عطا شاد کی شاعری میں جہاں بلوچستان کا متنوع حسن اور لہجہ بولتا ہے وہاں عطا شاد کی شاعری میں بلوچستان کا المیہ اور کرب بھی پوری شدت کے ساتھ دکھا ئی دیتا ہے۔
عطا شاد کے کالج کے پرانے دوست دانشور ادیب سابق چیف سیکرٹری بلوچستان حکیم بلوچ مرحوم جنہوں نے عطا شاد پر کتاب شبیہہ شاد بھی لکھی اُن کے سمیت بہت سے محققین کا کہنا یہی ہے کہ معروف اردو شاعر حسرت موہا نی کی طرح عطا شاد نے بھی اپنے سیاسی نظریات اور عمل کو اپنی شاعری سے دور رکھا ، اگرچہ حسر ت موہا نی کے اعتبار سے یہ باکل درست ہے اُن کا صرف ایک شعر
ہے مشقِ سخن جاری چکّی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
مگر عطا شاد کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں اُن کے نظریات و افکار بلوچستان کے حوالے سے ملتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عام قارئین کو کیوں واضح انداز میں عطاشاد کی شاعری میں اُن کے سیاسی نظریات اور افکار دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے لیے ہم پاکستان میں تین شاعروں کا ذکر یہاں کر تے ہیں عام لوگوں کے لیے حبیب جالب بہت واضح انداز کے انقلابی اور اپنے خاص سیاسی نظریات رکھنے والے شاعر تھے جن کے اشعار لوگوں کو بہت آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں بے شک وہ عوامی انقلابی شاعر ہیں مگر ادبی لحاظ سے شاعری میں اُن کا بہت زیادہ بلند مقام نہیں ہے، اُن کی شاعری میں ایک نعرہ بازی کا سا انداز ملتا ہے۔
دوسرے اہم ترین شاعر جو ایک بڑے اور قدآور شاعر ہو نے کے ساتھ ساتھ انقلابی شاعر بھی ہیں اور سب اس کو تسلیم کر تے ہیں وہ فیص احمد فیض ہیں جن کی شاعری تما م تر نزاکتوں، رومانویت ، شاعرانہ حسن اور اثرپذیری کے ساتھ انقلابی بھی ہے۔ پھر عطا شاد جس شاعر سے زیادہ متاثر ہیں وہ ’’ن م راشد‘‘ ہیں جن کی شاعری میں جدت بھی ہے اور وسیع مطالعہ کے ساتھ آفاقی نوعیت کے خیالات ملتے ہیں اُن کا کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی شاعری میں اپنی نئی اور خاص Vocabulary یعنی ذخیرہ الفاظ ترکیب سازی کی وجہ سے استعمال کی ہے۔
عطا شاد نے بھی اردو اور بلوچی شاعری میں سینکڑوں نئی تراکیب متعارف کر وائی ہیں، عطا شاد کا پہلا شعری مجمو عہ ( سنگآب ) سامنے آیا تو اس پر پروفیسر مجتبیٰ حسین کے علاوہ ڈاکٹر فرمان فتحپور ی نے اپنے تحقیقی مضمون میں انکشاف کیا کہ سنگ آب میں عطا شاد نے ساڑھے تین سو 350 تراکیب استعمال کی ہیں جن میں سے بیشتر اُن کی اپنی بنائی ہوئی تراکیب ہیں، پھر یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ خیالات، نظریات اور فکر کے اعتبار سے بھی عطا شاد ’’ن م راشد‘‘ سے مختلف اور منفرد ہیں پھر جہاں تک تعلق ترکیب سازی کا ہے تو عطا شاد نے جدید شاعری کے انداز کو اچھی طرح سمجھا، بلوچستان کی روائتی بلوچی شاعری، لوک شاعری کا مطالعہ بھی گہرائی سے کیا اور اس کے بعد فارسی بلوچی الفاظ اور اردو کی آمیزش سے ترکیب سازی کی جو اردو ادب میں اچھوتی، مفرد اور چونکا دینے والی تھیں۔ بلوچستان کے بارے میں 1970 ء کے ملک پہلے عام انتخابات سے پہلے بہت کم لوگ جا نتے تھے اور جامع انداز میں اب بھی بہت کم لوگ بلوچستان سے واقف ہیں
عطا شاد کی نظم ’’سرِ گنگ زارِ ہوس‘‘ تشریح اور پس منظر:
سرِ گنگ زارِہوس
دل کہ پندارِ عرضِ طلب کے عوض رہن آزار تھا تم نے پوچھا؟
جب سرِگنگ زارِ ہوس حرِف جاں بار تھا، تم کہاں تھے؟
سنگ و آہن کے آشوب میں ، ہم سپر زادگاں خود پہنہ تھے
تو ٹرپا نہ کو ئی صدا آشنا
اپنے احساس کے کوہ قلعوں میں عمر آزما سر کشیدہ رہے
گو نجتا کو ئی لمحہ نہ آیا
تم نے سوچی ، کبھی ایسی شب خون ساعت کہ اک پیرہ زن
سینہِ ناتواں سے لگائے کوئی طفلِ بیمارِ جاں
( ترکہ ِ آخری )
دردِحق سے تبرگاہِ تیرہ میںبھی سر فروزاں رہے
تم نے دیکھا کبھی ایسا روزِسیہ
گرد چیخوں سے،وحشت کراہوں سے ،لب سوز
آہوںسے ،دودِ عدم سے بھی تاریک تر
ہست و ناہست کی قہر بادِ مسافت میں
امید گر کیسے زندہ رہے تم نے جانا؟
تم نے سوچا ، نہ دیکھا ، نہ جانا
کہ اعضائے یک دیگراں خود سے بے گانہ تھے
ہم تھے آتش تغار اور تم تک نہ پہنچی کوئی لمس آنچ
مہر بر دل تم ایسے تھے ، دیروز کاہر زبان قرض
تم سے اگلواتا تھا، اپنے حرف ،اپنے الفاظ
اپنے خیال اپنی سوچ
اہلِ اظہار تم ؟
قہر سوداگروں کے لیے پاسِ صدق ایک تھا
ہم خطاکار، کارِخطا بے خبر
تم وفادارغارت گرانِ وفا، شکوہ سنج
دل کہ پندارِ عرضِ طلب کے عوض رہن آزار
تھا ، تم نے پوچھا؟
جب سرِ گنگ زار، ہوس حرف ِ جاں با تھا ،
تم کہاں تھے ؟
مشکل الفاظ کے معنی:
(پندار) غرور، گھمنڈ، خودی ، انا، فخر۔ (گنگ) اردو معنی بہراپن ۔ گونگا (زار) مصیبت کا مارا ہوا۔ (رہن ) دوسرے کے مال کو اپنے حق میں روک لینا، گروہی(آزار) ایذا ، تکلیف ، رنج ، دکھ ،درد، (آہن ) لوھا ، فولاد، ایک آلہ پیمائش جو ،کونوں کے زاویہ قائمہ ’’90 درجے کے زاویئے ‘‘ کو ناپنے کے کام آتا ہے راج مستری دیوار بنانتے ہوئے استعمال کر تے ہیں۔
( آشوب ) بربادی ، بگاڑ، فتنہ و فساد۔ اصطلاحِ شاعری میں ’’شہرآشوب‘‘ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں شہر کی پریشانی، تباہی، ویرانی وغیرہ کو بیان کیا جائے۔ (سپرَ) ڈھال، تلور وغیرہ کے وار سے بچاؤ کا ہتھیار۔ (زاد) نیک، اصل ، نیک طینت ، راہ کا توشہ (پیر) بوڑھا۔ بوڑھی(زن) عورت،خاتون (ترکہ) مرنے کے بعد وراثت میںدیا جانے والا مال جائیداد وغیرہ ۔ (درد) تکلیف کی کیفیت جو جسم کے اندار باہر کہیں بھی محسوس کی جائے۔ ( حق) صداقت، باطل کی ضد (تبر ) عربی معنی سونے چاندی کے بغیر ڈھالا ہوا (تبَر ) اردو فارسی معنی ایک آلہ جس میں کلہاڑی کے پھل کی طرح لکڑی کا دستہ لگا دیا جائے اور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے (تیرہ) کالا، اندھیرا، تاریکی، جاہل ۔ (دود) دھواں۔ قدرے تاریکی ( عدم ) نیستی، معدوم ہو نے کی حالت ، موجود کی ضد ۔
تراکیب ومرکبات کے معنی
(پندارِ عرضِ طلب ) پندار گھمنڈ، فخر ۔ (عرض ) بیان کرنا، پیش کرانا ، التجا کرنا، (طلب) مانگنا، چاہنا۔ پوری ترکیب کے معنی یوں ہو نگے ’’بیان کر کے مانگنے کا جو غرور تھا یعنی گھمنڈ تھا کہ میں جب کہوں گا تو وہ ضرور سننے گا۔ ( رہنِ آزار ) تکلیف یا درد کی کیفیت میں گر وہی رکھا دیا گیا تھا۔ (سر ِ گنگ زار، ہوس) شروع میں آغاز ہی سے بہرے پن کی تکلیف اور بے پناہ لالچ میں (حرف جاں بار ) بیان کر نے کا حف یا لفظ جان پر بوجھ بنا ہوا تھا۔
( سنگ و آہن ) سنگ کے معنی پتھر اور آہن کے ایک معنی لوھے کے ہیں یعنی پتھر اور لوھے اور آہن کے دوسرے معنی آلہ پیمائش کو دیوار کے کونے زاویہ قائمہ 90 درجے کے زاوئیے کو مستری ناپتا ہے یعنی پتھر کی دیوار کو چنتے وقت اُس کے زاویوں کے ناپ یا پیمائش اس آشوب میں یعنی اجتماعی تکلیف یا درد میں۔ ( سپر زادگاں) سَپر معنی ڈھال زاد کے معنی نیک باکرداریعنی ہم باکردار اپنے تحفظ کے لیے اجتماعی طور پر یک جا تھے۔
(خود پنہ ) اپنے طور ۔ ازخود ۔ اپنے حصار میں پناہ لیئے ہوئے تھے ۔ ( صدا آشنا) آواز کی شناخت کر نے والا۔ آواز کو پہچاننے والا۔ سچائی کو سمجھنے والا ( احساس کے کوہ قلعوں میں) احساس کے پہاڑ ہی قلعے یعنی ہم کو اپنی تہذیب، ثقافت، تمدن، زبان، ادب کی شناخت کا احساس تھا اور ہم اس احساس کی وجہ سے پہاڑوں کے تخفظ میں جانے پر مجبور تھے (عمر آزما ) پوری عمر آزمائشوں سے گزرنے والے لوگ (سر کشیدہ رہے ) اپنے سر کٹواتے رہے یعنی جانوں کی قربانیاں دیتے رہے (شب خون ساعت) رات کی تاریکی یا اندھیرے میں قتل و خون کر دینے والی حالت (اک پیرہزَن) ایک بوڑھی عورت ( سینہِ ناتواں ) کمزور سینہ ناتواں چھاتی۔ ( طفلِ بیمار،جاں ) بیمار بچہ یا زخمی بچہ جس کی جان بہت خطرے میں ہو ۔ (ترکہ آخری ) آخری وارثت ۔آخری امید یعنی اکلوتی اولاد (درد ِ حق) صداقت کا درد رکھنے والے سچائی کا شعور رکھنے والے۔ حقیقت کو پہچاننے والے (تبرگاہِ تیرہ) ایسی اندھیری تاریک جگہ یا مقام جہاں تیز دھار کلہاڑیاں چل رہی تھیں (سرفروزاں) کامیاب رہنا۔ سرخرو رہنا۔ غیرت مندانہ انداز میں قائم رہنا۔ ( روزِسیہ) تاریک دن ۔ ظلم و جبر کا زمانہ۔ جاہلوں کی جہالت کا دور ۔۔،، میر تقی میر نے یوں استعمال کیا ہے
تیرہ عالم ہو ا یہ روز سیہ
اپنے دل کے غبار میں دیکھا
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
اِن کو اس روز گار میں دیکھا
( گرد چیخوں سے) ایسی درد انگیز فضا اور پُر آشوب ماحول جہاں چیخوں کی وجہ سے دھول اٹھ رہی ہو ۔ ( وحشت کراہوں ) کراہنے کے معنی یعنی جب شدید درد ہو اور انتہائی برداشت اور ضبط کے باوجود ہلکی سی آہ منہ سے نکل جائے ، ایسا خوف جس میں انسان انسان سے بھی دور بھاگے اس ترکیب میں انسانی معاشرے کی انتہائیدردناک تصویر کشی ہے ( لب سوز آہیں۔ لب سوز آہوں ) شدید غم ، درد کی ایسی شدت اور احساس پر ظلم وستم کے ایسے وار جن کی وجہ سے جو تکلیف دہ آواز یعنی آہ نکلتی ہے وہ آگ کی طرح ہے کہ اس سے ہونٹ جل رہے ہیں، (دودِعدم) دود کے معنی دھواں ، عدم کے معنی نیستی ۔ معدوم ہونے کی حالت ۔ موجود کی ضد۔ یعنی نیستی کا ایسا کالا دھواں ( تاریک تر ) بہت زیادہ اندھیرا ( ہست و ناہست )ہونے اور نا ہونے یعنی وجود سے اچانک عدم میں چلے جا نے یا زندہ کے اچانک مر نے جا نے کی صورتحال ۔ ( قہر باد، مسافت ) قیامت کی جیسی ظلم تباہی اور بربادی والی فضا یا آندھیوں میں سفر کی حالت ( امید گر) امید بنانے والے ، امید باندھنے والے حوصلہ رکھنے والے ۔ ( اعضائے یک دیگراں ) ایک جسم کے حصے جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اور ایک میکنز م کے تحت ان کا یک دوسرے سے رابط رہتا ہے جو ضروری ہو تا ہے،یہاں مراد ایک ملک میں رہنے والوں کے باہمی اتحاد سے ہے (خود سے بیگانہ) اپنے آپ سے انجان یا انجانیت رکھنے یا برتنے والے (آتش تغار) عمارتوں کی تعمیرکے وقت وہ برتن جس میں مزدور سمیٹ ، گارہ لے کر معمار ، مستری یا راج کے کو دیتا ہے جو عمارت تعمیر کر رہا ہو تا ہے ۔ اسے عام طور پر مزدور تغا ری بھی کہتے ہیں ، یہاں مرادیہ ہے کہ انگاروں یا آگ سے بھر ہوا برتن ہمارے سروں پر تھا یعنی ہم ظم و جبر کی آگ میں جل رہے تھے۔ ( لمس آنچ ) حرارت کی پہنچ ۔ آگ کی تپش کا چُھو جانا۔ ( مہر بردل) جن کے دلوں پر مہر لگ گئی تھی ۔ یعنی پتھر دل ہو گئے تھے۔ (دیروز) گزرا ہو اکل ( ہر زبان قرض) مراد تم ظلم کی داستانیں سن رہے تھے۔ ( اہل ِاظہار ) ، مراد شاعر ادیب ، صحافی، اور دانشور۔ ( قہر سودا گروں ) مصیبت ، ظل وستم دینے والوں ( پاسِ صدق) سچائی کا لحاظ ، صداقت کا بھرم رکھنا ، (خطا کار) غلطی کر نے والا ۔ ( کارِ خطا بے خبر) غلطی کرنے کے عمل سے بے خبر جس کو غلط کام قرار دیا گیا اس سے بے خبر ۔ ( وفادار غارت گرانَ وفا) مراد خود کو وفا دار بنا کر پیش کر نے والے مگر اصل میں وفا کا قتل کر نے والے وفا کو غارت کرنے والے برباد کرنے والے۔ (شکوہ سنج) ۔ شکوہ کر نے والا ۔ شکایت کرنے والا ۔ گلہ کر نے والے ۔ اختر سعید خان نے شعر میں یوں استعمال کیا ہے۔
میں شکو ہ سنج نہیں اپنی تیرہ بختی کا ۔۔ مگر بتاؤ کہ یہ صبح زر فشاں کیا ہے
عطا شاد کی شاعری میں ترکیب نگاری ایک بنیادی خوبی ، خاصیت اور ہنر ہے جس سے نہ صرف عطا شاد اپنا منفرد ، لہجہ اسلوب ، اورا نداز بناتے ہیں بلکہ بلوچستان کے متنوع موسموں ، لینڈ اسکیپ ، روایت ثقافت تہذیب ، زبان ، لسانی تشخص کو بھی پُر اثر طور پر دکھاتے اور محسوس کرواتے ہیں ، دینا کے تمام بڑے اور اچھے شعرا اپنے خیالات ، محسوسات، مشاہدات، تجربات اور تصورات بھر پور معنویت اور اثرپزیری کے ساتھ قارئین ، سامعین کے اذہان پر منقش کرنے کے لیے عام استعمال میں آنے والی ، مروجہ تراکیب ، مرکبات اور اصطلاحات ہی کو استعمال نہیں کر تے بلکہ جب وہ شاعرانہ تخلیقی عمل سے گزر رہے ہوتے یا اُن پر جب شعر کا نزول ہو رہا ہوتا تھا تو وہ ساتھ ہی ترکیب سازی بھی کرتے ہوئے نئی ترکیب ،اصطلاحات بھی اشعار میں استعمال کرتے ہیں، اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ خیال تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے جب شعر میں ڈھلتا ہے تو اپنے ساتھ الفاظ بھی لا تا ہے، اس حوالے سے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بے پناہ تخلیقی قوت رکھنے والے شعرا جو وسیع مطالعہ اور زبانوں کے لسانی نظام سے بھی واقفیت رکھتے ہیں وہی نئی اور چونکا دینے والی اصطلاحات اور تراکیب بناتے ہیں میں یہاں برملا یہ کہہ سکتا ہوں کہ عطا شاد اس اعتبار سے اردو کے ٹاپ ٹونٹی شعرا میں شامل ہیں اور بلوچستان میں ترکیب سازی میں اِ ن کے مقابلے میںکوئی اور شاعر اِن کے برابر نہیں آتا۔
نظم ،سرِ گنگ زارِ ہوس۔ کا پس منظراور تشریح
عطا شاد زمانہ طالب علمی سے شعر کہنے لگے، 1939 ء میں مرحوم کی پیدائش ہے، 1955 ء میں وہ گو رنمنٹ کالج کوئٹہ میں پڑھ رہے تھے1956 ء میںکوئٹہ میں ریڈ اسٹیشن قائم ہوا تو عطا شاد ریڈیو میں پروگرام بھی کرنے لگے، یہ وہ زمانہ ہے جب ون یونٹ کے تحت مشرقی پاکستان اور مغربی دو صوبے بنائے گئے، مغربی پاکستان میں جہاں پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا تین صوبے تھے اور بلوچستان کوئٹہ اور قلات دوڈویژون میں تقسیم اور براہ راست مرکز کے کنٹرول میں تھا، یہ بھی ون یو نٹ کا حصہ بن گیا، بلوچستان کی سیاسی فضا میں اُس وقت سابق سوویت یونین کے زیر اثر دائیں بازو کے نظریات اور قوم پرستی کے نظریات کا غلبہ تھا اور اس کے ساتھ ہی جمعیت علماء اسلام کا اثر بھی تھا، 1958 ء کے مارشل لا کے فوراً بعد یہاں پہلی مزاحمت ہوئی۔
1947 ء سے اگرچہ بلوچستان کی برائے نام نمائندگی پارلیمنٹ میں رہی مگر عموماً یہاں سے منتخب ہو کر جا نے والے سیاسی رہنما حزب اختلاف کے طور پر اپنی بساط سے زیادہ جرات کا مظاہر ہ کرتے تھے، عطا شاد اور اِ ن کے دوست حکیم بلوچ دونوں کا مطالعہ ادبی شعبہ کے علاوہ عالمی، قومی اور مقامی سیاست، تاریخ ، جغرافیہ پر بھی تھا ۔ یہ وہ دور تھا کہ جب دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر نہ صرف اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا گیا تھا بلکہ کوریا کی جنگ کے بعد ویتنام ہوچی مین کی قیادت میں اور کیوبا میں فیڈرل کاسترو ’’چی گویرا،کی آزادی کی اور نظریاتی تحریکیں جاری تھیں، چین ماوزے تنگ اور چواین لائی کی قیادت میں آزاد ہو چکا تھا، مشرق وسطیٰ میں مصر میں جمال عبدالنا صر کے زیرِ اثر اشتراکی نظریات مصر سے شام ، عراق ، سوڈان ،یمن اور دیگر علاقوں میں پھیل رہے تھے۔
بھارت کے وزیرا عظم جواہر لال نہروکی غیر جانب دارانہ تحریک بھی عروج پر تھی پا کستان میں پنڈی سازش کیس کی وجہ سے فیص احمد فیض سمیت جنرل اکبر خان ، ایوب مرزا اور دیگر جیلوں میں تھے ۔ کالج سے فارغ ہو تے ہی پہلے عطا شاد ریڈیو میں پروڈیوسر ہو گئے پھر وفاقی محکمہ اطلاعات و نشریات میں آفیسرہوئے جبکہ اِن کے جگری دوست حکیم بلوچ جن کا تعلق بی ایس او سی بھی رہا تھا وہ مقابلے کا امتحان پا س کرکے انتظامیہ کا حصہ بن گئے، بلوچستان کی سیاست میں یہ دونوں دوست سابق گورنر بلوچستان غوث بخش بز نجو اور معروف بلوچی شاعر ، ادیب ، مورخ ، محقق اور سیاسی لیڈر گل خان نصیر سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ اِن کے اِ ن رہنماؤں سے بہت گہرے اور اچھے تعلقات تھے۔
1970 ء میں ملک کے پہلے انتخابات سے قبل تاریخ میں بلوچستان کو پہلی مرتبہ صوبے کا درجہ ملا ۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء دور میں پہلے گور نر لیفٹیننٹ جنرل ریاض حسن بنے۔ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر1971 ء کو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ 1972 ء فروری میں عبوری آئین کے تحت پارلیمانی طرزحکومت کی بحالی کے بعد وفاق صوبہ سندھ اور پنجاب میں پا کستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں، خیبر پختونخوا میں مفتی محمود وزیراعلیٰ اور بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل وزیر اعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان ہو ئے، بھٹو نے 1973 کے مستقل آئین کی تشکیل شروع کی مگر وہ شروع ہی سے چاروںصوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت چاہتے تھے۔
اس لیے وہ بہانے ڈھونڈ رہے تھے کہ کسی طرح بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکو متوں کو ختم کر کے یہاں بھی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکو مت قائم کی جائے۔ سردار عطا اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کا اصولی موقف یہ تھا کہ جس طرح سندھ ، خبر پختونخوا اور پنجاب 1970 ء میں ون یونٹ کے خاتمے پر بطور صوبے بحا ل ہوئے اور یہاں تعینات صوبہ مغربی پاکستان کے صوبائی ملازمین اپنے اپنے صوبوں میں واپس ہوئے ہیں اسی طرح بلوچستان میں جو ملازمین جو دوسرے صوبوں کے ہیں وہ اپنے اپنے صوبوں کو واپس ہو جائیں اس کے لیے بلوچستان نے رعائتی مدت 1958 مقررکی تھی یعنی 1958 ء کے بعد بلوچستان آئے ہو ئے ملازمین واپس لیئے جائیں ۔
بلوچستان میں اُس وقت 90 فیصد سرکاری ملازمین پنجاب کے تھے اور صوبائی حکومت نے اِن پنجابی ملازمین کو مرحلہ وار قسطوں میں واپس لینے کی درخواست کی تھی کیونکہ اس دوران نیا تشکیل پانے والا صوبہ بلوچستان اپنے لوگوں کو ٹریننگ دے کر تیار کر سکتا تھا واضح رہے کہ بھٹو نے 20 دسمبر 1971 ء کو اقتدار سنبھالتے ہی چھ روزہ طوفانی دورے کئے تھے کیونکہ اُس وقت مشرقی پاکستان کی علیحدگی ا ور جنگ کی وجہ سے ملک دیولیہ ہو چکا تھا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی صرف چھ مہینوں کی رقم خزانے میں تھی ،اس موقع پر لیبیا کے صدر کرنل معمر قدافی اور سعودی عرب کے شاہ فیصل نے پاکستان کو ایک سال کے اخراجات کی رقوم مفت فراہم کی تو اب بھٹو مالی اور اقتصادی طورپر مستحکم ہو گئے تھے اُنہوں نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو کمزور اور غیر مقبول کر نے کے لیئے پہلا کام تو یہ کیا کہ بلوچستان سے80 فیصد تجربہ کار اور تربیت یا فتہ سرکاری ملازمین جن کی تعداد پانچ ہزار تھی ان کو اکٹھا پنجاب بلوا لیا اور اِن کو لینے کے لیے خود گورنر پنجاب مصظفٰی کھر کوئٹہ آئے اور گونرر ہاوس میںقیام کرنے کی بجائے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن میں اپنے ریلوے کے خصوصی سلون میں ہی قیام کیا اور گورنر غوث بخش بزنجو اور سردار عطا اللہ مینگل سے بھی ملا قات نہیں کی۔
عطا شاد کو وفاقی محکمے میں بطور انفارمیشن آفیسر اور ریڈیو پروڈیوسر تجربہ تھا ، بلوچستان کی صوبائی حکومت کے لیے وہ موزوں ترین ڈائریکٹر انفارمشن تھے اس لیے عطا شاد کو بلوچستان میں اس عہدے پر تعینات کر دیا گیا ۔ بلوچستان کی پہلی منتخب صوبائی حکومت کے خلاف بھٹو کی دوسری سازش منتخب صوبائی حکومت کا پہلا بجٹ تھا بھٹو کو سعودی عرب اور لیبیا سے بڑی امداد ی رقوم ملی تھیں لیکن بلوچستان کو بجٹ کی سپورٹ کے لیے رقوم نہیں ملیں اور پہلا صوبائی بجٹ تقریبا 40 فیصد خسارے کا بجٹ تھا، سازش کا تیسرا حصہ یہ تھا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو خراب کیا جانے لگا اس کو موثر طور پر کنٹرول کر نے کے لیے تربیت یافتہ 80 فیصد پولیس اور ٹیچرز پنجاب واپس جا چکے تھے۔
اُس وقت بلو چستان کی کل آبادی 23 لاکھ تھی اور بلوچستان صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 21 تھی جس میں سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت کو واضح مگر تھوڑی سے عددی برتری حاصل تھی ابھی اس صوبائی حکو مت کو 9 مہینے ہی ہوئے تھے کہ بھٹو نے صوبے میں امن وامن کے مسئلے کو قومی سلامتی سے جوڑتے ہوئے نیپ کی مخلوط حکومت پر بیرونی سازش کے الزمات عائدکر کے برطرف کر دیا اور اس کے بعد بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا جس کے لیے بھٹو نے پھر شاطرانہ انداز اختیار کیا ۔ ایران پاکستان کو یوں خاطر میں نہیں لا تا تھا کہ بھارت ، افغانستان ، سابق سوویت یونین پاکستان کے دوست نہیں تھے۔
چین اُس وقت اگرچہ ایٹمی قوت ضرور تھا مگر وہ اقتصادی اور عسکری طور پر بڑی طاقت نہیں تھا اس لیے ایران یہ سمجھتا تھا کہ ایران سے ہر قیمت پر دوستی پا کستان کی مجبوری تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا توڑ یوں نکالا کہ ایران مخالف عرب ملکوں خصوصاً لیبیا سے اچھے تعلقات قائم کئے پھر جب بلوچستان آپریشن شروع ہوا تو یہاں آزاد عظیم بلوچستان کا ایک نقشہ جاری ہوا جس میں پاکستانی بلوچستان، ایرانی بلوچستان پر مشتمل ایک وسیع رقبے پر مشتمل علاقے کو ایک الگ آزاد ملک دکھایا گیا اور اس بنیاد پر بلوچستان میں آپر یشن کے تمام تر اخرجات شہنشاہ ایران نے برداشت کئے اور ایران کے شہنشاہ اور اِن کی جڑواں بہن شہزاد ی اشرف پہلوی نے اُس زمانے میں پاکستان کے دورے بھی کئے، اس صورتحال کا گورنر بلوچستان غوث بخش بزنجو کو اپنے مختصر دورحکومت میں کسی حد تک ادراک بھی تھا، اور غوث بخش بزنجو نے عطاشادکے ہمراہ ایران کا دورہ بھی کیا تھا۔
غوث بخش بزنجو کے کچھ رشتہ دار عزیز ایرانی بلوچستان میںبھی رہائش پزیر تھے ، قصہ مختصر کہ بلوچستان میں 1973 ء سے 1977 ء تک آپریشن جاری رہا، اِس دوران غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، سردار عطااللہ مینگل، گل خان نصیر اور دیگر رہنما حیدر آباد جیل میں رہے اور غداری کے مقدموں کا سامنا کر تے رہے، عطا شاد کو اُن کے عہدے سے ہٹا کر بلوچستان آرٹس کونسل جو ایک نیم سرکاری ادارہ تھا یہاں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا، یہی وہ زمانہ ہے جب 1974 ء میں لاہور میں ہونے والی او آئی سی کی اسلامی سر براہ کانفرنس میں بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو بلوا کر بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا اور پھر فوراً بعد ایک بڑے وفد کے ساتھ بھٹو نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو اِن کے ہمراہ فیض احمد فیض بھی شامل تھے جن کو شیخ مجیب الرحمن نے طنز کر تے ہو ئے کہا کہ آپ تو مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں کچھ ہمارے بارے میں بھی تو بولیں اس پر واپسی میں فیض احمد فیض نے مشہور اشعار کہے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
جب کہ بلوچستان میں بھٹو حکومت کے دوران آپریشن پوری شدت سے جاری رہا اس دوران ملک میں ایمرجنسی بھی نافذ رہی، اِس تقریباً پانچ سالہ دور میں ہزاروں افراد بلوچستان میں جان بحق ہوئے، اس ظلم پر پورے پاکستان میں شائد حبیب جالب کے علاوہ کسی شاعر ، دانشور، ادیب نے کچھ نہیں کہا ۔ عطا شاد کی نظم ’’ سر گنگ زارِ ہوس‘‘ بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ کا وہ نوحہ ہے ، شہر آشوب ہے، جب پاکستان کے تقریباً 43 فیصد رقبے پر آہیں،کراہیں ،چیخیں،سسکیاں گونج رہی تھیں اور ہم کو پاکستان کے اہل ادب ، علم و دانش سے وفا کی بنیاد پر یہ غرور تھا کہ یہ اہل وفا کہلانے والے ہماری آواز کو سنیں گے جن کے لئے ہمارے لئے پہاڑوں میں حرف کہنا آواز بلند کر جان پر ایک بوجھ تھا، ہم اپنے تحفظ کے لیے پتھر اور فولاد آشوب میں اپنے آپ میں پناہ لیئے ہوئے تھے تو ہماری خا طر کوئی بھی نہیں تڑپا کسی بھی صدا آشنا نے ہماری آہوں کراہوں پر تڑپ کر نہیں دیکھی ،کسی نے اُس ظلم و ستم میں یہ نہیں دیکھا ہم اپنی پوری عمر میں آزمائشوں سے گزرتے رہے، سر کٹاتے رہے مگر گونجتا لمحہ نہیں آیا یعنی ملک کے اہل علم و دانش شعرا اور ادیبوں نے وقت کی سچائی کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملائی۔ عطا شاد ملک کے شاعروں، ادیبوں ، دانشور وں سے کہتے ہیں ’’تم نے کبھی ایسا لمحہ ایسی ساعت سوچی کہ ویرانوںمیں سنگلاخ پہاڑوں میں کو ئی بوڑھی عورت اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو جو اُس کی آخری امید اور اثاثہ ہو وہ مر رہا ہو اور وہ اُسے اپنے ناتواں سینے سے لگا ئے غم و ستم میں مبتلا ہو ۔ عطا شاد کہتے ہیں کہ ہم ایسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے استقامت کے ساتھ سرفروزاں رہے، کامیاب رہے کہ ہم حق کی سچائی کی خاطر نبرد آزما تھے۔ عطا شاد اپنی بے پناہ تخلیقی طاقت اور پُر اثر تراکیب سے اُس ظلم و ستم کی منظر کشی یوں کر تے ہیں
تم نے دیکھا کبھی ایسا روزسیہ
گرد چیخوں سے،وحشت کراہوں سے
لب سوز آہوں سے،دود عدم سے بھی تاریک تر
ہست و نا ہست کی قہر بادِ مسافت میں
امید گر کیسے زندہ رہے تم نے جانا؟
تم نے سوچا ، نہ دیکھا نہ جانا
کہ عضائے یک دیگراں خود سے بے گانہ تھے
ہم تھے آتش تغار اور تم تک نہ پہنچی کوئی لمس آنچ
یہ منظر کشی عطا شاد کی تراکیب کے ساتھ اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ وہ پاکستان بھر کے شعرا ادیبوں دانشور وں کے سامنے بلوچستان کے اجتماعی کرب کا منظر یوں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے کبھی ایسا تاریک ظالم اور جبر کا حامل ِ’’دن‘‘ وقت ، عرصہ یا زمانہ دیکھا؟ جب چیخیں ایسی بلند ہوں کہ اُن سے گرد اڑتی اور خوف، ظلم وستم کی وجہ سے آہیں آگ کی مانند ہونٹوںکو جلاتی ہو ں اور انسان اس خوفناک فضا اور ماحول میں جینے اور مرنے کے درمیان سفر کر رہا ہو۔ تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ ایسے حالات میں ہم حوصلہ، ہمت اور صبر و استقلال رکھنے والے کس طرح زندہ رہے، تم لوگ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ عطا شاد پاکستان بھر کے ادیبوں دانشوروں کو پکار پکار کر کہتے ہیں کہ تم گنگ زر میں تھے یعنی کہ تم گونگے بہرے بن گئے تھے اور تم نے نہ سوچا اور نہ ہی جاننے کی کوشش کی ۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک تو ایک جسم کی طرح ہوتا ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت آپ تمام ایک ایسے جسم کی مانند ہو گئے تھے جس کے اعضا ایک دوسرے سے بیگانہ ہو گئے ہوں، بے حس ہو گئے ہوں،کیونکہ ہماری حالت بلوچستان میں ایسی تھی جیسے ہم نے اپنے سر پر آگ اور انگار وں سے بھر اہوا برتن رکھا ہوا ہو مگر تم کو ا س کی ہلکی آنچ یا تپش بھی محسوس نہیں ہوئی۔ عطا شاد کہتے ہیں کہ تم سب کچھ جانتے تھے سمجھتے تھے تم حرف وصوت کو برتنے کا آواز کا جادو گانے کا ہنر اور فن رکھتے تھے مگر کیا ہوا کہ تم وفا کے سوداگر بن کے بھی بے قصور ٹھہرے اور ہم نے صداقت اور سچائی کی خاطر وفا کا لحاظ رکھا اور ہم نے کوئی خطا نہیں کی، ہمارا کوئی قصور نہیں تھا مگر ہم قصور وار کہلائے کہ ہم حق اور سچ کے لیے کھڑے تھے اور یہ کہ تم ہی ہم سے شکوہ کرتے رہے اور ہم کو شکایت حق بھی نہیں تھا، ہم تو وفا کے بدلے سے فخر کے ساتھ وفا کی امید وابستہ کئے ہوئے تھے۔ مگر تم نے کچھ بھی نہیں کیا نہ ہمارے بارے میںجانا نہ دیکھا اور نہ سمجھا۔ تم گونگے بہرے بنے رہے ۔
عطا شاد سردار عطا اللہ مینگل کی صوبائی حکو مت کے خاتمے پر بلوچستان کے انفارمیشن یعنی اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر کے عہد ے سے ہٹا کر آج کے ادارہ ثقافت اور اُس زمانے کی بلوچستان آرٹس کونسل کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر بنا دیئے گئے تھے اس زمانے میں پاکستان کے تمام بڑے شاعر و ادیب حیات تھے، جن میں فیض احمد فیض ، حفیظ جالندھری، ن م راشد، صوفی تبسم ، منیر نیازی ، قتیل شفائی ، ابن انشا، احمد ندیم قاسمی، حمایت علی شاعر ، احمد فراز، محسن بھوپالی، محسن احسان، پر وین شاکر، شہزاد احمداور دیگر زندہ تھے اور افتخار عا رف کو عطا شاد کو کئی مرتبہ آرٹس کونسل کے آل پاکستان مشاعروں میں بلواتے رہے اور تعریف کی بات یہ ہے کہ عطا شاد اکثر مشاعروں میں یہ نظم سناتے تھے۔
میں یہاں صرف اتنا ہی کہنے کی جسارت کر سکتا ہوں ، کہ یہ تمام شعرا ادیب مجھ سے کہیں زیادہ سخن فہم تھے۔ عطا شاد کی سیاسی، سماجی بصارت اور سچائی اپنی شاعرانہ قوت کے ساتھ پاکستان کے دانشوروں شعرا اور ادیبوں سے کہیں زیادہ تھی، ذرا تصور کریں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو بلوچستان میں مداخلت نہ کرتے، جمہوری اصولوں کو دل کی صداقت کے ساتھ قبول کرتے اور ظرف کا مظاہرہ کرتے تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کر لیتیں اور ملک میں جمہوری تسلسل قائم رہتا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، عطاشاد نے اس پس منظر میں ِ ،، سر گنگ زارِ ہوس ِ‘‘ ایک ایسی نظم لکھی ہے جو پاکستان کی اردو شاعری اپنی شاعرانہ اور ادبی فکری تکنیکی پختگی کے ساتھ ساتھ سماجی فکری اعتبار سے بھی بہت بڑی نظم ہے۔
ٹاپ ٹن پاکستانی اردو نظم کے شعرا یعنی وہ شاعر جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں زندگی گذارتے رہے، یہاں علامہ اقبال ذکر نہیں ہے، نظم کے اِ ن دس اہم ترین شعرا میں جوش ملیح آبادی، ن م راشد ۔ فیض احمد فیض۔ میراں جی۔ مجید امجد ۔ احمد ندیم قاسمی۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ احمد فراز ۔ عزیزحامد مدنی کے ساتھ صف میں عطا شاد اپنی نظموں اور خصوصاًنظم ’’سرِ گنگ زارِ ہوس‘‘ کے ساتھ شامل ہیں ۔