پانی کے ستائے شہری

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  منگل 29 اپريل 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

پانی کی اہمیت سے ہر ذی روح واقف ہے۔ پانی زندگی دیتا بھی ہے اور اس سے محروم بھی کردیتا ہے۔ آج ہر شخص یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ آیندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر لڑی جائیں گی۔ چند دن پہلے وزیر منصوبہ بندی فاروق احسن نے بھارت سے پرزور احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک رہا ہے، وہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرے اور اس میں طے شدہ حصہ جاری رکھے۔ اگر یہ مسئلہ بڑھتا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان تلخی اور کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ بھارت کشمیر پر بھی قابض ہے اور دریاؤں کے ابتدائی حصے پر ہونے کی وجہ سے ہمارے نہری نظام کو متاثر کرتا رہتا ہے، جب پانی کی قلت ہوتی ہے ہمارے دریاؤں کو خشک کردیتا ہے، جب بہتات ہو تو بغیر اطلاع کے بھی پانی کا بہاؤ کھول دیتا ہے جس کی وجہ سے خشک سالی اور سیلاب دونوں صورتوں میں فصلیں، جانور اور انسان بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

لیکن ہمارے حکمرانوں کے پاس اس سلسلے میں کوئی پالیسی نظر نہیں آتی، وہ ڈیموں کی تعمیر کے مسئلے پر بھی سیاست بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس میں حکمرانوں کے ساتھ سیاستدانوں اور خود عوام کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے تو اپنے مفادات، ترجیحات اور مصلحتیں ہیں، ان کو تو پینے کے لیے فرانس کا پانی میسر آجاتا ہے، معمولی سی تکلیف کے علاج کے لیے اسمبلی کا ایک عام ممبر بھی دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج بمعہ تمام سہولیات کراسکتا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان، تابناک مستقبل کے دعوے کرکے بھوکے عوام سے خوب تالیاں بجواتا اور نعرے لگواتا ہے، جن کی غالب اکثریت کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہوتا اور جن کی 80 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ افراد گردے، جگر، دل، پھیپھڑے اور دیگر اعضا کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی عالمی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مختلف مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے والے لوگ اقتصادیات کے پیداواری عمل سے باہر ہوجاتے ہیں جس سے عالمی معیشت کو کم ازکم دو کھرب ڈالر کا سالانہ نقصان ہورہا ہے۔ بیماریوں میں مبتلا افراد معاشی عمل سے مکمل طور پر باہر نہ بھی نکلیں تو ان کی کارکردگی میں نمایاں کمی آجاتی ہے جس کا اثر دنیا کی مجموعی معاشی صورتحال پر پڑ رہا ہے۔ رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ اس مسئلے پر کارپوریٹ کارکردگی کو فروغ دے کر ان امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومتیں صحت کے امور پر توجہ دیں تو بیماریوں میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے۔

ہمارے ہاں آلودگی سے ہونے والی بیماریوں اور ہلاکتوں کے بعد دوسری سب سے بڑی وجہ تمباکو نوشی اور صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ صحت کے لیے فی شہری 95 روپے سالانہ مختص ہیں جس سے صحت کے مسئلے پر حکومتی سنجیدگی اور مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ تھر کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پانی اور صحت عامہ کی سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر چند سال بعد انسانی المیے جنم لیتے رہتے ہیں۔ حالیہ صورتحال میں بھی یہاں کے 260 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں، انسان اور جانوروں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی یا بیماریوں میں مبتلا ہوئی، فصلیں کاشت نہ ہوسکیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں پانی کی کمی خطرے کے نشان تک پہنچ چکی ہے۔ جس کی وجہ سے دریاؤں کے پانی میں پولیو، ہیپاٹائٹس، ہیضہ اور جلدی امراض کے وائرس آچکے ہیں۔ فیکٹریوں اور گٹروں کا پانی نہروں میں ڈال دیا جاتا ہے اور گٹروں کا پانی پینے کے پانی میں شامل ہوکر بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ پانی میں نمکیات، کلورائیڈ، سوڈیم، پوٹاشیم جیسے اجزا کی جگہ ان مہلک وائرس نے لے لی تو سمجھدار اور محتاط قسم کے لوگوں نے منرل واٹر کا استعمال شروع کردیا۔ اگرچہ شہریوں کی کثیر تعداد اس کی متحمل نہ ہونے کی وجہ آلودہ پانی بھی استعمال کرنے پر ہی مجبور ہے لیکن منرل واٹر کی جو بے تحاشا کمپنیاں قائم ہوچکی ہیں وہ معیاری پانی فراہم نہیں کر رہی ہیں، کچی آبادیوں میں ٹب سے قیف کے ذریعے بوتلیں بھر کر مختلف لیبلوں سے مارکیٹ میں فروخت کرکے خوب منافع کما رہی ہیں، جن کو انتظامیہ کی آشیرباد حاصل ہے۔

شہروں میں پانی کی قلت کا بحران خوفناک صورتحال اختیار کرگیا ہے۔ گھروں کے نلکوں میں تو پانی نہیں آتا مگر ٹینکر مافیا کا راج ہے، ان کے ہائیڈرنٹ پمپس بھی چل رہے ہیں، وہ پانی کی سپلائی کی مین لائن توڑ کر موٹروں کے ذریعے پانی سپلائی کر رہے ہیں اور انھوں نے ان لائنوں کو توڑ کر مصنوعی جوہڑ بھی بنائے ہوئے ہیں، جہاں سے آلودہ پانی بھر کر من چاہے نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پانی کی بوند بوند کو ترسے شہری گھروں میں بورنگ کرانے اور کنویں کھدوانے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ سے بورنگ کرنے والوں نے بھی لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ پہلے تو بجلی کے ستائے افراد سڑکوں پر آکر ہنگامہ آرائی و توڑ پھوڑ کرتے تھے، اب پانی سے محروم عورتیں اور بچے تک سڑکوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں جس سے ٹریفک جام کے واقعات معمول بن چکے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے اطراف کی شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے، گھنٹوں گھنٹوں شہری ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔

اس وقت اور ایندھن کے ضیاع کا کون ذمے دار ہے؟ کاش مظاہرے کرنے والے افراد ٹریفک میں پھنسے ان بھائیوں کا خیال کرلیں کہ اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے، وہ تو خود رات بھر بجلی نہ ہونے یا پانی آنے کی امید پر شب بیداری کرکے اپنے کاموں یا کاروبار کی جگہ پر آ جا رہے ہیں، ان کی گاڑیوں پر پتھر کیوں مارے جائیں، انھیں زخمی کیوں کیا جائے؟ کیا اربوں روپے مالیت کا پانی ان کی وجہ سے سمندر میں ضایع ہوتا ہے؟ کیا اربوں کی فصلیں اور مویشی ان کے ہاتھ سے ضایع ہوتے ہیں؟ کیا بجلی، گیس، پانی کی عدم فراہمی یا تعطل اور ان کے گراں نرخوں کی وجہ سے صنعتیں غیر ممالک منتقل کرانے میں ان کا ہاتھ ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان کے ساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا جائے؟ کیوں نہ اس کے قصور وار اور ذمے داروں کی جانب اپنے احتجاج کا رخ موڑا جائے جو شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں، نہ سمندر میں ضایع ہوجانے والے اربوں روپے سالانہ کا پانی روکنے کی بھی امنگ نہ رکھتے ہوں، ٹینکر مافیا کے ساتھ مل کر اپنے ہی شہریوں کا استحصال کرتے ہوں، بھاری بھاری بلوں اور ٹیکسز کے عوض صنعتوں کو بجلی، پانی اور گیس جیسی سہولیات مہیا نہیں کرسکتے ہوں، جس دن عوام نے اپنی سوچ کی صحیح سمت اور احتجاج کا صحیح رخ مقرر کرلیا اسی دن سے اس کے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔