ٹریفک قوانین اور چالان

ماضی میں اتنے چالان کسی حکومت میں نہیں ہوئے۔لیکن اس کے باوجود بڑے شہروں میںٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں جاری ہیں


[email protected]

ملک کے دو بڑے شہرکراچی اور لاہور میں ٹریفک رولز کی خلاف ورزیوں پرموٹر سائیکل سواروں اور دیگر گاڑیوںکے خلاف مسلسل کارروائیاں جاری ہیں اور سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد شروع کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں رعایت نہیں برتی جا رہی۔دونوں بڑے شہروں میں بعض حلقے اس مہم پرتنقید بھی کرتے ہیں۔

رکشے اور خصوصاً موٹر سائیکلیں چلانے والے لوگ ٹریفک چالانوں کی بھرمار کی وجہ سے خاصے پریشان بھی نظر آتے ہیں۔جتنے چالان اب ہو رہے ہیں ‘ماضی میںاتنے چالان کسی حکومت میں نہیں ہوئے۔لیکن اس کے باوجود بڑے شہروں میںٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ رکشے‘ موٹر سائیکل سوار اورگاڑیوں والے ٹریفک سگنلز کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض لوگوں کا موقف ہے کہ موٹر سائیکلیں اب ہر شخص کی اشد ضرورت بن چکی ہیں۔

لاہور میں لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کراچی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جب کہ کراچی میں موٹر سائیکل رکھنا مجبوری بن چکی ہے اور ملک بھر میں روزگار نہ ہونے اور پٹرول بے حد مہنگا ہونے کی وجہ بڑے شہروں میں لوگ اپنی موٹرسائیکلوں کو بائیکیا کے طور پر استعمال کرکے بھی روزگار کما رہے ہیں اور جو لوگ رکشوں کے منہ مانگے کرائے ادا کرنے کی مالی پوزیشن نہیں رکھتے وہ ان موٹرسائیکل سواری کو اپنے لیے ارزاں سمجھتے ہیں اور بائیکیا والوں کے ساتھ رقم طے کر کے اپنے سفر کو با رعایت سمجھتے ہیں۔یوں یہ ایک سہولت ہے۔

ملک کا کوئی ایک ایسا شہر نہیں جہاں ٹیکسیوں اور رکشوں میں میٹر لگے ہوں،کیونکہ کوئی حکومت اپنے صوبوں میں چلنے والی ٹیکسیوںاور رکشوں میں میٹر لگوانا اپنی ذمے داری سمجھتی ہی نہیں، نہ موجودہ حکمرانوں اور ٹریفک افسروں کو یاد ہے کہ عشروں پہلے پاکستان میں رکشوں اور ٹیکسیوں میں میٹر لگے ہوتے تھے اور میٹروں کے مطابق کرایہ ادا کر کے بغیرکسی جھگڑے کے عزت سے سفر کر لیا کرتے تھے۔

میٹروں کی کہانی ختم ہو چکی، رکشے ٹیکسی والے منہ مانگا کرایہ وصول کرنے میں آزاد ہیں ، یہ ٹریفک پولیس اور حکومت کا مسئلہ رہا نہیں اور لوگ لُٹ رہے ہیں۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد بڑے شہروں میں موٹرسائیکل کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کے سفرکا ذریعہ ہیں۔ لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے کے بجائے ،عوام کو نجی ٹرانسپورٹ کے سپرد کر دیا گیا۔

ایسا مشورہ ٹریفک افسروں نے ہی دیا ہوگا، جنھوں نے پنجاب میں ٹریفک پولیس کی جگہ ٹریفک وارڈنوں کا تقررکرایا جن میں اکثر کے پاس رحم و انسانی ہمدردی تو ہے ہی نہیں بلکہ وہ صرف قانون قانون کی رٹ لگانے کے لیے اور حکومت کی کمائی بڑھانے کے لیے مامور ہیں اور انھیں ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل رکھنے والوں تک کا احساس نہیں۔ موٹرسائیکلیں بھی اب سستی نہیں، لاکھوں تک پہنچ گئی ہیں اور چین کی مہربانی سے قسطوں پر مل جاتی ہیں اور لوگوں کو سفری سہولت ملی ہوئی ہے۔

 سندھ و پنجاب کی حکومتوں نے ٹریفک سسٹم کی بہتری کی آڑ میں غریب موٹر سائیکل والے ہی نظر آئے اورکسی کو کوئی رعایت نہ دینے اور معمولی خلاف ورزی پر بھی ہر حال میں جرمانے کرنے کی ڈیوٹی دی گئی جس سے حکومت کی بے انتہا آمدنی بڑھی جب کہ بڑی اور مہنگی گاڑیوں کو کہیں روکا نہیں جاتا۔ اب کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں ‘لیکن اس کے باوجود بڑی گاڑیوں والے نہ مقررہ اسپیڈ کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی لائن اور لین کا خیال کرتے ہیں لیکن ٹریفک پولیس والے انھیں روکتے نہیں ہیں جب کہ رکشے والوں اور موٹر سائیکل سواروں کو روکا جاتا ہے۔

یوں عوام میں ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے اور انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔آپ کسی سے بھی پوچھ لیں وہ یہی بتائے گا کہ ٹریفک پولیس صرف موٹر سائیکل سواروں ‘چنگ چی رکشے والوں اور لوڈر ویگنوں کو روکتے ہیں اور بغیر پوچھے چالان کی پرچی انھیں تھما دیتے ہیں۔ل

اکھوں روپے سے لگائے جانے والے یہ کیمرے کروڑوں روپے اب پنجاب حکومت کو جرمانوں کی صورت میں کما کر دے رہے ہیں جن کا اصل ٹارگٹ صرف غریب طبقے ہیں۔ ان کیمروں کو ٹوٹی پھوٹی بائیکس نہیں، ان کی خستہ نمبر پلیٹیں اور چلانے والے کا سر ضرور نظر آ جاتا ہے جو فوراً چالان رپورٹ جاری کر دیتے ہیں۔ سندھ و پنجاب میں لاتعداد پرانی بائیکس بغیر نام چل رہی ہیں کیونکہ دونوں جگہ ایکسائز و ٹیکسیشن والے آسانی سے نام ٹرانسفر نہیں کرتے اور جس کے نام بائیک ہو، اس پر جرمانہ بڑھتا جاتا ہے اور چلانے والے کو علم ہی نہیں ہوتا۔ کراچی میں بائیک والے ٹریفک پولیس کا خصوصی ہدف اورکمائی کا بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

مقبول خبریں