ریاست ہوگی ماں کے جیسی۔۔۔۔۔؟ منرل واٹر کے نام پر موذی بیماریوں کی فروخت

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 29 مئ 2014
منرل واٹر کے نام پر مضر صحت پانی سے لوگ معدے اور جگر جیسی موذی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔  فوٹو : فائل

منرل واٹر کے نام پر مضر صحت پانی سے لوگ معدے اور جگر جیسی موذی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

اس پر کیا بات کریں اور کیا یاد دلائیں کہ ریاست کا بنیادی کام اپنے شہریوں کی نگہداشت ہوتی ہے۔

ریاست ماں کہلاتی ہے اس لیے کہ اس کا ہر شہری اس کا بچہ ہوتا ہے۔ ماں اپنا پیٹ کاٹ کر بھی اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ انہیں بیماریوں سے بچاتی ہے، غرض ماں ہر وہ شے اپنے بچوں کو بہم پہنچاتی ہے جس کی انہیں ضرورت ہو۔ ریاست ماں جیسے بلند مرتبے پر فائز ہوتی ہے۔

ریاست کا انتظام چلانا حکم رانوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ حکم ران جن کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی بنیادی ضروتوں کا پورا خیال رکھیں گے اور پھر شہری ان میں سے کچھ لوگوں کو اپنی آرا سے منتخب کرتے ہیں، جو حکم ران کہلاتے ہیں۔ حکم رانوں کا کام اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ لیکن شومئی قسمت کہ ہماری دھرتی ماں کو جو حکم ران ملے انہوں نے منتخب ہونے کے بعد شہریوں سے وہ سلوک کیا جو سوتیلی ماں کو بھی شرماتا ہے۔ ہمارے ارباب اختیار باقی ضرورتوں کو تو رہنے دیجیے، اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی فراہم نہیں کرسکے۔

ہم اکثر ایسی خبریں پڑہتے رہتے ہیں اور امیدیں باندھتے رہتے ہیں کہ اب ایسی خبریں سننے کو نہیں ملیں گی۔ لیکن پھر ویسی ہی خبریں ہم سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ملاوٹ اور ہر شے میں ملاوٹ، ہماری زندگی میں زہر گھول رہی ہے اور ہم آہستہ آہستہ موت کی وادی میں گر رہے ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں گے کہ ہم زندگی کے نام پر قسطوں میں مر رہے ہیں، تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا۔ ہم پینے کے پانی کے نام پر، جو ہمیں مفت نہیں قیمتا ملتا ہے، بیماریاں خرید رہے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران۔۔۔۔

ایسی ہی ایک خبر جو گزشتہ سال ہم نے پڑھی؛ پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے منرل واٹر کے مختلف برانڈز کی27 بوتلوں کے تجزیے کے بعد اس کے پانی کو مضر صحت قرار دیتے ہوئے حکومت سے ان کمپنیوں کے خلاف سخت کاروائی کی سفارش کی ہے۔ اکثر منرل واٹر فروخت کرنے والی کمپنیاں پانی کے نام پر زہر فروخت کر رہی ہیں۔

اس سے لوگ معدے اور جگر جیسی موذی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ گیسٹرو کا شکار ہیں۔ یہ بھی ملاوٹ شدہ اشیاء اور غیر معیاری مشروبات کے استعمال کا شاخسانہ ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے غیرمعیاری اور مضر صحت پانی کی ترسیل کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن اس طرف صوبائی اور مقامی حکومتیں اور متعلقہ محکمے توجہ نہیں دیتے۔ جس کے باعث اکثر لوگ پیٹ کی بیماری کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن گذشتہ سال ہو یا پیوستہ یا موجودہ سال، حالات نہیں بدلے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہاں زبانی جمع خرچ فیشن بن گیا ہے۔ ادارے اپنی کارکردگی کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں، لیکن حاصل حصول کچھ نہیں ہے۔

حکومتی ادارے کی جانب سے ملک کی منرل واٹر سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے کیمیائی ٹیسٹ کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں دست یاب منرل واٹر کی66 کمپنیوں کے پانی میں سے 19 کمپنیوں کا منرل واٹر مضر صحت ہے۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے اس بات کا اعلان ملک کے گیارہ بڑے شہروں سے منرل واٹر کے نمونے ٹیسٹ کرنے کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم نیشنل واٹر کوالٹی لیبارٹری میں منرل واٹر کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں دستیاب منرل واٹر میں صرف 47 کمپنیوں کا پانی بہتر اور 19 کمپنیوں کا منرل واٹر مضر صحت پایا گیا۔

کراچی وہ بد نصیب شہر ہے جہاں شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس شہر ناپرساں میں جعلی منرل واٹر کی فروخت سب سے زیادہ ہے۔ جعلی منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف آپریشن ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان کا پوری طرح قلع قمع نہیں ہو سکا وہ کچھ دن وہ اپنا قبیح کاروبار بند کرکے پھر سے عوام کو موت کے گھاٹ اتارنے لگتے ہیں۔ آج کل بھی ایسی ہی مہم چل رہی ہے۔ ایسے آپریشنز کو شہری اب نمائشی سمجھتے ہیں اور وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں۔

منیجنگ ڈائریکٹر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ہدایت پر شہر میں غیر قانونی پانی کے کنکشنز اور جعلی منرل واٹر کا کاروبار کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف ہنگامی آپریشن جاری ہے۔ واٹر بورڈ کے عملہ نے ہنگامی بنیادوں پر آپریشن کرتے ہوئے 8 جعلی منرل واٹر فیکٹریوں،7 پانی کے کنکشنز اور ایک سیوریج کا کنکشن منقطع کرکے7 موٹریں،2 فلٹر، 20 خالی بوتلیں، کیمیکل و دیگر سامان ضبط کرکے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرادی گئی۔

ایم ڈی واٹر بورڈ کی ہدایت پر جعلی منرل واٹر کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف آپریشن کے دوران کارروائی کرتے ہوئے واٹر بورڈ کی ٹیم نے پانی فروخت کرنے والی فیکٹری جو کہ پی آئی اے سوسائٹی بلاک 9 اور گلستان جوہر اسکیم 36 میں واقع تھی، خفیہ اطلاع ملنے پر اچانک چھاپہ مارا، اس فیکٹری میں ملک کی ممتاز بیوریج و منرل واٹر کمپنی کی معروف برانڈ کی جعلی منرل واٹر کی بوتلیں بھری جارہی تھیں۔ کئی معروف برانڈز کی بوتلوں میں بھی سادہ پانی بھرا جارہا تھا۔

چھاپہ مار ٹیم نے یہ بوتلیں بھی اپنے قبضہ میں لے لیں اور 3 پانی کی موٹریں ایک واٹر فلٹر، 20 خالی بوتلیں، کیمیکل اور سیل پیکنگ مشین ضبط کرلی۔ ان فیکٹریوں نے واٹر بورڈ کی پائپ لائنوں سے ناجائز کنکشنز بھی لگا رکھے ہیں۔ جس سے ان علاقوں میں پانی کی قلت ہوجاتی ہے۔ اس قسم کا جعلی منرل واٹر عموماً بڑے بڑے پلازوں اور دکانوں پر زیادہ کمیشن دے کر سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کے مطابق اس قسم کا کاروبار کر نے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے گی اور ان کے خلاف گرینڈ آپریشن بھی جاری رہے گا ۔

تاکہ اس قسم کا غیر قانونی کام کرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ قانون کی گرفت میں آسکیں۔ انہوں نے محکمہ صحت و دیگر متعلقہ اداروں سے جو لائسنس اجراء کرتے اور جعلی منرل واٹر بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں، ان سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ بھی شہریوں کے مفاد میں اس مذموم کاروبار کے خاتمہ کے لیے ایسی جعلی منرل واٹر فیکٹریوں کے خلاف فوری کارروائی کریں۔ انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ ان کے علاقہ میں اگر جعلی منرل واٹر بنانے کی فیکٹری خفیہ طور پر قائم ہے تو فوری طور پر اس کی نشان دہی ایم ڈی کیمپ آفس کے فون نمبر 99244595 پر کی جائے، اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا، انہوں نے جعلی منرل واٹر فیکٹریوں کی خفیہ نشان دہی کرنے والوں سے اظہار تشکر کیا ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے شعبہ ریونیو نے شہر میں غیر قانونی طور پر واٹر بورڈ کی فراہمی آب کی لائنوں سے کنکشنز لے کر جعلی منرل واٹر کا کاروبار کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران گل برگ ٹاؤن میں واقع جعلی منرل واٹر فیکٹری کے پانی کے کنکشنز منقطع کرکے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرادی ہے۔

وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو ہر صورت پینے کا صاف پانی مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے ہم پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ واٹر بورڈ کے افسران اور اہل کار شہر میں غیر قانونی پانی کے کنکشن اور غیرقانونی ہائیڈرینٹ و غیرقانونی نجی پمپنگ اسٹیشنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو مزید تیز کریں۔ شہر میں چلنے والے غیر قانونی منرل واٹر پلانٹس اور دیگر چوری کے کنکشنز کے خلاف آپریشن کو تیز کیا جائے۔ وہ اپنے دفتر میں واٹر بورڈ کے افسران کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اس موقع پر ایم ڈی واٹر بورڈ اور ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل نے صوبائی وزیر کو بتایا کہ منگھوپیر میں خود صوبائی وزیر کی نگرانی میں شروع کیے گئے آپریشن میں شہر کو پانی سپلائی کرنے والی مین لائن سے روزانہ 25 لاکھ گیلن پانی چوری کرنے والے 5 غیر قانونی واٹر ہائیڈرینٹ کو منہدم کیا گیا اور وہاں موجود تمام لائنوں کو بھی مسمار کردیا گیا ہے۔

کورنگی انڈسٹریل ایریا میں مختلف نجی فیکٹریوں اور کمپنیوں میں قائم ایک تا تین ڈایا میٹر کی مین لائن سے لی گئی غیر قانونی لائنوں کو منقطع کردیا گیا۔ قیوم آباد میں مختلف غیر قانونی طور پر شہر میں فروخت ہونے والے منرل واٹر کی جعلی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ ڈی ایم ڈی واٹر بورڈ نے صوبائی وزیر کو بتایا کہ آپریشن میں واٹر بورڈ کی انتظامیہ کو خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے اور اب تک مختلف علاقوں میں ایک تا تین انچ ڈایا میٹر تک کے غیر قانونی دو درجن سے زائد کنکشنز کو اکھاڑ دیا گیا ہے، جس سے اندازاً روزانہ 5 لاکھ گیلن پانی چوری کیا جاتا تھا۔

انہوں نے صوبائی وزیر کو مزید بتایا کہ لسبیلہ پل کے نیچے بورنگ کے نام پر لیاری کو سپلائی ہونے والی 33 انچ کی مین لائن سے روزانہ لاکھوں گیلن پانی چوری کرکے فروخت کرنے والے غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹ کو بھی مسمار کیا گیا، جس کے بعد لیاری کے مختلف علاقوں میں پانی کی کمی پر قابو پایا جاسکے گا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ کراچی میں تمام غیر قانونی ہائیڈرینٹ، غیر قانونی کنکشنز اور غیر قانونی پانی کی فروخت کی بندش تک یہ آپریشن جاری رکھا جائے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کاٹے گئے کنکشنز اور بند کئے گئے غیر قانونی منرل واٹر سپلائی کے مراکز اگر دوبارہ شروع ہوئے تو اس علاقے کے واٹر بورڈ کے افسران اور اہل کاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

واٹر بورڈ اور صوبائی وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن کے یہ اقدامات اپنی جگہ قابل ستائش ہیں۔ لیکن کیا ان میں تسلسل واقعی برقرار رہے گا اور دیگر صحت کے ذمہ دار ادارے کب اپنے فرائض تن دہی سے سرانجام دیں گے؟

ہماری سماعت میں وہ نظم گونج رہی ہے۔

آٹا، بجلی، پانی ایندھن
سب کو سستے دام ملے گا
بے روزگاروں کو ہر ممکن
روزگار اور کام ملے گا
ریاست ہوگی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
لیکن کب۔۔۔۔۔۔ آخر کب۔۔۔۔۔؟ٖ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔