توانائی بچت پلان، تاجربرادری تعاون کرے  

محمد سعید آرائیں  ہفتہ 10 جون 2023
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

حکومت نے ایک بار پھر مارکیٹیں اور بازار رات کو 8 بجے بند کرانے کا فیصلہ کیا ہے جسے ملک کی تاجر تنظیموں نے حسب سابق مسترد کردیا ہے جس سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ ملک کے تاجروں کی تنظیموں کو کوئی احساس نہیں اور انھیں صرف اپنا کاروباری اور مالی مفاد عزیز ہے اور انھیں قومی مفاد کا کوئی احساس نہیں ہے اور انھوں نے اس سلسلے میں اب تک ہر حکومت کو ناکام بنا کر ثابت کردیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت سے اب تک پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد موجودہ اتحادی حکومت کے فیصلوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں اور ملک کی معاشی حالت کی کوئی فکر ہے نہ ملک میں سالوں سے جاری توانائی کے بحران کی کوئی پرواہ۔

اب تک ہر حکومت اس سلسلے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور کوئی بھی حکومت تاجروں کو اس سلسلے میں دکانیں جلد بند کرانے کے لیے آمادہ نہیں کرسکی اور ہر حکومت تاجروں کے دباؤ کے آگے جھکتی رہی اور تاجراپنی بات منوانے میں کامیاب رہے اور ہر بار حکومتوں کو ہی اپنے فیصلوں میں عمل کرانے میں مکمل طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

موجودہ حکومت ایک اتحادی حکومت ہے جس میں تاجروں کی حمایت یافتہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر پارٹیاں شامل ہیں اور بعض صوبوں میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں مگر حکومت تاجروں کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے کیونکہ تاجر دکانیں جلد بند کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ملک میں شاپ ایکٹ کا ایک بہت پرانا قانون موجود ہے جس کے تحت ماضی میں ہفتہ میں ایک دن دکانیں بند رکھی جاتی تھیں اور عمل نہ کرنے والوں کے چالان بھی ہوا کرتے تھے۔

ملک کے چھوٹے شہروں میں دکاندار ازخود جمعہ یا اتوار کو دکانیں بند رکھتے ہیں اور ملک کے ہر بڑے شہر میں ہول سیل مارکیٹیں اب بھی اتوار کو بند رہتی ہیں اور وفاقی حکومت کی مقررہ سرکاری تعطیلات پر بھی بینکوں کے ساتھ بند رہتی ہیں۔ تاجروں کا بینکوں سے قریبی تعلق رہتا ہے اور تاجروں کے کہنے پر ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جمعہ کو چھٹی ختم کرکے اتوار کی چھٹی بحال کی تھی جس پر مذہبی حلقوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔

دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے یہاں لاکھوں افراد گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے ڈبل ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہیں۔لاکھوں سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین صبح ڈیوٹی کے بعد پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں،کوئی برگر لگاتا ہے تو کوئی چپس،اسی طرح وہ مختلف کام کرتے ہیں۔دکانیں جلد بند کرنے سے ان لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہو گا۔رکشہ اور ٹیکسی والے جو رات دیر تک کام کرتے ہیں ان کا روزگار بھی متاثر ہوگا۔

جمعہ کی چھٹی پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی جو میاں نواز شریف نے اپنی حکومت میں ختم کردی تھی جب کہ سعودی عرب، یو اے ای اور متعدد مسلم ممالک میں اب بھی جمعہ کو ہفتے وار چھٹی ہوتی ہے اور وہاں کی ہر حکومت اپنے قوانین پر عمل کرانے میں کامیاب رہتی ہیں مگر پاکستان میں ہر حکومت اپنے فیصلوں پر عمل نہیں کرا پائی کہ ملک کے تاجر ملک میں جاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ہی اپنی دکانیں رات کو 8 بجے بند کردیں۔

حکومت نے رات کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی تو حکومتی اپیلوں پر توجہ نہ دی گئی اور بجلی کے متبادل کے طور پر جنریٹروں کا استعمال شروع کردیا گیا جو پٹرول، ڈیزل اور سوئی گیس سے چلتے ہیں۔ ہوٹلوں، ریسٹورنٹوں میں سوئی گیس کے کنکشن موجود ہیں انھوں نے جنریٹر سوئی گیس پر چلائے اور گھروں میں بھی بجلی نہ ہونے پر گیس جنریٹر استعمال ہوئے جس سے بجلی کے بعد ملک میں گیس کا بھی بحران پیدا ہوا۔

سوئی گیس کا بحران بڑھانے میں سی این جی اسٹیشنوں نے سب سے بڑا کردار ادا کیا جو بااثر افراد اور سیاستدانوں کے ہیں۔ گرمیوں کے باوجود سی این جی اسٹیشنوں کو گیس مل رہی ہے مگر گھروں کو اب بھی گیس نہیں دی جا رہی۔

اکثر دکانیں جمعہ اور اتوار کو بھی کھلی رہتی ہیں اور دکانیں رات دیر تک کھلی رہنا جاری ہے جس سے ملک میں پٹرول کی کھپت بہت بڑھ چکی ہے جو حکومت مختلف ممالک سے ڈالروں میں خرید رہی ہے۔

ملک میں روپے کی ویلیو بے حد کم اور ڈالر تین سو روپے سے بڑھ چکا ہے اور پٹرول پیدا کرنے والے ممالک اپنی پیداوار کم کر رہے ہیں جس سے پٹرول مزید مہنگا ہوگا اور حکومت کو پہلے سے زیادہ زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ ملک میں بینکوں کے اوقات اور تعطیلات مقرر ہیں جن پر بینک عمل کر رہے ہیں مگر تاجر تنظیمیں رات کو جلد دکانیں بند کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی حکومت کی کسی اپیل پر کان دھرنے کو تیار ہیں۔

اب حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی رٹ منوائے اور تاجروں کو صبح جلدی دکانیں کھولنے، رات کو جلد بند کرنے کے علاوہ شاپ ایکٹ سختی سے نافذ کرے اور ہر دکان ہفتے میں ایک روز ضرور بند کی جائے تو توانائی کا مسئلہ کچھ حل ہو سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔