طوفان الاقصیٰ کا معرکہ سات اکتوبر 2023 کو فلسطین سے آغاز ہوکر آج کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں پہنچ چکا ہے۔ اس معرکے کا آغاز فلسطینیوں نے کیا اور اپنی آزادی کے حصول کے لیے فلسطین پر قابض ناجائز صیہونی غاصب ریاست اسرائیل کے خلاف ایک ایسے طوفان کا آغاز کیا جس نے نہ صرف اسرائیل کی کھوکھلی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ دنیا کی تمام استعماری و استکباری قوتوں بالخصوص امریکا کی ہیبت اور بدمعاشی کو بھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔
طوفان الاقصیٰ کے بارے میں مخالفین نے شروع سے لے کر اب تک مسلسل منفی پراپیگنڈا جاری رکھا ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو قصور وار قرار دیں اور فلسطین پر قائم ناجائز ریاست اسرائیل اور اس کے مظالم کی پردہ پوشی کریں۔ تاہم طوفان الاقصیٰ کے معرکے نے دنیا بھرکے لوگوں کے منفی پراپیگنڈے کے باوجود پوری دنیا کو یہ باور کروا دیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ نہ صرف فلسطینی عوام کا جائز حق ہے بلکہ فلسطینیوں کا ایک تاریخی اور درست فیصلہ ہے، لٰہذا اسی بنیاد پر طوفان الاقصیٰ کو آج ایک تاریخی معرکہ کی حیثیت سے یاد کیا جا رہا ہے۔
ابھی چند روز بعد ہی طوفان الاقصیٰ کی دوسری سالگرہ یعنی اس معرکے کو دو سال مکمل ہوجائیں گے۔سات اکتوبر 2023 کا دن جو کہ طوفان الاقصیٰ کے آغاز کا دن ہے، یہ دن صرف فلسطینی تاریخ ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی یاد داشت میں ہمیشہ ایک تاریخی دن کے عنوان سے زندہ رہے گا۔
طوفان الاقصیٰ نے پوری دنیا کے حریت پسندوں کو بیدارکیا اور فلسطین کے مسئلے کو دنیا بھر میں اجاگرکرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ طوفان الاقصیٰ کی کامیابی میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہداء کا خون شامل ہے کہ جنھوں نے امریکا اور اسرائیل کے ظلم کے مقابلے میں سر تسلیم خم نہیں کیا۔
اس لیے یہ وہ دن تھا جب غزہ کی محصور اور مظلوم سرزمین سے اٹھنے والے طوفان الاقصیٰ نے قابض اسرائیل کے غرورکو چکنا چورکردیا۔ غاصب صیہونی ریاست جو اپنے آپ کو ناقابل تسخیر اور خطے کی سب سے بڑی عسکری قوت سمجھتی تھی، چند ہی گھنٹوں میں لرزتی دیوارکی مانند زمین بوس ہوتی نظر آئی۔
نہ صرف یہی بلکہ آج تقریبا دو سال کا عرصہ لگ بھگ گزر جانے کے بعد بھی طوفان الاقصیٰ نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی بنیادوں کو کھوکھلا اور کمزور کر رکھا ہے اور آج فلسطین کی آزادی سے زیادہ دنیا کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نابودی یقینی نظر آ رہی ہے اور یہی نابودی ہی در اصل فلسطین کی آزادی کی نوید ہے۔
طوفان الاقصیٰ کی کامیابی کے لیے غاصب صیہونیوں کا اعتراف ہی کافی ہے۔ پھر چاہے صیہونیوں کے نمک خوار دنیا بھر میں فلسطینیوں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرتے رہیں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے قومی سلامتی کے تحقیقی ادارے نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فلسطینیوں کے طوفان الاقصیٰ نے غاصب اسرائیل کی سب سے بڑی بنیاد یعنی اس کے نام نہاد سیکیورٹی اور انٹیلی جنس نظام کی اساطیرکو توڑ ڈالا۔
ہزاروں ہلاکتوں اور زخمیوں نے صہیونی دشمن کو وجودی جھٹکا دیا جس سے وہ آج تک باہر نہیں نکل سکا، لٰہذا آج بھی اسرائیل کے اداروں میں طوفان الاقصیٰ کا خوف طاری ہے۔ صیہونی اداروں کا کہنا ہے کہ ابھی طوفان الاقصیٰ جاری ہے اور آنیوالے ایام میں نئی شکلیں بدل سکتا ہے۔
غاصب حکومت کے لیے مسلسل خوف کی فضاء دراصل طوفان الاقصیٰ کے تاریخی معرکے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں القسام بریگیڈز اور القدس بریگیڈز کے جانبازوں نے غزہ کے مختلف محاذوں سے اسرائیل کے خلاف ہلہ بول کر غزہ کی صہیونی بستیاں روند ڈالیں اور صیہونیوں کو مجبورکیا کہ وہ غزہ سے نکل جائیں۔
یہ وہ لمحہ تھا جب غاصب فوج کی نام نہاد فولادی باڑ ٹوٹ گئی، اس کے فوجی اڈے معطل ہوگئے، اس کے سپاہی گرفتارکر لیے گئے اور پوری دنیا نے دیکھا کہ اسرائیلی فوج محض ایک کھوکھلا ڈھانچہ ہے۔ اسرائیلی انتہا پسند لیڈروں نے1973ء کی جنگ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
انھوں نے آئرن ڈوم، اسمارٹ دیوار اور جدید ٹیکنالوجی پر اندھا بھروسہ کیا جس نے انھیں جھوٹی تسلی میں مبتلا کر دیا۔ جب طوفان آیا تو فوج کے پاس نہ کوئی تیار منصوبہ تھا، نہ کوئی متحد قیادت۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قابض فوج بدترین شکست، افراتفری اور رسوائی کی دلدل میں ڈوب گئی۔
غای حازوت اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ1973ء کی جنگ کے بعد صہیونی معاشرہ کسی نہ کسی حد تک متحد ہوگیا تھا مگر 2023ء کے بعد اسرائیلی معاشرہ بدترین تقسیم اور اندرونی انتشارکا شکار ہے۔ ایک گروہ مزید خونریزی اور جنگ چاہتا ہے، دوسرا گروہ انسانی اور معاشی بوجھ کے سبب فوری مذاکرات کا مطالبہ کر رہا ہے۔
یہ تقسیم محض سیاسی بحث نہیں بلکہ ایک وجودی بحران ہے جو اس جعلی ریاست کے پورے منصوبے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہ سب طوفان الاقصیٰ کی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی ہے کہ غاصب صیہونی معاشرہ تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔
خود صیہونی اداروں کی جاری کردہ رپورٹ میں اعتراف کیا جا رہا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کے گروہوں نے دنیا بھر کے عوام کو اپنی حمایت پر اکٹھا کردیا ہے اور یہ سب کچھ ایک طوفان الاقصیٰ کی بدولت رونما ہوا ہے۔ 2023ء کی اخلاقی شکست صہیونی ریاست کے لیے ماضی کی تمام جنگوں کی فوجی شکست سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ غزہ کی جنگ نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اسرائیلی طاقت کی ایک حد ہے۔ وہ چاہے کتنے ہی جہاز اڑا لے یا ٹینک دوڑا لے، ایک ایسے دشمن کو شکست نہیں دے سکتا جس کے پاس ایمان، عزم اور قربانی کی لازوال طاقت موجود ہو۔ آسٹریلیا کے وزیرداخلہ نے بجا کہا تھا کہ طاقت کا پیمانہ یہ نہیں کہ آپ کتنے انسانوں کو بم سے مار سکتے ہیں یا کتنے معصوم بچوں کو بھوک سے مروا سکتے ہیں۔
جی ہاں! جنگ میں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ کس نے کتنے لوگوں کی جان لی، زیادہ قتل و غارت کرنا کسی بھی جنگ میں کامیاب ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ جنگوں کا فیصلہ اہداف اور مقاصد کے حصول پرکامیابی اور شکست سے کیا جاتا ہے۔ اس عنوان سے آج اسرائیل اور اس کی سرپرست حکومتیں برطانیہ و امریکا سب کے سب غزہ میں ایک ذلت آمیز شکست سے دوچار ہیں۔
یہ سب طوفان الاقصیٰ کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے بڑھتے ہوئے اثرات پر صیہونیوں کی تحقیق نے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی قوت کی اساطیر ہمیشہ کے لیے ٹوٹ چکی ہے۔ فلسطینی عوام نے ثابت کر دیا کہ قابض اسرائیل ناقابل شکست نہیںرہا۔
اب ایران، حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن اور خطے کی دیگر مزاحمتی قوتیں اپنی حکمت عملی اس حقیقت پر ترتیب دے رہی ہیں کہ اسرائیل بکھرنے کے دہانے پر ہے۔ غای حازوت انتباہ کرتا ہے کہ اگر صہیونی قیادت نے سبق نہ سیکھا، جنگی مقاصد اور حکمت عملی پر نظر ثانی نہ کی تو یہ جعلی ریاست اندر سے ہی گل سڑ کر بکھر جائے گی۔
مسلسل قبضہ ہمیشہ نئی مزاحمت کو جنم دیتا ہے اور قوموں کی آزادی کی خواہش کو دبانے کا خواب ایک مہلک دھوکا ہے۔دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل آج بھی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ صیہونی حکومت اپنے ظلم اور جارحیت کے راستے پر بڑھ رہی ہے، اس کا معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور اس کی فوج پے در پے شکستوں سے دوچار ہے۔