پیپلز پارٹی کے لیے ایک موقع

عبد الحمید  جمعـء 9 جون 2023
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

اپریل 2022ء میں سابق وزیراعظم کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے اور پی ڈی ایم کی حکومت بننے سے پہلے مسلم لیگ ن ملک کی سب سے مقبول جماعت تھی۔جناب شہباز شریف کے وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے سے پہلے ن لیگ نے پنجاب میں تقریباً سارے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

خیبر پختون خواہ میں بھی اس کی کارکردگی اچھی رہی جس کی وجہ سابق حکومت کے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں اس کی خراب کارکردگی تھی۔ پورے نہ ہو سکے۔لوگوں کو نوید سنائی گئی تھی کہ حکومتی جماعت کے پاس ایک بہترین ٹیم ہے جو پہلے 100دنوں میں وہ کچھ حاصل کر لے گی جو پاکستان کی تاریخ میں اب تک حاصل نہیں ہو سکا۔

یہ بھی کہا گیا کہ ملک اتنا خوش حال ہو جائے گا کہ باہر کے ممالک سے لوگ ملازمت کرنے پاکستان آئیں گے لیکن ہوا یہ کہ بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی۔روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں اوپر جانے لگیں۔

ڈالر مہنگا اور روپے کی قدر گھٹنے لگی۔عوام تو امید لگائے بیٹھے تھے کہ ان کی زندگیوں میں بہار آئے گی لیکن الٹا عوام کا جینا دو بھر ہو گیا۔

جناب آصف علی زرداری حرکت میں آئے۔انھوں نے شہباز شریف صاحب کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت بنانے کی تجویز دی۔ یوں تحریک اعتماد کامیاب ہوئی اور وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت قائم ہوئی۔

پی ڈی ایم حکومت مہنگائی کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔مہنگائی اوپر ہی اوپر گئی جس سے ن لیگ کا ووٹر خاص طور پر اور عوام عام طور پر بہت بد دل ہوئے۔عوام کی قوتِ خرید بری طرح متاثر ہوئی۔ جناب اسحاق ڈار نے بہت بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ڈالر کو 180روپے سے کم کا ہونا چاہیئے۔یہ کھوکھلے نعرے ن لیگ کے لیے نقصان کا باعث بنے کیونکہ بڑھتی مہنگائی اور کاروباری مندی نے عوام کی چیخیں نکال دیں۔مڈل انکم گروپ اور تنخواہ دار طبقہ،جو مسلم لیگ ن کا ہمیشہ سپورٹر رہا ہے،اس طبقے کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

9 مئی کے افسوس ناک واقعات پر ہوئے جلاؤ گھیراؤ،توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کے واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔واقعات میں ملوث کئی ایک کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم بہت کامیابی سے سوالات اُٹھا رہی ہے لیکن اس حقیقت سے پہلو تہی کر رہی ہے کہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے گیٹ پر حملہ کرنے والے خود کیا بیانات دے رہے تھے۔

مراد سعید کارکنوں کو جو ہدایات دے رہے تھے تو اس سے کیا سمجھا جائے۔شہیدوں کی یادگاروں کو کیوں بے حرمت کیا گیا اور پاکستان ایئر فورس نے کیا برا کیا تھا کہ ایئر بیسز پر حملہ ہوا۔جو بھی ہو یہ طے ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے وہ کام کیا ہے‘ جو دشمن بھی نہیں کر سکتا۔

جے یو آئی کے سربراہ جناب فضل الرحمان صاحب بہت زیرک سیاستدان ہیں۔اپنی چند نشستوں کے ساتھ انھوں نے ہمیشہ وفاقی حکومت میں اپنے حصے سے زیادہ مراعات اور وزارتیں لی ہیں۔بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں اُن کا قدرے ووٹ بینک بھی ہے لیکن یہ سیاسی و مذہبی جماعت کبھی بھی اس پوزیشن میں نہیں آئی کہ حکومت سازی کر سکے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی اس سے پہلے متعدد بار حکومت بنا چکی ہے اور حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ اب پھر اس جماعت کے لیے راستہ ہموار ہو رہا ہے۔پی پی پی کو صوبہ سندھ میں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔سندھ میں اس کے مدِ مقابل جتنی پارٹیاں ہیں وہ مقبول نہیں۔سندھ سے قومی اسمبلی کی زیادہ سیٹیں پی پی پی کے ہی حصے میں آتی ہیں۔

ایک وقت تھا جب پی پی پی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت تھی لیکن پھر ن لیگ نے پی پی پی سے یہ اعزاز چھین لیا اور پنجاب ن لیگ کا گڑھ بن گیا۔پنجاب اور خاص کر سینٹرل اور نارتھ پنجاب میں پی پی پی کا ووٹ بینک بہت سکڑ چکا ہے۔

یہی صورتحال کے پی کے میں ہے لیکن9مئی کے افسوسناک واقعات نے پی پی پی کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ تمام پاکستان اور خاص کر پنجاب میں اپنی جگہ بنائے۔ اگلے انتخابات پی ٹی آئی کو جیتنا مشکل ہیں۔ن لیگ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔جناب اسحاق ڈار عوام کو اس بوجھ سے چھٹکارا نہیں دلا سکے۔اچھے وقتوں میں ہر کوئی پرفارم کر سکتا ہے۔

امتحان تب آتا ہے جب حالات خراب ہوں۔میں نے پہلے ایک کالم میں کہا تھا کہ Fallکو ہینڈل کرنا ہی اچھی لیڈرشپ کا کام ہوتا ہے۔ن لیگ کی لیڈر شپ ابھی تک اس امتحان میں کامیاب نہیں۔ پی پی پی نے ابھی سے ن لیگ سے ہاتھ کرنا شروع کر دیا ہے۔

ن لیگ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔پی پی پی کو ایسا کوئی چیلنج درپیش نہیں۔حکومتی فائدہ اٹھا لیا اور ذمے واری بھی کوئی نہیں۔جناب زرداری اور جناب بلاول کے سامنے یہ بہت اچھا موقع ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پنجاب پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔وہ کے پی کے پر بھی توجہ دینا چاہیں گے۔

میری دانست میں پی پی پی کے لیے جنوبی پنجاب میں اچھے مواقع ہیں۔اسی طرح کے پی کے میں بھی وہ اچھا پرفارم کر سکتی ہے۔موجودہ وقت میں ن لیگ کی مشکلات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ بھی شاید پی پی پی کو سپورٹ کرے۔ اس لیے لگتاہے کہ اگلی حکومت بنانے کے لیے پی پی پی سب سے بہتر پوزیشن میں ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔