نگلنے میں دشواری کے مرض کی دو اہم وجوہ ہوسکتی ہیں، پاکستانی ماہرین

اسٹاف رپورٹر  اتوار 4 جون 2023
اگرنگلنے میں تکلیف کےمرض کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو وہ دیگر عوامل کے ساتھ لاعلاج ہوتا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

اگرنگلنے میں تکلیف کےمرض کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو وہ دیگر عوامل کے ساتھ لاعلاج ہوتا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

  کراچی: کھانا نگلنے یا حلق سے اتارنے میں دشواری کی دو اہم وجوہ ہوسکتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ تشخیص وعلاج میں مشکلات پیس آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی وجوہ جاننا بہت ضروری ہے۔

ان خلیات کا اظہار پاکستانی ماہرین نے کیا جسے طب کی زبان میں ڈسفیجیا بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں مریض کھانا نگلنے میں دقت محسوس کرتا ہے۔ ڈسفیجیا کی دو وجوہ ہوسکتی ہے جن میں سے ایک آنکھ ، ناک اور حلق (ای این ٹی) اور دوسری معدے یا گیسٹروانٹرائٹس ہوسکتی ہے۔

ای این ٹی اور گیسٹرو انٹرائٹس کی علامات مشابہ ہونے کے باعث اسکی تشخیص میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو تکلیف بھی ہوتی ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی میں شعبہ ہیڈ اینڈ نیک سرجری اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف گیسٹرو انٹرالوجی لیور ڈیزیز (نلگڈ) اس مرض کی تشخیص، تسلی بخش علاج کے لئے باہم مربوط ہیں۔

یہ باتیں ماہرین صحت نے ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج میں اپ ڈیٹس آن” ڈسفیجیا مینیجمنٹ” کے عنوان سے اکیڈمک سیشن اور پینل ڈسکشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہیں۔ جسکی مہمان خصوصی پرو وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر نازلی حسین، برطانیہ سے آئی ہوئی سرجن ڈاکٹر شادابہ احمد نے تجربات بیان کئے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر زیبا حق، ڈاکٹر زیبا احمد، پروفیسر شجاع فرخ، پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی، ڈاکٹر زاہد اعظم، ڈاکٹر حفیظ اللہ شیخ،ودیگر نے خطاب کیا۔

ڈاکٹر شادابہ احمد نے اپنے لیکچر میں کہا کہ کھانے پینے میں دشواری کی شکایت لے کر طبی مدد کے لئے آنے والے 50 فیصد مریضوں میں عموماً ڈسفیجیا کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عموماً ڈسفیجیا کی علامات امراض ناک، کان و حلق والی ہی ہوتی ہے اس لئے ڈسفیجیا کی تشخیص نہیں ہو پاتی۔

ای این ٹی پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کے لئے ضروری ہے کہ مریض کی ہسٹری ضرور لیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مریض کو چبانے اور نگلنے میں مشکل ہے تو اسے “اپر ڈسفیجیا” کہا جاتا ہے جبکہ غذائی نالی کی تکلیف کو “ایسوفیجل ڈسفیجیا” کہا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمگیر سطح پر دیکھا جائے تو مختلف امراض میں مبتلا افراد میں سے چار فیصد ڈسفیجیا کا شکار ہیں۔ ڈسفیجیا منہ (اورل کیویٹی) سے معدے تک کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ ڈسفیجیا اور اوڈائنو فیجیا کی علامات ایک جیسی ہونے کے باعث ڈسفیجیا کی تشخیص میں تاخیر ہوئی ہے۔ اوڈائنو فیجیا میں گلے میں درد اور سوجن ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈسفیجیا کے مؤثر علاج کے لیے ٹرانس نیزل ایسوفیجل انڈوسکوپی(ٹی این او) ایک بہتر طریقہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈسفیجیا کے علاج کےلئے برطانیہ میں کوئی معیارات (اسٹینڈرڈز) تو مقرر نہیں البتہ رہنما اصول (گائیڈلائنز) ضرور مرتب کی گئی ہیں۔

ڈاکٹرز اپنی آسانی کے لئے مختلف طریقوں سے ڈسفیجیا کا علاج کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ٹرانس نیزل ایسوفیجل انڈوسکوپی یعنی ناک کے ذریعے غذائی نالی تک نلکی (انڈواسکوپ) ڈال کر اس کا علاج کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈسفیجیا کی تشخیص میں تاخیر کا سبب انٹرنیٹ کے ذریعے سرچنگ بھی ہے کیونکہ آجکل “گوگل اور یاہو ڈاکٹر” سب کی دسترس میں ہیں۔

ڈسفیجیا کی تشخیص کے لئے مریض کی علامات کے ساتھ ہسٹری پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ پرو وائس چانسلر پروفیسر نازلی حسین نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب نے برطانیہ میں اپنے تجربات کی روشنی میں جو نئی معلومات فراہم کی ہیں وہ ہمارے پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گی۔

ڈاکٹر زاہد اعظم نے کہا کہ ڈسفیجیا کی درست تشخیص کے بعد علاج شروع کرنے سے پہلے وہ ای این ٹی کا مشورہ ضرور لیتے ہیں۔پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی نے کہا کہ ملٹی ڈسیپلینری مرض ہونے کے باعث ڈسفیجیا کے بعض کیسز کی درست تشخیص نہیں ہوتی اور مریض کینسر یا کسی دوسری پیچیدگی کا شکار ہو کر لاعلاج ہوجاتا ہے۔ تقریب کے آخر میں پروفیسر نازلی حسین نے برطانیہ سے آئی ای این ٹی کنسلٹنٹ ڈاکٹر شادابہ احمد کو یادگاری شیلڈ دی جبکہ پینل ڈسکشن میں پوسٹ گریجویٹ طلبا نے ڈسفیجیا کے کیسز بھی پیش کئے اور اس حوالے سے پینل ڈیسک نے ماہرانہ مشورے بھی دیئے۔ بعد ازاں کیسز پیش کرنے والے طلبا کو اسناد بھی دی گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔