’’مجمع البحرین‘‘

شمس تبریز جو ایک درویش اور دیوانہ وار زندگی بسر کرتے تھے مولانا روم جیسے عالم کی زندگی کا ایک حصہ بن گئے۔


Abdul Qadir Hassan June 15, 2014
[email protected]

(اقبال کے پیر و مرشد یاد آئے تو اس سے متعلق چند یادیں بیان کر دیں۔ آج ان ہی یادوں کا ایک سلسلہ پیش خدمت ہے)

مولانا روم کے شہر قونیہ کے گلی کوچوں کی شوق آوارگی میں ایک چوک میں رک کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہاں سے کس طرف نکل جاؤں مگر کسی ایسی طرف جہاں سے اس مسافر کو کچھ حاصل بھی ہو۔ اسی سوچ میں کھڑا تھا کہ ایک ترک نوجوان میرے قریب آیا اور اپنا تعارف کرایا اس انداز میں کہ میں بھی جواب میں اپنا تعارف کراؤں۔ تھوڑی بہت انگریزی دونوں غیر انگریزوں اور مسلمانوں کی زبان تھی۔ میں نے پاکستان لاہور اور مولانا سے تعلق کا بیان کیا تو اس نوجوان نے اقبالؔ کا نام لیا۔ قریب ہی واقع مولانا جنھیں ترک میولانا کہتے ہیں کا مزار تھا۔

وہ مجھے مزار تک لے جانا چاہتا تھا لیکن میں نے بتایا کہ میں کئی بار مزار پر سلام کر چکا ہوں اب کسی دوسری جگہ جانا چاہتا ہوں کہاں جاؤں اس پر وہ مسکرایا اور اس ترک نوجوان نے کہا کہ میں جہاں کھڑا ہوں اس جگہ کا معروف نام دو سمندروں کی ملاقات کا مقام ہے۔ مشہور یہ ہے کہ مولانا روم اور ان کے پیر و مرشد شمس تبریز کی پہلی ملاقات اس مقام پر ہوئی تھی جو بعد میں تصوف و سلوک کی منزلوں اور تاریخ کا عنوان بن گئی۔ اس اچانک ملاقات نے نہ جانے کیا کچھ معجزے اور تصوف و معرفت کی بند راہیں کھول دیں۔

شمس تبریز جو ایک درویش اور دیوانہ وار زندگی بسر کرتے تھے مولانا روم جیسے عالم کی زندگی کا ایک حصہ بن گئے۔ شمس ایران کے کسی شہر سے تھے اور ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں کئی روایات مشہور ہیں لیکن اسلامی تصوف کو اس فقیر نے اپنے وجود پر طاری کر دیا تھا۔ بتاتے ہیں کہ مولانا حسب معمول سہ پہر کو اپنے مدرسے سے درس سے فارغ ہوتے تو شاگرد ان کا خچر ان کی سواری کے لیے لے کر آتے۔ پرانے زمانوں میں علماء گھوڑوں پر سفر نہیں کرتے تھے کہ اس سے کبریائی پیدا ہوتی ہے یا تو وہ کسی دامانی گدھے پر جو عام گدھوں سے بڑے ہوتے ہیں یا خچر کو سفر کے لیے موزوں سمجھتے تھے لیکن مولانا سواری کے لیے خچر کو موزوں سمجھتے تھے۔

مدرسے سے فارغ ہو کر وہ اسی خچر پر سوار ہوتے لیکن راستے میں یہ چوک پڑتا تھا جس پر اس وقت میں اپنے ترک برادر کے ساتھ موجود ہوتے، اسی چوک پر وہ ملاقات ہوئی جو تصوف کی دنیا میں یادگار رہے گی۔ یادگار کیا ایک اثاثہ اور نشان منزل بن کر تابناک رہے گی اور روشنی بکھیرتی رہے گی۔ میں نے اپنے ترک رہنما کا شکریہ ادا کیا اور اس چوک کے ایک طرف فرش پر ہی بیٹھ گیا۔ اس وقت میرے چشم تصور کے سامنے کیا تھا مجھے کچھ یاد نہیں۔ معلوم نہیں یہ دو نادر روزگار شخصیتیں کون تھیں ایک خچر پر سوار تھا دوسرے نے خچر کی باگ پکڑ رکھی تھی اور دونوں جو کچھ کہہ رہے تھے وہ آج تک بڑے بڑے مورخوں اور عقیدت مندوں کو معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر وہ کیا بات تھی کہ مولانا دنیا ترک کر کے اس نامعلوم درویش کے مرید ہو گئے۔ بات جو بھی تھی وہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکی سب اندازے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا اور اپنے وقت میں ان دو عظمتوں کے تعلق کے بارے میں عوام کی رائے بیان کی:

مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزے نہ شد
یعنی یہ مولوی کبھی مولائے روم نہ کہلاتا
اگر شمس تبریز کی غلامی اختیار نہ کرتا

مولانا کے سوانح نگاروں اور ان کے افکار و خیالات کو بیان کرنے والوں نے یہی بہت کچھ لکھا لیکن وہ ان دو کے تعلق کی کیفیت بیان نہ کر سکے۔ یہ عاشق و معشوق کا تعلق تھا۔ ان کی اس شب و روز کی رفاقت بھی جب کبھی کسی حادثے کا شکار ہوتی تو یہ حادثہ دنیائے تصوف کا رستہ بن گیا۔ بہت لوگ خصوصاً مولانا کے بیٹے اس تعلق اور والد ماجد کی اس ''گمشدگی'' پر پریشان تھے۔ ایک دو بار شمس تبریز مولانا کو چھوڑ کر دمشق چلے گئے۔ مولانا نے پہلے تو بہت تلاش کیا پھر کچھ پتہ چلنے پر خود دمشق تشریف لے گئے اور اپنے پیر ومرشد کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے پھر انھیں ساتھ لے کر آئے اور وہی دن رات کی ملاقات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

مولانا دنیا جہاں سے بے نیاز ہو گئے اور مولانا کی بے نیازی اور ترک دنیا ان کے متوسلین پر قیامت بن کر گزری۔ قونیہ شہر کا ہر فرد پریشان اور ہراساں تھا کہ ان کا مرشد ان سے کیوں روٹھ گیا۔ پتہ چلتا ہے کہ قونیہ کے لوگ اور مولانا کا مدرسہ ان کے بغیر اجڑ گیا۔ سلجوقی حکمرانوں نے یہ مدرسہ بڑے شوق سے بنایا تھا اور افغانستان کے شہر بلخ سے ایک برگزیدہ عالم کو یہاں لا کر یہ مدرسہ ان کے سپرد کر دیا۔ جلال الدین ان کا بیٹا تھا۔ بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران ایک رات اپنے وقت کے ایک معروف صوفی کے ہاں بسر کی صبح کے وقت اس صوفی نے جلال الدین کو بلا کر اس کا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اسے ایک جھٹکا دیا اور رخصت کر دیا۔

قدرت کو اس میں کچھ معجزے دکھانے تھے۔ انھوں نے دیوان شمس تبریز کے نام سے کئی جلدوں میں دیوان مرتب کیا۔ فارسی شاعری کا یہ ایک تحفہ ہے۔ مولانا کی مثنوی معنوی جو ''بشنو از نے'' سے شروع ہوتی ہے کتنی ہی داستانیں اور شعر و سخن کے معرکے بیان کرتی ہے۔ میں وہ خوش نصیب ہوں جو اس حجرے میں بہت دیر تک بیٹھا رہا جہاں کی راتوں میں فارسی شاعری کا یہ معجزہ ظہور پذیر ہوا تھا۔ بڑی بڑی بانسریاں معلوم نہیں انھیں کون سر دیتا ہو گا اور کس میں اتنی سانس ہوتی ہو گی جب ان سے آواز درست نکلتی ہو گی۔

تانپورے بھی اور بعض اس وقت کے دوسرے ساز بھی یہ سب اس کمرے میں اب تک محفوظ ہیں اور میرے دل و دماغ میں نقش ہیں۔ یہ داستان اتنی طویل ہے اور مولانا کے پیر و مرشد شمس تبریز کے ساتھ مولانا کا تعلق جس حد تک مورخوں نے بیان کیا ہے ایک وجد آفرین داستان ہے اور شمس تبریز کا مزار جو قونیہ میں ہی ہے میرے سامنے رہا ہے۔ شمس تبریز کی وفات کے بارے میں کئی مختلف روائتیں ہیں۔ ان میں قتل بھی ہے، کسی اندھے کنویں میں گم کرنا بھی ہے بہرکیف قونیہ میں کچھ لوگ مولانا سے جدائی کو برداشت نہیں کر پاتے تھے اور اس کا سبب یہی ایرانی درویش شمس تبریز تھا۔

مقبول خبریں