اخلاقیات کی تنزلی

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 29 جون 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

جیسے جیسے انسان مادہ پرستی، نفس پرستی اور آزاد خیالی کا شکار ہوکر مذہب اور اخلاقیات سے ہٹتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس کے لیے نت نئے مصائب اور مسائل جنم لیتے جا رہے ہیں جو سماجی، نفسیاتی، طبعی اور معاشی ہونے کی وجہ سے معاشرے کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ انسان نے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر آزاد خیالی، شخصی و بنیادی حقوق کے نام پر جس تہذیب کا ڈھونگ رچایا ہے اس میں صرف افراد کے انفرادی عمل کو ہی دخل نہیں ہے بلکہ ادارے، انجمنیں اور حکومتیں بھی اس نفسانی اور شیطانی عمل کے کھیل میں شریک اور فعال ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں ہم جنس پرستی اور ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، بہت سے ممالک میں اس کی حمایت میں تحریکیں بھی چل رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہر ملک، معاشرے اور مذہب سے وابستہ افراد کی جانب سے اس کی بھرپور مخالفت بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ گزشتہ دنوں واشنگٹن میں ہزاروں افراد نے ہم جنس پرستوں کے مابین شادیوں کے خلاف ریلی نکالی، ان مظاہرین نے سپریم کورٹ تک مارچ کیا جس میں کئی امریکن گروپس اور نیشنل آرگنائزیشن فار میرج نے بھی شرکت کی۔ مظاہرین نے مرد اور عورت کے درمیان شادی کے بندھن کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔ خود اندرونی طور پر ہم جنس پرستوں کی شادیوں پر مخالفت کا شکار امریکا دیگر ممالک میں اس کلچر کی ترویج و ترغیب کے لیے لالچ اور دباؤ استعمال کر رہا ہے۔

امریکا نے ہم جنس پرستی کے خلاف قوانین سازی کی وجہ سے یوگنڈا پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے جواب میں یوگنڈا کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کا ملک اپنے ہاں ہم جنس پرستی مخالف قوانین میں تبدیلی پر امریکا کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوگا، یوگنڈا ایک خودمختار ملک ہے جس کی خودمختار پارلیمنٹ ہے، اسے اپنے شہریوں کے مفاد میں قانون سازی کا اختیار ہے، ان کا آئین ہم جنس پرستی کو بنیادی انسانی حقوق کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان نے کہا ہے کہ یوگنڈا کے حکام انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں۔

امریکا نے ردعمل میں یوگنڈا کے ساتھ طے شدہ مشترکہ فوجی مشقیں بھی منسوخ کردی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہم جنس پرستوں کی شادی کے واقعات ہوئے جن میں فیصل آباد کی دو کزن بہنوں کی شادی کا واقعہ بھی خاص شہرت اختیار کرگیا تھا۔ ایک طبقہ پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی کے فروغ کے لیے سرگرداں ہے۔ ہم جنس پرستی کی وجہ سے AIDS اور HIV جیسی مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں جو معاشرے کی صحت، اخلاقیات اور معیشت کو متاثر کر رہی ہیں، ہم جنس پرستوں کی شادیاں مستقبل قریب میں وراثت، اولاد اور بڑھاپے سے متعلق گمبھیر مسائل پیدا کریں گی اور خاندانی نظام کو بھی متاثر کریں گی۔

ان برائیوں سے بچنے کے لیے مذہب نے نکاح کا حکم دیا ہے اور زوجین کے حقوق و فرائض بھی متعین کر دیے ہیں، اس کا مقصد معاشرے کے لیے تربیت یافتہ نسل پیدا کرنا ہے یہاں تک کہ طلاق کے عمل کو حلال کاموں میں سب سے ناپسندیدہ فرمایا گیا ہے اور دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اﷲ ہماری بیویوں اور اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔ جو لوگ ہم جنس پرستی کی وکالت کرتے ہیں وہ دراصل معاشرے کو معذور بنانا چاہتے ہیں۔

ملک کے چپے چپے پر تہذیب، تعلیم اور تفریح کے نام پر ایسے مراکز قائم ہیں جہاں تعلیم و تفریح سے زیادہ بے حیائی، فحاشی، جنسی و ذہنی ہیجان پیدا کیا جا رہا ہے اور اخلاقیات تباہ کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں خفیہ اور اعلانیہ قسم کے نت نئے جنسی جرائم اور بے راہ روی فروغ پا رہی ہے۔ بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم، اغوا، تشدد، قتل و غارت گری، لوٹ مار اور وبائی امراض کے پھیلاؤ میں ان عوامل کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ ضرور ہے۔

سرکاری اہلکاروں اور سرکاری اداروں میں تو جنسی جرائم کی وارداتوں کی خبریں تو عام طور پر آتی رہتی تھیں لیکن اس قبیح جرم کے لیے مزار قائد کو استعمال کرنے کی خبریں اور ریکارڈنگ نے قوم کو ششدر کرکے رکھ دیا ہے، لیکن نہ حکومت اور نہ ہی بات بات پر حمایت اور مخالفت میں ریلیاں نکالنے والوں نے اس قبیح عمل پر کسی ردعمل کا اظہار کیا، گویا ان کی نظر میں کچھ ہوا ہی نہیں یا ان کی ترجیحات اور عزائم کچھ اور ہیں۔

گزشتہ ماہ لاہور کی سیشن عدالت میں صغراں بی بی نامی خاتون نے مقدمہ دائر کیا کہ اس کے شوہر نے اپنے دوستوں سے مل کر اس کے جسم میں ٹریکر چپ لگوا دی ہے اور وہ اسے اپنے دوستوں کے ساتھ بدکاری پر مجبور کرتا ہے۔ کچھ دن پہلے وہ اچانک بے ہوش ہوگئی تھی، آنکھ کھلنے پر اس نے خود کو سروسز اسپتال میں پایا، وقتی طور پر کچھ سمجھ نہیں آیا اس کے ساتھ کیا ہوا۔ جب شوہر نے وطیرہ نہ بدلا تو اس نے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی، اس کے بعد وہ جہاں جاتی ہے اس کا شوہر وہاں پہنچ کر بدکاری پر مجبور کرتا ہے، کافی دیر بعد پتا چلا کہ اس کے شوہر سلیم نے اس کے جسم میں ٹریکر چپ لگوا رکھی ہے، جس کی مدد سے وہ ہر لمحے اس کی جاسوسی کرتا ہے اور بلیک میل کرتا ہے۔

پولیس اس کی سنوائی نہیں کر رہی، اس لیے عدالت مقدمہ درج کرنے اور سرکاری خرچ پر اس کے جسم سے یہ چپ نکلوانے کے احکامات جاری کرے۔ آج کل بے حیائی و فحاشی کو سائنسی طریقے سے تہذیبی رنگ دیا جا رہا ہے کہ لوگ ان سے مانوس ہوتے جا رہے ہیں، مہذب اور شائستہ ناموں سے بڑی سلیقہ داری سے پیش کی جانے والی بے حیائی و فحاشی اب لوگوں کو بے حیائی اور فحاشی محسوس نہیں ہوتی اور ان پر تنقید کرنے والوں کو قدامت پرست، بنیاد پرست اور بیک ورڈ کے ناموں سے نوازا جاتا ہے۔ اسلام نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ نبی کریمؐ نے قیامت کی ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے کہ ’’لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب اور شائستہ ناموں سے کریں گے‘‘۔ قرآن پاک میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہوگا اور جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا تو وہ اسے بے حیائی اور برے کاموں کی طرف ہی راغب کرے گا۔

رمضان المبارک میں ملک میں منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ، ملاوٹ، گرانی، گداگری اور لوٹ مار کا بازار گرم رہنا تو ہماری روایت بن چکا ہے لیکن اب ایک نئی روایت پڑ رہی ہے کہ عین سحر و افطار کے اوقات میں ٹی وی چینلز پر مذہب کے نام پر پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، جہاں عوام الناس کو ہپنٹائز کرکے ان کی عقلوں کو ماؤف کر ڈالتے ہیں، عین سحر و افطار کے اوقات جو قبولیت دعا و عبادت کی ساعتیں ہوتی ہیں تمام نابالغ اذہان کی نظریں، دل، دماغ ان کی جانب مرکوز ہوجاتے ہیں، انھیں ہوش ہی نہیں رہتا کہ کون سا لقمہ اٹھا اور کھا رہے ہیں، روزہ کی روح اور اس کا مقصد کیا ہے، ایسا نظارہ دنیا کے کسی اسلامی ملک یا معاشرے میں نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ پیٹ اور نفس کے غلام تو ہر دور ہر معاشرے اور ہر شعبہ میں پائے جاتے ہیں مذہب میں بھی ایسے لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی ہے، لیکن یہ لوگ پہچان لیے جاتے تھے، ان کو عوامی پذیرائی کے بجائے لعنت و ملامت کا سامنا رہتا تھا۔

مگر میڈیا کے ان پروگراموں نے نیکی و بدی اور عبادت کے پیمانے بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کچھ چینلز پر پیش کیے جانے والے بعض ڈراموں اور شوز کے مناظر بھی شرفا پر بڑے گراں گزرتے ہیں جن میں مذہب و اخلاقیات کے نئے نئے اصول وضع کیے جاتے ہیں، انھیں نئے مفہوم و معنی پہنائے جاتے ہیں، گویا روشنی اور تہذیب کے نئے کلچر کے ذریعے اسلامی معاشرت تہذیب و تعلیمات کی روح کو مسخ کرنے کا تباہ کن سلسلہ جاری ہے۔

ان حالات میں حکومت سے تو کوئی توقع نہیں کی جاسکتی البتہ علما کرام اور دانشوروں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ان سازشوں کا مقابلہ کریں، لوگوں کو فواحش اور منکرات کے دنیاوی اور اخروی نقصانات سے آگاہ کرکے ان سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔ میڈیا ودیگر ذرائع سے فحاشی اور دینی اقدار پامال کرنے کی حرکتوں اور ایوانوں کے ذریعے خلاف دین و تہذیب بحثوں اور قانون سازیوں کے سدباب کے لیے عملی اور اجتماعی کوششیں کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔