پاکستان کی اخلاقی فتوحات سے کشمیر آزاد نہیں ہو گا

غلام محی الدین  ہفتہ 5 اگست 2023
دنیا کشمیر پر پاکستانی رہنماوں کی تقاریر بھی سنتی رہے گی اور بھارت کی عملی سہولت کاری بھی جاری رکھے گی ۔ فوٹو : فائل

دنیا کشمیر پر پاکستانی رہنماوں کی تقاریر بھی سنتی رہے گی اور بھارت کی عملی سہولت کاری بھی جاری رکھے گی ۔ فوٹو : فائل

 تاریخ عالم ہمیں یہی بتاتی ہے کہ بالادست قوتیں جب بھی کسی ناجائز قبضے کے معاملے میں کردار ادا کرنے کے لئے سامنے آتی ہیں۔

کسی تنازع کو نمٹانے کے لئے‘ کسی مسلح تصادم میں بیچ بچاؤ کرانے کے لئے مداخلت کرتی ہیں تو ان کا اصل مقصد اپنے فریق کی مدد کرنا ہوتا ہے خواہ وہ فریق سو فیصد غلط ہی کیوں نہ ہو‘ دوسروں کے حق پر ڈاکہ ہی کیوں نہ ڈال رہا ہو‘ زمین ہتھیا رہا ہو یا پھر جارحیت کا مرتکب ہوا ہو۔ جس طرح فلسطین کے معاملے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی مظلوم عوام کی مزاحمت کے باوجود اسرائیل کی پوزیشن مستحکم ہوتی گئی۔

اسی طرح دنیا کے ایک اور دیرینہ تنازع مسئلہ کشمیر پر بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قابض بھارت کا تسلط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہر مسلح تصادم کے بعد عالمی برادری کے موثر ترین ملکوں نے بھارت کے لئے گنجائش پیدا کی اور اس کے لئے اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کرنے کا موقع پیدا کیا۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان جب امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی قیادت نے اُن سے کشمیر پر مدد فراہم کرنے کے امکان پر بات کا آغاز کیا۔ یاد رہے کہ یہ بات امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی تھی حالانکہ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم امریکی صدر سے کشمیر پر حمایت کی درخواست کریں گے۔

جیسا کہ سب دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کوئی بھی کام مفت میں تو کرتا نہیں، لہٰذا امریکی مذاکرات کاروں کا انداز سودے بازی والا تھا کہ اگر امریکہ پاکستان کی کشمیر پر حمایت کرے تو جواب میں پاکستان سے امریکہ کس طرح کی اعانت چاہے گا۔

اس پر نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا ’’ہم نے آدھا کشمیر خود کسی کی مدد کے بغیر آزاد کرایا ہے اور یہ کام ہم نے جنگ لڑ کر کیا ہے‘‘۔ اس سے مناسب جواب اور کیا ہوسکتا ہے ۔ اس میں انہوں نے دو نہایت اہم نکتے باور کرائے تھے۔

پہلا یہ کہ کشمیر جیسے معاملے منت سماجت اور دوسروں پر انحصار سے حل نہیں ہوتے اور دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان نے جیسے اپنے حق کے لئے پہلے جنگ کی تھی آئندہ بھی کشمیر کے لئے کسی جنگ سے گریز نہیں کرے گا۔ ہماری بدقسمتی کہ ہماری اپنی صفوں میں ایسے مشیران ’’با تدبیر‘‘ ہمیشہ موجود رہے ہیں جو ایک طرح سے جانتے بوجھتے یا پھر ’’مغربی دانش‘‘ سے متاثر ہو کر نادانی میں دشمن کی سہولت کاری پر آمادہ رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک طبقہ مسلسل یہ رٹ لگائے رکھتا ہے کہ کشمیر کا کوئی بھی فیصلہ جنگ سے ممکن ہی نہیں۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے معاملے کو مسلم تشخص کے حوالے سے اجاگر نہ کیا جائے کیونکہ مغرب اس استد لال کو پسند نہیں کرتا۔ کشمیر کے مسلے کو کشمیری قومیت کی بنیاد پر اُجاگر کیا جانا چاہیے۔

یعنی پاکستان بن جانے کے بعد بھی پاکستان کی اساس کو بالواسطہ یا بالاواسطہ ہر انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فلسطین میں آبادی کا تناسب مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دینے کی نیت سے یہودیوں کے حق میں بہتر بنانے والی عالمی طاقتوں کو برصغیر کی مسلم اکثریت کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم اور اسلامی تشخص کی بنیاد پر کشمیر کی جدوجہد آزادی ناگوار لگتی ہے اور یہاں پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بات کی وکالت کرتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع کو دیکھیں تو وہ بھی کم و بیش اسی طرح کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جن حالات سے گزر کر آج فلسطینی اپنے جائز حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اپنے ناجائز قبضے کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا ہے جبکہ پاکستان مسلسل ’’اخلاقی فتوحات‘‘ پر انحصار کئے ہوئے ہے۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ماسوائے چین کے کبھی بھارت کے جھوٹ کے مقابل پاکستان کے سچ کو اہمیت نہیں دیں گی‘ پھر بھی پاکستان کی فیصلہ ساز قوتیں بڑھتے ہوئے بھارتی قدم روکنے کی کوئی عملی تدبیر کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جس علاقائی اور عالمی امن کو قائم رکھنے کی تمام تر ذمہ داری رضاکارانہ طور پر اکیلے پاکستان نے خود اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھی ہے۔

بھارتی فوج نے 1984ء میں کشمیر پر اپنے قبضے کو مزید مستحکم کرنے کے لئے سیاچن گلیشیر پر فوج اُتار کر 26 سو مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا جسے آج دن تک آزاد نہیں کرایا جاسکا۔ بھارت اور پاکستان کے معاملات پر اقوام متحدہ کے مقرر کردہ پہلے نمائندے سر اوون ڈکسن نے 1950ء میں ایک تفصیلی رپورٹ اقوام متحدہ میں جمع کرائی تھی جس میں سیاچن گلیشیر کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مندرجات کو اس قدر معتبر سمجھا جاتا ہے کہ 1958ء میں بھارتی مصنف پی ایل لکھن پال کی کتاب “Essential Documents and notes on The Kashmir Despute” میں بھی انہی معلومات کو درست قرار دیتے ہوئے شامل کیا گیا تھا۔

5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو دائمی شکل دینے کے سلسلے کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔

اس روز پورے کشمیر میں کرفیو لگا کر ریاست کو اُس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا گیا جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت کو جھانسہ دینے کے لئے بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دے رکھی تھی۔ بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 اور ذیلی شق 35-A کے تحت ریاست‘ مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے‘ اپنا الگ پرچم رکھنے اور قانون سازی کے اختیارات حاصل تھے گو کہ اس شق سے کشمیری عوام بدستور بھارتی ریاست کے غلام ہی رہتے لیکن اس شق کے باعث انہیں ریاست کی شہریت‘ جائیداد کے حصول اور بنیادی حقوق کے معاملات پر قانون سازی کا اختیار حاصل تھا۔

اس کے ذریعے وہ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو ہندوؤں کے حق میں کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکتے تھے۔ لیکن اس آئینی ضمانت کے خاتمے کے بعد اب بھارت کو کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے لامحدود اختیارات حاصل ہو چکے ہیں اور اب تک حکومت ہند اٹھارہ لاکھ ریاستی ڈومیسائل جاری کر چکی ہے۔

عزت اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کے اصول رہتی دنیا تک وہی رہیں گے جو آغاز سے موجود ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر ہزاروں تقریریں کر دینے سے بھی آزاد نہیں ہو گا۔ فلسطین کے معاملے پر مسلم دنیا کے رہنماوں کی فصاحت و بلاغت کے شہکار آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں، لیکن ان سے فلسطین کی آزادی کی جانب ایک قدم کا فاصلہ بھی طے نہیں ہو پایا۔ دنیا کشمیر پر آپ کی تقاریر پورا دھیان لگا کر سنتی رہے گی اور عملی طور پر بھارت کی سہولت کاری بھی جاری رکھے گی۔

مقبوضہ کشمیر دنیا کی نظر میں!

بھارت کی تمام تر ناکام کوششوں اور ڈراموں کے باوجود دنیا بخوبی جان چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری و ساری ہیں اور وہاں کے عوام کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔

یہ ظلم کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا بدترین محاصرہ 1279دنوں سے جاری ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے ۔ مگر ایسا کب تک ہو گا اب دنیا کے ایوانوں میں کشمیری عوام کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

برطانوی پارلیمان کے ممبران نے کھل کر بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں آواز اٹھائی ہے ۔

برطانوی پارلیمان کے ارکان نے مقبوضہ کشمیر میں جاری قتل عام اور عورتوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی بھی بھر پور مذمت کی ہے ٭ معزز اراکین کا کہنا ہے کہ ستر سال سے زیادہ عرصے سے کشمیری ایک جہنم میں رہ رہے ہیں اور آج حق خود ارادیت تو درکنار ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی اتاریخ پر نظر دوڑائیں تو خوفناک حقائق سامنے آتے ہیں ۔

٭کشمیری 7 دہائیوں سے مسلسل زیرِ عتاب ہیں ۔

٭بھارت اب تک 96 ہزار سے زائد کشمیریوں کا قتلِ عام کر چکا ہے۔

٭تقریباََ23 ہزار عورتوں کو بیوہ، ایک لاکھ 7ہزار سے زائدبچوں کو یتیم جبکہ11ہزار سے زائد عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی۔

دنیا بارہا بھارت کے اس بے بنیاد دعوے کو مسترد کر چکی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندورنی معاملہ ہے۔ ای۔ یو ڈس انفو لیب کی چشم کشا رپورٹ نے بھارت کے عالم گیر پروپیگنڈے کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔

آج جب مغربی دارالحکومتوں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی جا رہی ہے اور کشمیر کے محکوم عوام کے حقوق کی مسلسل پامالی کے خلاف مزید زوردار اور مؤثر آوازیں اٹھیں گی ۔

اتنے عشروں کے بعد سکیورٹی کونسل میں کشمیر دوبارہ زیر بحث ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اینتونیو گوتریس نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے نتائج خطے اور دنیا کے لیے بے حد تباہ کن ہوں گے۔ اگست 2019 سے اب تک عالمی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت کے انسانیت سوز اور غیر جمہوری اقدامات کی مذمت کرتا آ رہا ہے۔

٭ واشنگٹن پوسٹ نے اس غیر آئینی اقدام کوIndia’s Dark Moment in Kashmir قرار دیا۔

٭ دی گارڈین نے اسے کشمیر کو انڈین کالونی بنانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔

٭ ان کے علاوہ بی بی سی، فرانس 24، DW نیوز، TRT ورلڈ ، CNBC سمیت مختلف خبر رساں اداروں نے کشمیر کی فقید المثال کوریج کی ۔

٭ اس کے علاوہ Genocide Watch اور Human Rights Watch کی کشمیر میں جاری نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی رپورٹیں بھی ناقابلِ تردید دستاویزات ہیں ۔

٭ الجزیرہ ٹی وی چینل نے بھارتی فوج کے ہاتھوں بے دردی سے شہید کیے گئے تین نوجوان طلباء کے لواحقین کی آہیں دنیا کو سنوائیں کہ جن کو ان معصوموں کی میتیں بھی نہیں دی گئیں ۔

بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی اٹھارہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ16یورپین پارلیمنٹ ممبران نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر یورپین اعلیٰ نمائندے کو خط لکھا۔ جس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں کو ہیومن رائٹس واچ ورلڈرپورٹ2021 اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے ہیومن رائٹس نے2018-2019 کی رپورٹ میں ڈاکومنٹ کیا گیا ہے۔

2019 سے مقبوضہ کشمیر میں نقل وحرکت، معلومات تک رَسائی، ہیلتھ اور تعلیم اور آزادی اظہار کے بْرے حالات ہیں۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کے نمائندوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے تاکہ وہ یہاں کی صورتحال کو دنیا کے سامنے نہ لا سکیں ۔

لوگوں کو عقوبت خانوں میں ڈالا جاتا ہے اور لوگوں کے اجتماع پر پابندی ہے اور بہت سے لوگ زیر حراست ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان یہاں پر قانون کا غلط استعمال کر رہا ہے۔

عالمی انسانی حقوق، بنیادی آزادی اور حکمرانی پر مبنی بین الاقوامی چیمپئن کی حیثیت سے یورپی یونین کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اْٹھانا ہو گی۔

یورپی یونین کو عالمی برادری کے ذریعے کشمیریوں سے کئے گئے وعدوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے ساز گار ماحول پیدا کرنا ہو گا اور ہندوستانی اور پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا ہو گا۔ بھارت نے جو کچھ کشمیر میں کیا ہے اس کے بعد بین الاقوامی قانون کی یوں دھجیاں اڑانے والے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا پر کھل چکا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کے بھارتی ہتھکنڈے

مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا مقصد کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو سبوتاژ کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر رَقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے۔

58% رَقبہ لَداخ ،26% جموں اور 16%وادی کشمیر کا ہے جبکہ 55% آبادی مقبوضہ وادی کشمیر ،43% جموں اور 2% لَداخ میں رہتی ہے ۔ مودی سرکار کا مشن آبادی کے اس تناسب کو تیزی سے تبدیل کر نا ہے ۔ اسی سلسلے میں مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں اگلی مردم شماری 2021ء سے2026ء تک ملتوی کر رکھی ہے ۔

اسی عرصہ میں آبادی کے تناسب کی تیز تر کوششیں کی جائیں گی ۔ کشمیر کے مْسلم تشخص کو مسخ کرنے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکلز 370 اور 35-A غیر آئینی طریقے سے ختم کر کے مودی سرکار مسلم اکثریت ختم کرنے کے درپے ہے ۔ متنازعہ علاقے کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنا جنیوا کنونشن4 کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے ۔

اس گھناؤنے منصوبے پر انڈیا کو اندرونی اور بیرونی مذمت کا سامنا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی اس عمل کی مذمت کی اور کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کا نتیجہ تبدیل کرنے کی سازش قرار دے دیا تھا ۔ کشمیر میں بیرونی ہندوؤں کی آباد کاری کا ریلہ بھی چھوڑ دیا گیا ۔ نئے ڈومیسائل لاء کے تحت 4.2 ملین سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا ۔

لاکھوں مزید غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی جا ری ہے ۔ گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی ڈومیسائل دے دیا گیا ۔ ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو حاصل ہے ۔ اب ہزاروں باہر سے آئے مزدوربھی ڈومیسائل حاصل کر سکیں گے ۔ لاکھوں مقامی کشمیریوں کو بے گھر اور بے زمین کرنے کا گھناؤنا منصوبہ جاری ہے۔

آر ایس ایس بھارت کو ہندو راشٹرا بنانے پر تْلی بی جے پی کافی عرصے سے لاکھوں ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی ۔ 5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ ایک طرف کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا گھناؤنا منصوبہ حرکت میں آچکا ہے ۔

دوسری طرف شہریت کے امتیازی قانون سے لاکھوں مسلمانوں کو ہندوستا ن میں ریاستی تحفظ سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ آرٹیکل 35-A کے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں پر مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی رکاوٹ نہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں اونے پونے داموں جائیداد خریدنے کی دوڑ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے ۔

سکیورٹی فورسز کے لئے اب زمین حاصل کرنے کے لئے خصوصی سر ٹیفیکیٹ این او سی کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ اب دہلی سرکار نے مسلح افواج کو سٹریٹجک ایریاز کے قیام کی اجازت دے دی ہے جو سینکڑوں ایکڑز پر محیط ہونگے۔

اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970ء تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈز کو تعمیرات کی کْھلی ڈھیل دے دی ہے۔

اسرائیل کی طرز پر پورے مقبوضہ کشمیر کو گیریژن سٹی بنانے کی سازش بھی دْنیا کے سامنے ہے۔ محبوبہ مْفتی نے بھی جنوری 2018ء میں بھارتی فوج کی قبضہ گیری کے خلاف آواز اْٹھائی تھی۔ زمین کی خریداری کی اجازت دے کر مقبوضہ کشمیر پر ہندو سر مایہ داروں کے قبضے کا راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کی زمینیں ضبط اور نیلام کی جا رہی ہیں۔ بھارتی حکومت 2لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی خرید نے جا رہی ہے۔

قبضہ گیری کی ہمہ گیر مہم سے کشمیر کے وجود کو خطرہ ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے علاقے میں تعمیر و ترقی اور معاشی خوشحالی کے کھوکھلے نعرے مودی سرکار کو آئینہ دِکھا رہے ہیں ۔

اْلٹا ان کارستانیوں سے مقبوضہ کشمیر میں معاشی و معاشرتی بدحالی میں اضافہ ہوا ہے ۔ اگست 2019ء کے اقدام کے بعد صرف ایک سال میں کشمیر ی معیشت کو5.3 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ۔ جموں و کشمیر میں بی جے پیکا ہندو وزیر اعلیٰ لانے کیلئے بڑے پیمانے پر سازشیں ہو رہی ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں میں جوڑ توڑ اورجموں و کشمیر اپنی پارٹی(JKAP) کا قیام بھی اسی سازش کا حصہ ہے ۔

اسی طرح جموں و کشمیر میں نئی انتخابی حد بندی ہونے جا رہی ہے۔ نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابات کا ڈھونک رچا کر سادہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دْنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا اصلی چہر ہ دْنیا پہلے ہی دیکھ چکی ہے۔ اس کے علاوہ ایک نئے ڈویژن کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ جموں و کشمیر کی نسبت کا اثر و رَسوخ کم کیا جا سکے۔ مجوزہ ڈویژن میں رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کْلگم کے اضلاع شامل ہونگے۔

دوسری طرف علاوہ مقبوضہ کشمیر کی گجر قبائلی آبادی کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔آئے روز ان خانہ بدوشوں کے گھروں کا جلاؤ گھیراؤ عام ہے۔ ایک لاکھ سے زائد بکروال آبادی پر معاشی اور معاشرتی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔

جنوری2008ء میں ضلع کٹوہا کے علاقے رسانہ میں 8 سالہ بکروال بچی آصفہ کا انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں گینگ ریپ اور قتل ایسا ہی اندوہناک واقعہ ہے۔ ہزاروں مسلم بکروا ل خاندانوں کو جنگلوں سے بے دخل اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ انھیں انڈیا کے فاریسٹ رائیٹس ایکٹ (FRA)کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ بھارت کے غاصبانہ منصوبوں اور استحصالی ہتھکنڈوں نے کشمیریوں میں نفرت اور آزادی کے جذبہ کو مزید تقویت دی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔