بی جے پی کے زوال کا آغاز

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہندوستان کو آزادی دلانے والی سیاسی جماعت کانگریس کا بول بالا تھا۔ بھارت کے کسان اور مسلمان اِس کا ووٹ بینک تھے۔کانگریس کے حمایتیوں کا نعرہ تھا ’’کانگریس نے دی آزادی، زنجیر غلامی کی توڑی، ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی۔‘‘

پھر کانگریس کا زوال شروع ہوا جس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ پہلا سبب کسانوں کی بیزاری اور دوسرا سبب مسلمانوں سے عدم دلچسپی۔ بھارت کے کسانوں نے کانگریس کی حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے کانگریس حکومت کے خلاف احتجاج کا پرچم بلند کیا۔

دوسرا سبب کانگریس کے دورِ اقتدار میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ جس نے کانگریس پارٹی کو مسلمانوں کی حمایت سے محروم کر دیا۔ یاد رہے کہ بابری مسجد کی شہادت کا دل خراش سانحہ جس وقت پیش آیا جب نرسمہا راؤ کانگریس کے وزیر اعظم تھے۔ سچ پوچھیے تو کانگریس پارٹی نے اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھودی تھی۔ پھر اُس کے بعد اُس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

بھارت کی سیاست میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کانگریس کو ایک طویل جدوجہد کرنا پڑے گی جس کا آغاز ہوچکا ہے۔

بھارت کی ریاست کرناٹک کے اسٹیٹ اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں کانگریس کی زبردست فتح اور بی جے پی کی بہت بری شکست اِس بات کی طرف اشارہ ہے۔ مئی میں ہونے والے حالیہ انتخابات نے ثابت کردیا کہ کانگریس پارٹی کرناٹک کی ہردل عزیز اور  مقبول جماعت ہے اور بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین نکل چکی ہے۔

یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت کی قوم پرست انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کا جنازہ اٹھنے والا ہے اور کانگریس دوبارہ اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی جانب پیش رفت کرنے والی ہے۔

بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کرناٹک میں مسلمان برقعہ پوش طالبات کے تعلیمی اداروں میں داخل ہونے پر بی جے پی کے غنڈوں نے ہنگامہ آرائی کی تھی اور اِن طالبات کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کی تھی اور اُنہیں زد و کوب بھی کیا تھا۔اُس وقت بی جے پی کی قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اُنہیں اُن کی غنڈہ گردی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

اِس کے علاوہ بی جے پی کے حامیوں نے ریاست کرناٹک میں کرپشن اور بدعنوانی کی انتہا کی ہوئی تھی۔ہر طرف غنڈہ گردی اور بدمعاشی تھی۔  کرناٹک کے عوام تنگ آچکے تھے اور اُنہیں موقع کی تلاش تھی کہ اِس انتہا پسندی کو کب اور کیوں کر ختم کیا جائے۔

بالآخر حالیہ انتخابات میں اُنہیں یہ سنہری موقع میسر آگیا اور بی جے پی کے انتہا پسندوں کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا پڑی۔بی جے پی کی اِس بدمعاشی سے تنگ آکر پارٹی کے کچھ لوگوں نے جن میں شرافت کا کوئی نہ کوئی عنصر موجود تھا پارٹی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا اور کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ اِس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ بدمعاشی اور بدعنوانی کا دور ہمیشہ نہیں رہتا۔

ظلم کی ٹہنی کبھی پَھلتی نہیں

ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں

کرناٹک میں بی جے پی کے پیر اکھڑ گئے ہیں جو اِس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہوا کا رخ بدل گیا ہے اور بی جے پی کے دن گِنے جاچکے ہیں۔ بی جے پی نے ظلم کی انتہا کردی ہے اور اب وہ دور شروع ہوچکا ہے جب اُسے اپنے گناہوں کا حساب چکانا ہوگا۔

بی جے پی کی حکومت نے اقلیتوں کا ناطقہ بند کردیا اور مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں کا جینا حرام کردیا۔بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو وہاں کے مسلمانوں پر نہ ڈھایا گیا ہو۔ مسلمانوں کی نوجوان نسل کا قتل عام کیا گیا اور مسلم خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ریاست کی مسلم آبادی کو اکثریت سے اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے کالے قوانین بنائے گئے۔

مسلمانوں کے گھر منہدم اور مسمار کیے گئے، اُنہیں درگزر کیا گیا، اُن کی جگہوں پر باہر سے لا لا کر ہندوؤں کو آباد کیا گیا۔بین الاقوامی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ بھارت کے مسلمانوں پر جو بھارت کی دوسری بڑی اکثریت ہیں طرح طرح کے اتیاچار کیے گئے اور انتہا یہ کہ اُن کی مساجد کی بے حرمتی کی گئی۔

گجرات کے مسلمانوں کے قصاب نریندر مودی کو بھارت کا پردھان منتری بنا دیا گیا۔ یہ وہی شخص تھا جس کی کبھی امریکا میں داخلہ پر پابندی عائد تھی۔بی جے پی حکومت کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہی تھی۔

وہ دنیا کو یہ تاثر دے رہی تھی کہ سب ٹھیک ہے۔ سری نگر میں جی ٹونٹی کی حالیہ کانفرنس کا انعقاد اِس سلسلہ کی ایک کڑی تھی جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے اور صورتحال بھارت کے کنٹرول میں ہے۔

بھارت جی ٹونٹی کی صدارت کرکے عالمی برادری کو یہ دھوکا دینا چاہتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر اُس کی گرفت مضبوط ہے اور حالات معمول کے مطابق ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُس کی یہ چال بری طرح ناکام ہوگئی کیونکہ چین، سعودی عرب اور مصر نے کانفرنس میں شرکت نہ کرکے ڈھول کا پول کھول دیا ہے اور بھارت کے غبارہ سے ہوا نکال دی ہے۔