ترقی پسند رائٹرز کی تحریک

جمیل مرغز  منگل 6 جون 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

1936 میں پہلی آل انڈیا پراگریسیو رائٹرز کانفرنس (AIPWC) ہوئی‘کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنا کسانوں کا ونگ بنایا اور انڈین نیشنل کانگریس کے سالانہ اجلاس میں اس کے ساتھ اتحاد کیا۔

سجاد ظہیر کو AIPWA کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیاجب کہ پریم صدر کے طور پر منتخب کیا گیا۔’’ترقی پسند مصنفین کی تحریک‘‘ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک‘ ادب کو مقصدیت عطا کرنا ‘جو سوویت یونین کی رائٹرز یونین سے متاثر تھا ۔

پریم چند کا انتخاب بہترین اور تدبر پر مبنی فیصلہ تھا ‘ اس کا مقصد انجمن کو‘مخالفین کے ان الزامات سے بچانا تھا کہ یہ تنظیم کمیونسٹوں نے اپنے نظریے کی ترویج کے لیے قائم کی ہے ‘ان مخالفین کا خصوصی نشانہ انجمن کے روح رواں سجاد ظہیر تھے‘ جو ایک مشہور کمیونسٹ تھے اور انجمن کے بانی بھی تھے۔

ترقی پسند اوربائیں بازو کا ظہور عام لوگوں کو ثقافتی اور سیاسی شعور دے رہا تھا‘انھیں منظم طریقے سے ایک ایسے نظام کی طرف مائل کیا جا رہا تھا‘ جو معاشی اور سماجی مساوات کے اصول پر استوار ہو۔

1947میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ‘پاکستان اور ہندوستان کو وراثت میں ایسے ادارے اور سیاسی نظریات ملے جو برطانوی دور حکومت میں موجود تھے۔

سجاد ظہیر کو ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان بھیجا‘جب کہ بہت سے ہندو اور سکھ مصنفین پاکستان سے چلے گئے ‘سجاد ظہیر نے آل پاکستان پراگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن (APPWA) قائم کی اور 1948میں کمیونسٹ پارٹی ا ٓف پاکستان (CPP)کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے سیکریٹری جنرل بنے۔

APPWAکو نئے سرے سے اپنا کام کرنا اور ساکھ بحال کرنا تھی ‘اس دوران سعادت حسن منٹو‘تقسیم کے حوالے سے لکھ رہے تھے‘جو عوام کے دل کی گہرائیوں سے گونج رہے تھے ‘کرشن چندر نے 1947کے اجتماعی قتل کے بارے میں ’’ہم وحشی ہیں‘‘ لکھا ‘انجمن ایسا ادب تیار کرنا چاہتی تھی جو تقسیم کو اشتراکی انقلاب کے تناظر میں دیکھے ،کرشن چندراور منٹو‘ اس کے بارے میں لکھ رہے تھے کہ تاریخ کے ایک تکلیف دہ دور میں انسان ہونے کا کیا مطلب ہے؟

اذیت ناک خونریزی کا مشاہدہ کرنا اورشناخت کے کھو جانے سے نمٹنا‘ نیزپاکستان کا اقتصادی ترقی کے لیے پہلا طویل مدتی منصوبہ نجی شعبے پر زیادہ انحصار کرتا تھا‘یہ نا گزیر تھا کہ ملک سرمایہ داری اور عالمی سامراجی کیمپ کی طرف جائے گااور اس کے نتیجے میں AAPWAپر رجعت پسند مصنفین نے ملک دشمنی کا الزام لگایا۔

ترقی پسند تحریک کا پہلا اجلاس 1949میں لاہور کے YMCAہال میں ہوا تھا ‘ سوویت یونین نے کانفرنس میں چار مندوبین بھیجے تھے ‘اجلاس میں شریک ادیبوں نے پاکستان میں عصری اردو ادبی رحجانات پر مبنی ایک ایک نئے منشور کا مسودہ تیار کیا اور اس بات کا اعلان کیا کہ ادیب اور شاعر اب سیاسی طور پر غیر جانبدارنہیں رہ سکتے ‘انھیں ترقی پسند نظریات پر سختی سے عمل کرنا تھا اور تحریک کو بڑھانے کے لیے ثابت قدم رہنا تھا ۔

مشہور ترقی پسند رہنماء میاں افتخار الدین نے 1947میں پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کے نام سے ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کیا تھا‘اور فیض احمد فیض اس کے ہفتہ وار میگزین دی پاکستان ٹائمز کے پہلے ایڈیٹر بن گئے۔

پاکستان ٹائمز ایک ایسا ذریعہ بن گیا تھا‘جس کے ذریعے پاکستان کے نوجوان دانشور ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے متاثر ہورہے تھے ‘فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے قابل ذکر شخصیات کے ساتھ میگزین کی وابستگی ‘جن کو اس وقت اردو کے نامور ادیبوںکے طور پر جانا جاتا تھا‘کی وجہ سے ترقی پسند مصنفین کو بھی پذیرائی مل گئی‘انھوں نے سوشلسٹ مستقبل کو رومانوی انداز میں پیش کیا۔

تقسیم ہند کے بعد آل انڈیا پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن کو مختلف مسائل کا سامنا تھا، وہ اپنے کام کو اردو میں شایع کرنے میں دشواری کا سامنا کر رہے تھے‘ جب کہ پاکستان میں تر قی پسندوں کو سیاسی چیلنجوں کا سامنا تھا‘ کمیونسٹ پارٹی حکومت کی مسلسل نگرانی میں تھی تاہم کمیونسٹ پارٹی خاصی سرعت سے کام کررہی تھی۔

اسی دوران راولپنڈی سازش کیس کا شور اٹھا، سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض اور ایک عسکری افسر پر بغاوت کے ذریعے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا الٹنے کا الزام عائدکر کے انھیں گرفتار کیا گیا اورکمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔

1951میں APPWAکو ایک سیاسی جماعت قراردے کر غیر قانونی قراردیا گیا تھا‘اگلے سات سالوں میں ایسوسی ایشن کو اپنی پوزیشن بحال رکھنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ 1958 میں پراگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر کمیونسٹ ملکوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام لگایا گیا اورجنرل ایوب خان نے ان الزامات کا سہارا لے کر کمپنی کے اثاثہ جات نیلام کرکے ترقی پسند تحریک کے مرکز کو ختم کردیا۔

4.6ملین پراگریسیو رائٹرز مومنٹ باضابطہ طور پر 1958 میں مرگئی اور اس کے ممبران روزگار کی تلاش میں ملک بھر میںبکھر گئے۔

USSR کی رائٹرز یونین کا مقصد ‘جس نے بعدمیں ترقی پسند مصنفین کی تحریک کو متاثر کیا‘با مقصد فن اور ادب کو تخلیق کرنا تھا‘اس کا مقصد محنت کش طبقے کو انفرادی سطح پر اورانکی جدوجہد کو سمجھ کر ان کی شعوری ترقی کرناتھی ‘لکھاریوں کو محنت کش طبقے کو درپیش مشکلات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔

تاہم یہ بہت سے قابل ذکر ترقی پسندوں اور ان لوگوں کے درمیان طبقاتی فرق تھاجن کے بارے میں وہ لکھ رہے تھے‘جس نے دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کیا‘کسی وقت اشرافیہ کو مارکسی ادب کے پڑھنے کا موقعہ ملا جو عوام کے لیے لکھا گیا تھا ‘وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

1919میں لینن نے میکسم گورکی کو ایک خط لکھاتھا‘جس کی وہ بہت تعریف کرتے اور ان لوگوں سے ان کی بڑھتی ہوئی ہوئی دوری پر ان پر تنقید بھی کی تھی ‘جن کے بارے میں وہ لکھ رہے تھے۔لینن نے لکھاکہ ’’اگر آپ مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں‘ تو آپ کو نیچے سے مشاہدہ کرناچاہیے۔

جہاں صوبوں اوردہی علاقوں میں مزدوروں کی بستی میں ایک نئی زندگی کی تعمیر کے کام کاسروے کرنا ممکن ہے ‘وہاں کسی کو انتہائی پیچیدہ اعداد و شمار کا سیاسی خلاصہ کرنے کی ضرورت نہیں‘بس اسے مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خط شاید برصغیر کے ترقی پسندوں کے لیے بھی اتنا ہی متعلقہ ہوتا۔

اپنی کمزوریوں اور خود کو برقرار رکھنے میں ناکامی کے باوجود ترقی پسند مصنفین کی تحریک نے پاکستان کے ہم عصر قارئین اور ادیبوں کو ایک بھرپور ادبی میراث عطا کی ‘جس میں انگارے اور اس دور میں وجود میں آنے والی دیگر تحریروں سے ملتے جلتے افسانے کے کاموں کو متاثر کرنے کی کوشش کی اور ہر چیز کے باوجود اس نے جبر کے خلاف مزاحمت کرنے کا اجتماعی شعور پیدا کیا جو آج تک بہت سے مصنفین اور قارئین میں برقرار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔