبدیل ہو گئی اور اب بھارتی رہنماء بات کرتے ہوئے احتیاط برتنے لگے۔25سال پہلے کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کا دفاع تو خاصا مضبوط ہوگیا لیکن ہم نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔

ایٹمی قوت ہوتے ہوئے ہم ایک ایسے قوی ہیکل پہلوان کی طرح ہیں جس کے پاس بے پناہ جسمانی قوت تو ہے لیکن کھانے کے لیے کچھ نہیں۔روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔روس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔

اس ملک کے وسائل بھی بہت ہیں لیکن افغانستان میں جنگ کی وجہ سے اس کے اندر سے کئی ممالک نے جنم لے لیا۔اگر روس جیسی بڑی فوجی قوت اور بے پناہ وسائل رکھنے والا ملک معیشت کی تباہی کی وجہ سے بکھر سکتا ہے تو ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے اوراپنی معیشت کی بحالی پر پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

موجودہ زمانے کو فورتھ انڈسٹریل ریوولوشن 4th Industrial Revolutionکا دور کہا جاتا ہے۔اس دور میں آئی ٹی ایک ایسا شعبہ ہے جو کسی بھی معیشت کو صرف چند سالوں میں بہتر کر کے ملک کی کایا پلٹ سکتا ہے۔آئی ٹی کمپنی بنانے کے لیے بڑا سرمایہ درکار نہیں ہوتا۔زرِ مبادلہ بھی بہت کم چاہیے۔

پاکستان میں آپٹک فائبر موجود ہے۔صرف 4جی سے 5جی کی طرف بڑھنا ہے تاکہ انٹرنیٹ کی رفتار بہت تیز ہو جائے۔بھارت نے بہت پہلے جواہر لال نہرو کے دور میں اس شعبے پر توجہ دی اور آئی ٹی ماہرین کی ایک بڑی کھیپ تیار کر دی۔1997میں جب ملینیم بگ کا خطرہ پیدا ہوا تو بھارتی ماہرین نے موقعے سے فائدہ اُٹھا کر ملک کی معیشت کو مضبوط  کیا۔

آج دنیا کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اکثر سربراہ بھارتی آئی ٹی ماہرین ہیں۔بھارت اپنی آئی ٹی پروڈکٹس کی برآمد سے 185ارب ڈالر سالانہ کما رہا ہے اور ہم ہیں کہ وہ جو منیر نیازی نے کہا تھا کہ دیر کر دیتا ہوں میں۔ہم نے اس فیلڈ میں بس مِس کر دی ہے حالانکہ ہمارے کچھ لوگ بہت با صلاحیت ہیں۔

پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔یہ صحیح ہے کہ بھارت نے یہ دوڑ بہت پہلے شروع کی لیکن فورتھ انڈسٹریل ریوولوشن کے دور میں ہم اگر اب بھی صحیح فیصلے کر کے اس ٹیکنالوجی کی طرف قدم بڑھائیں تو یہ سفر صرف چند سالوں میں طے ہو سکتا ہے۔

2018میں ہم نے آئی ٹی پروڈکٹس کی برآمد سے ایک ارب ڈالر کمائے اور 2023کے شروع میں ہم تین سے چار ارب ڈالر پر کھڑے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال کوئی 25000ہزار آئی ٹی گریجویٹ نکلتے ہیں جن میں سے ایک چوتھائی اچھے معیار پر اترتے ہیں۔ باقیوں کا معیار اچھا نہیں ہوتا،ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں آئی ٹی طلباء کے معیار کو عالمی معیار پر لانا ہو گا ہم بہت لالچی لوگ ہیں۔

اپنے ذاتی فائدے کے لیے ملک کا نقصان کر لیتے ہیں۔پاکستان کے اندر قائم آئی ٹی کمپنیز جو پروڈکٹس تیار کرتی ہیں وہ ہمارے بینک یا سرکاری ادارے استعمال نہیں کرتے اور اپنا بڑاکمیشن حاصل کرنے کے لیے و ہی سلوشنز بیرونی ممالک سے منگوا لیتے ہیں جس سے پاکستانی کمپنیز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور پاکستان کا قیمتی زرِ مبادلہ باہر منتقل ہو جاتا ہے۔

آئی ٹی کے علاوہ زراعت، ٹرانسپورٹ، ہاؤسنگ اور دس مزید شعبے ہیں جن میں ری اسٹرکچرنگ کر کے اگر ہم فوری کام شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبلِ قریب میں پاکستان کو ایک خوشحال ملک نہ بنا دیں لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام اور لانگ ٹرم مربوط پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے۔

اگر ہمارے سیاسی زعماء اس کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے تو تمام سیاسی دھڑوں سے وابستہ افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی پسند کی پارٹی کے سربراہ پر زور دیں کہ ملکی معیشت کو صحیح سمت عطا کرنے کے لیے اکٹھے بیٹھیں اور ایک لائحہ عمل طے کریں۔ میرے خدا میری دھرتی کے نوجوانوں میں میرے ہم خیال پیدا کر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔