تضادات کے بوجھ تلے

مقتدا منصور  اتوار 4 مئ 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میرے انتہائی قریبی دوست ندیم اختر سیاسیات و سماجیات پر گہر ی نظر رکھتے ہیں، مگر اپنی قلندرانہ صفت کے باعث منظر عام پر آنے سے گریز کرتے ہوئے گوشہ نشینی کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام ان کے خیالات سے مستفیض نہیں ہو پاتے۔ وہ دوستوں کی نجی محفلوں میں اکثر و بیشتر انتہائی عالمانہ باتیں کر جاتے ہیں۔ پچھلی مرتبہ ان کا ایک جملہ نقل کیا تھا کہ ’’جدید دنیا میں اختلافات کم ہو رہے ہیں اور بہت سے عالمی امور پر اتفاق رائے میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ اسی طرح چند روز پہلے انھوں نے دوستوں کی محفل میں کہا کہ ’’ہمیں اس تصور سے نکلنا ہو گا کہ دنیا ماضی میں بہت خراب جگہ تھی، ہم نے اسے بہتر بنایا ہے، بلکہ دنیا روزِ اول سے بہتری کی جانب گامزن ہے۔‘‘

دوسری اہم بات یہ کہ ’’جب ایشیا اور افریقہ میں یورپی نوآبادیات قائم ہوئیں، تو برطانیہ نے اپنی نوآبادیات کے لیے ایک مربوط سیاسی و انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جو کہ برطانوی جمہوری نظام کا عکس تھا۔‘‘ لیکن پاکستان سمیت چند ایسے ممالک ہیں، جہاں نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کو بے شمار رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مختلف دستاویزات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہدف ابتدائی سو برس تک تجارتی سہولیات کا حصول تھا مگر جن حالات سے ہندوستان گزر رہا تھا، انھوں نے کمپنی کو سیاسی و سماجی معاملات میں مداخلت پر اکسایا۔ برصغیر کے مختلف حصوں پر انگریزوں کا قبضہ سولہویں صدی کے آغاز ہی میں ہو گیا تھا۔

جنوب مشرقی شہر چنائے  (مدراس) ولندیزیوں کے قبضے تھا، جس پر 1612ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ مغرب میں واقع ساحلی شہر ممبئی (بمبئی) پر 1534ء میں پرتگالیوں کا قبضہ ہوا۔ 8 مئی 1661ء کو پرتگال کی شہزادی کیتھرائن کی شادی برطانیہ کے شہزادے چارلس دوئم کے ساتھ ہوئی تو یہ شہر جہیز میں برطانیہ کو مل گیا۔ 1757ء میں پلاسی کی جنگ کے نتیجے میں بنگال پر کمپنی کا قبضہ ہوا۔ یوں انیسویں صدی کی آمد تک ہندوستان کا بیشتر حصہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر تسلط آ چکا تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پورے ہندوستان پر برطانیہ کا عملاً مکمل قبضہ ہوگیا۔

اب اگر برٹش انڈیا کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک طرف برطانیہ کے ملوں اور فیکٹریوں کے لیے ہندوستان سے خام مال لے جایا جا رہا تھا، تو وہیں دوسری طرف پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر تاج برطانیہ کے براہ راست کنٹرول میں ہندوستان کے لیے ایک مکمل ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا، جس کا قبل ازیں کوئی تصور تک نہیں تھا۔ انگریز اہل دانش اور ماہرین سیاست و عمرانیات نے ہندوستان کے لیے قوانین کا ایک مکمل اور جدید ڈھانچہ تشکیل دیا۔ لارڈ میکالے نے ہندوستانیوں کے لیے جدید عصری تعلیمی نظام کی سفارش کے علاوہ انڈین پینل کوڈ، کریمنل پروسیجر کوڈ اور دیگر قوانین تیار کر کے ہندوستان کے لیے جدید طرزِ حکمرانی کے دروازے کھولے۔ تعلیم اور صحت تک عام آدمی کی رسائی کے لیے ہر تحصیل کی سطح پر ہائی اسکول اور سرکاری اسپتال قائم کیے۔

ضلع کی سطح پر کالج اور صوبے کی سطح پر یونیورسٹی کی تعلیم کا بندوبست کیا۔ پورے برصغیر کا انتظام چلانے اور مقامی لوگوں کو انتظامی ڈھانچے کا حصہ بنانے کے لیے جدید بنیادوں پر بیوروکریسی کا نظام تشکیل دیا گیا۔ اس نظام کے ذریعے اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک گریجویٹ ہندوستانی نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا اور پھر انھیں جدید انتظامی تربیت دے کر تاج برطانیہ کا معاون بنایا جاتا۔مقامی لوگوں کو سیاسی عمل میں شریک کرنے اور ترقیاتی پروگراموں میں حصے دار بنانے کے لیے بلدیاتی سطح پر محدود انتخابی عمل شروع کیا۔ برصغیر میں جمہوریت کا پہلا پودا 1680ء میں چنائے (مدراس) میں لگایا گیا، جہاں بلدیاتی کونسل تشکیل دی گئی، جس کے نصف اراکین نامزد کردہ ہوا کرتے تھے اور نصف کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ 1880ء سے یہ بلدیاتی نظام پورے برصغیر میں پھیلا دیا گیا۔

یہ بلدیاتی نظام ہی کا ثمر تھا کہ ہندوستانیوں میں مقامی مسائل اور ترقیاتی منصوبہ بندی کا رجحان پیدا ہوا۔ 1935ء میں ہندوستانیوں کو صوبائی اور مرکزی سطح پر شریک اقتدار کرنے کی غرض سے انڈیا ایکٹ 1935 ء تشکیل دے کر نافذ کیا گیا۔ آج بھی برصغیر کے تین ممالک بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش  کے آئین کا 90 فیصد حصہ اسی ایکٹ پر مشتمل ہے۔ برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت کے ماڈل کا جن لوگوں نے باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ نظام اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے، جب ریاست کے مختلف ادارے اپنی آئینی محدودات کے اندر رہتے ہوئے اپنے ادارہ جاتی اختیارات کا استعمال کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ایک ادارہ دوسرے ادارے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے اور اس کی آئینی حیثیت اور بااختیاریت کو تسلیم کرے۔

بھارت میں آزادی کے ابتدائی 5 برسوں کے دوران بعض اہم اقدامات کیے گئے، جن کی وجہ سے وہاں جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی مستحکم ہوا۔ اول، 26 فروری 1950ء کو آئی پارلیمان سے منظوری کے بعد نافذ ہو گیا۔ دوئم، ریاست، رجواڑے اور جاگیرداری کو مرحلہ وار ختم کر دیا گیا۔ سوئم، وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے نئی تعلیمی پالیسی اور وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے  بیوروکریسی میں اصلاحات کی دستاویز تیار کر کے حکومت پیش کر دی۔ نتیجتاً بھارت جمہوری استحکام کے راستے پر گامزن ہوا۔ سپریم کورٹ آئینی معاملات کی گتھیاں خالص آئینی انداز میں سلجھاتی ہے اور سیاسی ایڈونچرازم سے گریز کرتی ہے۔

الیکشن کمیشن مکمل طور پر بااختیار اور غیر متنازع ہے۔ اس کے فیصلے تسلیم کیے جاتے ہیں۔اس کے برعکس پاکستان میں حکمران، اسٹیبلشمنٹ اور مختلف دیگر شراکت دار جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے بارے میں مسلسل کنفیوزڈ چلے آ رہے ہیں۔ بعض حلقے آج بھی جمہوریت کو اسلام سے متصادم تصور کرتے ہوئے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری طرف بائیں بازو کے کچھ دانشور بھی جمہوریت کو سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار قرار دے کر اس کی مخالفت پر کمربستہ رہتے ہیں۔

یہی وہ روش اور رویے ہیں جن کی وجہ سے ابتدائی 11 برس تک آئین سازی کا عمل رکا رہا۔ 1973ء میں ملک دولخت ہونے کے بعد جو آئین تیار ہوا، اس میں خود اس کے خالقوں نے بعض غیر پارلیمانی تبدیلیاں کیں اور پھر دو مرتبہ وہ غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں معلق بھی رہا۔ 32 برس کی مطلق العنان فوجی آمریتیں اور سیاست پر فیوڈل اثرات نے سیاسی عمل کو فطری انداز میں پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ سیاست میں نظریات، اخلاقیات اور عوام سے وابستگی کا فقدان سیاست کو غیر ذمے دارانہ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت جو سیاسی قوتیں عوامی مقبولیت رکھتی ہیں، وہ یا تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں یا پھر اس کے سہارے انھوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے۔

مراعات یافتہ طبقات کے سیاست اور سیاسی عمل پر تسلط نے سیاست کو گلی محلوں سے نکال کر عالیشان بنگلوں کے یخ بستہ ڈرائنگ روموں اور پنج ستارہ ہوٹلوں تک محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سیاست کا عوام سے ناتا ٹوٹ گیا ہے۔ یہ ناتا اسی وقت بحال ہو سکتا ہے، جب سیاست سقوط ڈھاکا سے پہلے کی طرح مڈل کلاس قیادت کی دسترس میں ہو۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ ہر سال اس میں شامل ہو رہی ہو۔ مختلف ٹریڈ یونینز، پروفیشنل باڈیز اور متوشش شہریوں کی تنظیمیں سرگرم سیاسی عمل کو متحرک اور فعال بنا رہی ہوں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی سمت سے کیا جانے والا ایڈونچرازم جمہوریت کے تسلسل کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے نہ سیاسی جماعتوں اور نہ دیگر حلقوں کو ایڈونچرازم کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

تیسری اہم بات یہ کہ نظم حکمرانی میں پائی جانے والی تمامتر خامیوں، خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود موجودہ سیاسی نظام کو چلتے رہنا چاہیے۔ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی بھی کوشش جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے میرا ماننا یہ ہے کہ موجودہ حکومت سے بیشتر امور پر شدید اختلافات کے باوجود اس کا ختم ہونا اس ملک کے لیے کسی المیے سے کم نہیں ہو گا۔ اس لیے یہ تمام متوشش شہریوں کی ذمے داری ہے کہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی کریں اور تنقید کریں۔ لیکن حکومت گرانے کے کسی سازشی عمل کا حصہ بننے سے گریز کریں۔ ہم اس وقت مختلف نوعیت کے تضادات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کا خاتمہ اس بوجھ میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت کا تسلسل ہی اس بوجھ میں کمی لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔