میں رات کی آخری پہر ساہیوال کی سڑکوں پر علی عمر کی پھٹ پھٹی پر گھوم رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جہاں نیلی بار لکھا تھا میں نے علی عمر سے فوری طور پر پوچھا کہ نیلی بار کیا ہے۔ علی عمر بتانے لگا کہ یہاں قریب ہی ایک علاقہ ہے جسے نیلی بار کہا جاتا ہے وہاں کی بھینسیں بہت مشہور ہیں۔
میں نے اسی وقت سوچ لیا کہ میرے اس ساہیوال کے البم کا نام نیلی بار ہی ہوگا۔ واپس آ کر تحقیق کی تو پتا چلا کہ نیلی بار پنجاب (پاکستان) کے وسطی حصے کا ایک مشہور خطہ ہے۔ یہ تاریخی، زرعی اور ثقافتی اہمیت رکھتا ہے۔ نیلی بار دریائے راوی اور دریائے ستلج کے درمیان واقع ہے۔ اس علاقے میں کے موجودہ اضلاع اوکاڑہ، ساہیوال، پاکپتن اور کچھ حصہ فیصل آباد اس میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔
لفظ ’’بار‘‘ کا مطلب ہے ایسا وسیع و عریض جنگل یا چراگاہ جہاں زیادہ تر بیری کے درخت ہوں۔ ''نیلی'' اس خطے میں اُگنے والی نیلی (Indigo) کی فصل یا نیلا رنگ دینے والی جڑی بوٹیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ کچھ مؤرخین کے مطابق اس علاقے کی مٹی کا رنگ بھی ہلکا نیلگوں سا دکھائی دیتا تھا۔ نیلی بار زمانہ قدیم سے چراگاہ اور جنگلات کی وجہ سے مشہور رہا۔ مغل دور میں بھی یہاں مال مویشی پالنے اور دودھ، گوشت کی پیداوار زیادہ تھی۔
سکھ اور برطانوی دور میں اس خطے کو خاص اہمیت دی گئی کیوںکہ یہ زرخیز اور چراگاہوں کے لیے موزوں تھا۔ آج بھی نیلی بار کو پنجاب کی سب سے زرخیز زمینوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ گندم، کپاس، مکئی، گنا اور سبزیوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ دودھ اور لائیو اسٹاک کی صنعت میں بھی یہ خطہ نمایاں مقام رکھتا ہے۔
اب کی بار نہ جانے موسم نے کیا کیا مانگ دکھلائے کہ پنجاب کے اسکولوں اور کالجوں میں بہت سی چھٹیاں دے دی گئیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ 25 یا 26 مئی کو ہی موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان کردیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ بچوں کے سکول کھلنے کی تاریخ 18 اگست تھی مگر حقیقت بات یہ ہے کہ اس قدر حبس تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب گورنمنٹ نے اچھا کیا جو دو ہفتے کے لیے مزید اسکولوں کو بند کردیا اور اعلان کیا کہ یکم ستمبر سے اسکول کھلیں گے مگر اچانک آنے والے سیلاب نے پنجاب بلکہ خاص بالائی پنجاب کے علاقوں میں ایسی تباہی پھیری کہ ہمارے یہاں ضلع سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مزید ایک ہفتے کی تعطیلات کردی گئیں۔
چھے ستمبر کو یوم دفاع بھی تھا اور 12 ربیع الاول بھی۔ آٹھ ستمبر کو دوبارہ اسکول کھل جانے تھے۔ 12 ربیع الاول اس مرتبہ ہفتے کو آرہی تھی۔ میں نے علی عمر کے ساتھ پلان ڈسکس کیا کہ کیوں نہ ہفتہ اتوار کی چھٹی کو ملا کر ایک ایسا پلان ترتیب دیا جائے کہ ساہیوال کے کچھ اطراف کے علاقوں کو دیکھا جاسکے۔ مجھے اس دن کا لالچ یہ تھا کہ میں ہفتے کو ساہیوال کی آوارگی کرتا رہوں گا۔ رات پھر میرے سفر میں گزر جائے گی اور اتوار صبح سویرے میں اپنے گھر ہوں گا۔ سارا دن آرام کے بعد میں اگلے روز پھر اپنے اسکول کے کام پر واپس جا سکوں گا۔ چوںکہ 12 ربیع الاول تھا اس لیے علی عمر کو بھی اپنے کام سے چھٹی ہی ہونا تھی اور یوں میں 12 ربیع الاول کی چھٹی کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ساہیوال کی جانب چلا گیا۔
گاڑی نے تقریبا ساڑھے تین بجے مجھے ساہیوال کے اڈے پر اتار دیا۔ میں تقریبا چھے گھنٹوں میں سیالکوٹ سے ساہیوال پہنچ گیا مگر علی عمر نہ جانے اپنے کون سے بیوٹی پارلر میں تیار ہونے کے لیے گیا ہوا تھا کہ اسے اپنے گھر سے مجھ تک آنے میں پورا ایک گھنٹہ لگ گیا۔ میرے ایک بناوٹی غصے میں آنا ضروری تھا۔ علی عمر کے آتے ہی میں نے اسے بہت سی صلواتیں سنائیں۔ علی عمر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ میری صلواتوں کو اطمینان اور سکون سے سن لیتا ہے۔ میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ علی عمر کے ساتھ یہ میرا تو پہلا سفر نہ تھا بلکہ ہم اس سے پہلے بھی سیون سسٹر ٹنلز کا ایک ٹریک کرچکے ہیں۔
اس کے علاوہ ملتان، صادق آباد، جتوئی کی سیاحت بھی میں علی عمر کے ساتھ ہی کر چکا ہوں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ میں جس شخص کے ساتھ ایک سفر کروں اسی شخص کے ساتھ دوبارہ سفر بھی کروں۔ مجھے یہاں اقرار کرنا پڑے گا کہ علی عمر کی شخصیت میں دوسروں کی باتوں کو جذب کرنے کی صلاحیت ایسی ہے کہ آپ اس کے ساتھ مزید سفر کرنے سے اپنے آپ کو باز نہیں رکھ سکتے۔ میری سفر کرنے کی کچھ اپنی عادات ہیں اور علی عمر کی کچھ اپنی عادات ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کچھ سال پہلے جب ہم اٹک کی سات سرنگوں والی بہنوں کا ٹریک کر رہے تھے تو واپسی پر اٹک خورد سے ہمیں ایک لوکل بس پر پنڈی واپس انا تھا اور یہ سفر اڑھائی سے تین گھنٹے کا انتہائی تکلیف دہ تھا۔ میرا موڈ اس قدر شدید خراب تھا اور علی عمر مجھ سے مسلسل باتیں کیے جا رہا تھا۔
میں نے علی عمر کو ایک ہلکی سی ڈانٹ بھی پلا دی کہ وہ کس قدر ایک باتونی شخص ہے مگر علی عمر چوںکہ میری بہت سی عادتوں سے واقف تھا تو اس نے میری بات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ علی عمر کا اس وقت میرے غصے کو نظرانداز کرنا ہی میرے دل میں گھر کر گیا اور میں نے اسی وقت طے کرلیا کہ علی عمر کے ساتھ اور بہت سے اسفار بھی ہوسکتے ہیں۔
یہ میرے غصے کو جذب کرنے کی علی عمر کی صلاحیت ہی تھی کہ آج ایک چوتھے سفر پر ہم دونوں رواں دواں تھے۔ اپنے چوتھے سفر کی ہی ایک کڑی میں، میں رات کے چار بجے ساہیوال کے لاری ڈے پر موجود تھا۔ چائے بسکٹ کا ناشتہ کیا گیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں ساہیوال آؤں اور ساہیوال کے ریلوے اسٹیشن پر نہ جا سکوں۔ فجر کی نماز ہم نے ساہیوال ریلوے اسٹیشن کی مسجد میں ہی ادا کی۔ میرے ذہن میں یہ چل رہا تھا کہ آج چونکہ 12 ربیع الاول ہے تو اسٹیشن کو شاید سبز برقی قمقموں سے سجایا گیا ہوگا مگر وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
خیر یہ کوئی اتنی ضروری بات بھی نہیں تھی۔ اس وقت کسی بھی ریل کے آنے کا وقت نہیں تھا مگر ایک حاضری کے طور پر ساہیوال ریلوے اسٹیشن پر تصویر بنانا ضروری تھا۔ علی عمر نے ساہیوال ریلوے اسٹیشن سے جڑی اپنی کچھ یادوں کو میرے ساتھ شیئر کیا ساہیوال ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہی بنی ہوئی انگریزوں کا ایک ڈاک بنگلے بھی دکھایا۔
’’ڈاک بنگلہ‘‘ برصغیر کے دورِ برطانیہ کی ایک عام اصطلاح ہے۔
ڈاک + بنگلہ = ڈاک کے افسران یا مسافروں کے قیام کی جگہ۔
یعنی انگریز دور میں جب خط و کتابت گھوڑوں یا قافلوں کے ذریعے پہنچتی تھی تو راستے میں سرکاری آرام گاہیں بنائی جاتی تھیں۔ ان میں ڈاک کے ملازم اور سوار (پوسٹ مین، قاصد وغیرہ) ٹھہرتے تھے۔ بعض اوقات یہ مقامی افسران کے ریسٹ ہاؤس بھی ہوتے تھے۔ یہ بنگلے عموماً شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کے قریب تعمیر کیے جاتے تھے تاکہ حکام اور ڈاک کا عملہ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکے۔
کچھ ہی دیر کے بعد ہم ساہیوال شہر سے باہر نکل گئے۔ ہمارا رخ ساہیوال شہر سے باہر بنے ایک ڈاک بنگلے کی جانب تھا جو آج کوڑے شاہ کی کوٹھی کے نام سے مشہور ہے۔ مقامی لوگ اسے کبھی ’’کوڑے شاہ کا مزار‘‘ اور کبھی ’’کوٹھی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ ’’کوڑے شاہ‘‘ ایک درویش یا صوفی بزرگ تھے، جن سے مقامی لوگ عقیدت رکھتے تھے۔
ان کے نام سے منسوب ایک مزار اور قریب ہی ایک قدیم کوٹھی/ڈاک بنگلہ نما عمارت موجود رہی ہے۔ بعض لوگ اسے انگریز دور کی تعمیر قرار دیتے ہیں۔ کوڑے شاہ کی یہ کوٹھی بڑی اینٹوں اور چونے کے پلستر سے بنی ہوئی۔ کشادہ کمروں اور اونچی چھتوں والی عمارت واقعی دیکھے جانے کے قابل ہے۔ مقامی طور پر لوگ اسے ’’سرکاری کوٹھی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کچھ پرانی کتابوں اور مقامی روایات میں ذکر ہے کہ یہ کوٹھی ساہیوال کے نواحی ڈاک بنگلوں کے سلسلے کا حصہ تھی۔
گوگیرہ بنگلہ
کچھ اشخاص ایسے ہوتے ہیں جن کا ہونا آپ کے لیے واقعی میں باعثِ نعمت بھی ہوتا ہے اور باعثِ رحمت بھی۔ میرے حلقہ احباب کی فہرست میں کوئی لمبے چوڑے افراد تو نہیں۔ گنتی کے صرف دو سے تین افراد ہی ہیں جن سے میں اپنی روزمرہ زندگی میں نہ صرف ملتا ہوں بلکہ ان سے بہت کچھ سیکھتا بھی ہوں ورنہ تو زیادہ تر میں لوگوں سے ملنے سے اجتناب ہی کرتا ہوں۔ نہ جانے ایسا کیوں ہے کہ میرے احباب کی فہرست بہت ہی کم ہے۔ میرے اپنے شہر سیالکوٹ میں صرف تین اشخاص ایسے ہیں جن کے ساتھ میری ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
ان میں سے ایک عمرطفیل بھی ہیں۔ عمرطفیل کے ساتھ میری دوستی ایک بہت ہی الگ قسم کی ہے۔ ہم جب آپس میں ملتے ہیں تو دنیا جہان کے موضوعات زیرِبحث آتے ہیں جن سے یقیناً اول موضوع علم و ادب ہی ہوتا ہے۔ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ عمرطفیل کا شاعری میں ذوق بہت ہی اعلٰی ہے اور میرا زیرو سے بھی نیچے۔ میں نے عمرطفیل سے بہت کچھ سیکھا ہے اور مسلسل سیکھ رہا ہوں۔ ہماری جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو عمر مجھے کچھ اشعار ایسے سنا دیتا ہے کہ جو سیدھے میرے دل پر جا کر وار کرتے ہیں۔
شاید دو برس پہلے کی بات ہے میں اور عمرطفیل کسی اچھی جگہ پر بیٹھے تھے کہ عمرطفیل نے مجھے حافظ برخوردار رانجھا کی شاعری میں سے کچھ لائنیں سنا دیں۔ ان لائنوں کا سننا تھا کہ میں تقریباً پاگل سا ہوگیا۔ لائنیں کچھ یہ تھیں۔
حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں پِیر دا جے سِر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دِیوا نت بلے
کُتی مَرے فقیر دی، جیڑی چوں چوں نت کرے
پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سُنجیاں، تے وچ مرزا یار پھرے
چلیں پہلے ذرا ان کا سادہ اردو مطلب دیکھتے ہیں۔
دوسرے مصرع میں سِر کے سائیں سے مراد آپ کا نفس ہے جو آپ کے پورے وجود، آپ کی خواہشات، آپ کے جذبات الغرض سب کچھ کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی پہلے مصرع میں حافظ صاحب کہتے ہیں کہ اگر میرا اپنے نفس پر قابو آ جائے تو میں ایک بکرا ذبح کروں گا۔
کراڑ ہندؤں کی ایک ذات ہے جو حد سے زیادہ کنجوس ہوتے ہیں۔ اتنے کنجوس کہ اپنی ذات پر ایک دمڑی بھی نہیں لگاتے اور پیسے کو ہمیشہ سنبھال کر رکھتے ہیں۔ حافظ صاحب اس مصرع میں کہتے ہیں کہ انسان کو اس قدر کنجوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ میانہ روی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
تیسرے مصرعے میں کتی سے مراد انسانی خواہشات ہیں جو جو ہر وقت انسان کو برائی کی جانب مائل کرتی ہیں۔ صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ انسان کی ہر برائی کی جڑ پانچ سات چیزوں میں ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ حسد، بغض، کینہ، لالچ، غرور وغیرہ ہیں۔ حافظ برخوردار نے ان سب بیماریوں کو آپسی گوانڈھن کہا ہے یعنی یہ ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں ہیں۔ ان بیماریوں کے خاتمے کے بعد بھی اگر انسان کے اندر کی کوئی بیماری بچ جائے تو وہ بھی بیمار ہو اور اپنے خاتمے کی طرف جائے۔ احباب اب یہ مصرع پڑھیں:
پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ (بخار) چڑھے
اور ان سب بیماریوں کے بعد جب انسان کا اندر صاف ہوتا ہے تب جا کر انسان کا عشقِ حقیقی پورا ہوتا ہے اور انسان اپنے محبوب کو پاتا ہے۔
اب میں چوں کہ ایک سیاح انسان ہوں تو سب سے پہلے جو مجھے خیال آیا وہ یہ تھا کہ حجرہ شاہ مقیم کو دیکھا جائے۔
میں حجرہ شاہ مقیم کا نام پہلی مرتبہ سن رہا تھا۔ یہاں تک کہ عمر طفیل خود بھی حجرہ شاہ مقیم سے واقف نہ تھا۔ میں نے عمرطفیل سے حجرہ شاہ مقیم کے بارے میں معلومات لینا چاہیں تو عمر بتانے لگا کہ حجرہ شاہ مقیم شاہد لاہور میں ہی کہیں پر واقع ہے۔ ہم دونوں کو پہلی نظر میں یہ شک پڑتا تھا کہ کسی شاہ مقیم کا کوئی حجرہ ہوگا جو کہ لاہور میں آباد ہوگا۔ میں نے فوری طور پر لاہور میں موجود اپنے ایک دوست سے اس بارے میں معلومات لی۔ شاید وہ بھی اس بارے میں کچھ خاص معلومات نہ رکھتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے اور اس لاہوری دوست کے تعلقات کچھ شاید مختلف نوعیت کے تھے یا مجھے گمان ہوتا ہے کہ وہ مختلف نوعیت کے تھے۔
مجھ جیسے لوگوں کا مسئلہ یہی ہے کہ ہم خود سے ہی بہت سی چیزیں فرض کرلیا کرتے ہیں اور انہی باتوں کو حقیقت مان کر لوگوں سے میل ملاپ رکھتے ہیں۔ یہاں میں نے اس سے حجرہ شاہ مقیم کے بارے میں ذکر کیا اور وہاں اس نے مجھے حجرہ شاہ مقیم کے بارے میں معلومات فراہم کردی کہ حجرہ شام مقیم لاہور میں تو نہیں مگر ساہیوال جاتے ہوئے کہیں راستے میں ضرور پڑتا ہے۔
میرے اس لاہوری دوست نے مجھے یہ آفر بھی کی کہ وہ مجھے حجرہ شاہ مقیم دکھانے کے لیے لے جائے گا مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ میں ایک ایسے شخص کو کسی بھی مشکل میں ڈال دوں جو میرے دل کے کچھ زیادہ ہی قریب ہو۔ میں نے عرض کیا نا کہ مجھ جیسے لوگوں کا مسئلہ ہی یہی ہیں کہ وہ خود سے بہت سی باتوں کو فرض کر لیا کرتے ہیں تو میں نے بھی ان دنوں یہ فرض کر لیا تھا کہ میں اپنے اس لاہوری دوست کے دل کے بہت ہی زیادہ قریب تھا مگر یہ تو مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میں نے ایک غلط شے کو فرض کیا تھا۔
اپنے حالیہ سفر میں، میں ایک چوکور میں سفر کرنا چاہ رہا تھا۔ ہم نے اوکاڑہ سے ہوتے ہوئے رینالہ خورد تو آنا ہی آنا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ ہم رینالہ خورد سے ہوتے ہوئے حجرہ شاہ مقیم جائیں اور پھر وہاں سے دیپالپور چلے جائیں مگر علی عمر نے میرا سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ علی عمر چوں کہ ساہیوال سے تھے، اس لئے میں نے اس سفر کے ہر معاملے پر اسی کی بات کو ترجیح دی۔ علی عمر کے بجائے ہوئے پلان کے مطابق ہم اکاڑوہ سے رینالہ خورد کی طرف تو جائیں گے مگر حجرہ شاہ مقیم اور دیپالپور جانا ممکن نہیں ہو گا۔ سڑکوں کی ترتیب علی عمر بہتر جانتا تھا سو میں حجرہ شاہ مقیم کو دور سے ہی سلام کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہم گوگیرہ میں تھے کہ علی عمر کہنے لگا کہ گوگیرہ کا پورا نام گوگیرہ بنگلہ ہے اور اسے گوگیرہ بنگلہ اس لئے کہا جاتا تھا کہ یہاں انگریزوں کے بنائے ہوئے کچھ بنگلے تھے۔ ایک قلعہ نما بنگلے کا سراغ بھی علی عمر نے لگا رکھا تھا۔ مجھے امید تو نہ تھی کہ یہاں ہمیں کچھ خاص ملے گا مگر علی عمر کی تحقیق کام آئی اور ہمیں کچھ نہ کچھ آثار تو مل ہی گئے۔ یہ ایک پرانا قلعہ نما بنگلہ ہی تھا جس میں اب کسی کی رہائش تھی۔
فصیل تقریباً تباہ ہوچکی تھی۔ رہائش پذیر کون تھا، کیسا تھا، ہمیں کچھ خبر نہ تھی۔ مجھے اگر ذرا بھی شبہ ہوتا کہ ہمیں کوئی اندر سے قلعہ دیکھنے کی اجازت دے گا تو ضرور دستک دیتا۔ دو تین بڑی بڑی سی گاڑیاں اور گیٹ پر لمبی لمبی مونچھوں والا چوکیدار اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ بڑے صاحب یقیناً سخت طبعیت کے حامل ہی ہوں گے۔ ہم دونوں نے بس باہر سے ہی گوگیرہ بنگلہ کی باقیات کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھا اور آگے کی جانب چل پڑے کہ ابھی ہمارا سفر بہت لمبا تھا اور آہستہ آہستہ ہمیں اس سفر کو پورا کرنا تھا۔
مگر گوگیرہ بنگلہ کی اصل وجہ شہرت کچھ یوں ہے کہ یہ سپوتِ پنجاب رائے احمد خان کھرل کی جائے شہادت ہے۔
رائے احمد خان کھرل برصغیر کی آزادی کی پہلی جنگ (1857) کے عظیم اور بہادر مجاہدینِ آزادی میں سے ایک تھے۔ آپ جھامرا گاؤں کے سردار تھے اور پنجاب میں انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے والے اولین رہنما کہلائے۔ پیدائش کے بارے کوئی مستند بات تو نہیں مگر زیادہ مورخین کا خیال یہی ہے کہ آپ 1785ء میں پیدا ہوئے۔ قوم کھرل (ایک معروف جاٹ قبیلہ) تھی۔ جب کہ ان کا علاقہ جھامرا تھا۔ رائے احمد خان علاقے کے معزز اور بااثر زمیندار تھے، جنہیں عوامی سطح پر بہت عزت حاصل تھی۔
جب 1857 میں ہندوستان میں آزادی کی تحریک اٹھی تو پنجاب کے بہت سے علاقوں میں انگریزوں نے بغاوت کو سختی سے کچل دیا لیکن رائے احمد خان کھرل نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی جرأت دکھائی۔ انہوں نے گوگیرہ، ست گھڑہ، اور دیگر دیہات کے مقامی قبائل کو متحد کیا اور انگریز افسران کے قافلوں اور سپلائی لائنز پر حملے کیے۔ ان کی قیادت میں مقامی عوام نے انگریز تھانوں پر چھاپے مارے اور کئی علاقوں کو عارضی طور پر آزاد کرالیا۔
اگر ہم جنگِ جھامرا کی بات کریں تو یہ برصغیر کی 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران پنجاب میں ہونے والی ایک بڑی اور تاریخی بغاوت تھی، جس کی قیادت رائے احمد خان کھرل نے کی۔ یہ جنگ برطانوی راج کے خلاف پنجابیوں کی غیرت، بہادری اور آزادی کی تڑپ کی ایک زندہ علامت ہے۔
جھامرا کے اطراف کے سب علاقے رائے احمد خان کھرل کی سربراہی میں متحد تھے۔ 1857ء میں جب میرٹھ اور دہلی میں انگریزوں کے خلاف بغاوت اٹھی، پنجاب میں انگریزوں نے بہت جلد قابو پالیا۔ مگر رائے احمد خان کھرل نے پنجاب کے کسانوں اور قبائل کو منظم کیا۔
انگریز افسر میجر ہیملٹ نے ان سے انگریزوں کے حکم ماننے کا مطالبہ کیا، مگر رائے احمد نے صاف انکار کردیا۔ انگریزوں نے علاقے کے سرداروں کو گرفتار کرنا شروع کیا۔ رائے احمد خان نے قیدیوں کو آزاد کرایا اور انگریزوں کے قافلے پر حملہ کردیا۔ ان کے ساتھ مراد فتیانہ، سارنگ، موکا، اور وٹو سرداروں نے بھی شرکت کی۔ گگھیرہ قلعہ پر انگریز قابض تھے۔ باغیوں نے قلعے پر حملہ کیا، کئی انگریز سپاہی مارے گئے، مگر انگریز فوج زیادہ طاقت ور تھی۔
21 ستمبر 1857ء کو جھامرا کے قریب ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ رائے احمد خان نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ نمازِ عصر کے وقت وہ شہید ہوگئے۔
انگریزوں نے ان کی لاش درخت پر لٹکا دی تاکہ لوگوں میں خوف پھیلے، مگر اس کے برعکس عوام کا جذبہ مزید بڑھ گیا۔
اگرچہ جنگ جھامرا کو انگریزوں نے فوجی طاقت سے کچل دیا، لیکن اس نے پنجاب میں بغاوت کی ایک چنگاری روشن کر دی۔ یہ چنگاری بعد میں پنجاب کے سیاسی شعور اور آزادی کی تحریکوں کا پیش خیمہ بنی۔ رائے احمد خان کھرل کے ساتھیوں نے بعد ازاں گوریلا حملوں سے انگریزوں کو مسلسل پریشان رکھا۔
یہاں جس ’’لارڈ برکلے‘‘ کا ذکر اکثر آتا ہے، وہ دراصل انگریز حکومت کا نمائندہ یا افسر تھا جو اُس وقت پنجاب کے برطانوی نظم و نسق کا حصہ تھا۔ بعض تاریخی حوالوں میں اسے ’’برکلے صاحب‘‘ یا ’’لارڈ برکلے‘‘ لکھا گیا ہے۔ اصل میں وہ کیپٹن یا کرنل برکلے تھا، جسے جھامرا اور گوگیرہ کے علاقے میں بغاوت دبانے کا حکم ملا تھا۔
انگریز افسر لارڈ/کیپٹن برکلے جھامرا پہنچا اور مقامی بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی۔ شدید لڑائی ہوئی، رائے احمد خان کھرلؒ اور ان کے ساتھیوں نے انگریز فوج کو سخت نقصان پہنچایا۔ اسی جنگ میں لارڈ برکلے (برطانوی افسر) مارا گیا۔ کچھ روایات کے مطابق برکلے کی لاش جھامرا کے قریب دفن کی گئی لیکن بعد میں انگریزوں نے بدلہ لیتے ہوئے رائے احمد خان کھرلؒ کو گولی مار کر شہید کر دیا۔
…………
گورنمنٹ رائے احمد خان کھرل ہائی اسکول
گورنمنٹ رائے احمد خان کھرل ہائی اسکول، جھامرا (ضلع اوکاڑہ) تاریخی لحاظ سے بہت اہم ادارہ ہے، کیوںکہ یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ پنجاب کی آزادی کی علامت رائے احمد خان کھرلؒ کی یادگار کے طور پر بھی مانا جاتا ہے۔
یہ اسکول جھامرا کے اس مقام کے قریب واقع ہے جہاں 1857ء کی جنگِ آزادی میں رائے احمد خان کھرلؒ نے انگریزوں کے خلاف جھامرا کی جنگ لڑی اور شہید ہوئے۔ اسی علاقے کی تاریخی اور انقلابی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حکومتِ پنجاب نے یہاں ایک ہائی اسکول قائم کیا اور اس کا نام رائے احمد خان کھرل کے نام پر رکھا تاکہ آنے والی نسلیں اپنے ہیرو کی قربانی کو یاد رکھ سکیں۔
یہ اسکول جھامرا کی اُس آزادی کی سرزمین پر قائم ہے جہاں کبھی لارڈ برکلے مارا گیا اور رائے احمد خان کھرلؒ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ لارڈ برکلے کی قبر بھی گوگیرہ بنگلہ میں موجود ہے۔
ہم گوگیرہ بنگلے میں لارڈ برکلے کی قبر دیکھ چکے تو اب ہمارا رخ مشہورِزمانہ نولکھی کوٹھی کی طرف تھا۔
نولکھی کوٹھی
حکایت ہے کہ کسی ندی کنارے ایک شخص مچھلیاں پکڑنے کے لیے کنڈی لگائے بیٹھا تھا۔ کنڈی پر ایک کیڑا دیکھ کر چھوٹی مچھلی کا جی مچلا۔ قریب ہی ایک بڑی مچھلی تھی۔ چھوٹی مچھلی کو کیڑے کی جانب جاتا دیکھ کر نصیحت کرنے لگی کہ دیکھو اس پھندے میں مت آجانا۔ یہ کنڈی ایک شکاری نے لگائی ہے۔
شکاری تمھیں پکڑے گا، مسالا لگائے گا، گرم تیل میں ڈالے گا اور کھا جائے گا۔ بڑی مچھلی نصحیت کرکے آگے کو چل پڑی۔ چھوٹی مچھلی نے اپنے ماحول پر جو غور کیا تو اسے نہ تو کہیں شکاری نظر آیا اور نہ ہی کوئی مسالا جات اور نہ ہی گرم تیل کی کڑاہی۔ چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی کی نصیحت کو نظرانداز کر کے جوں ہی کنڈی پر لگا کیڑا اپنے منہ میں ڈالا تو پھر اس نے شکاری بھی دیکھا، مصالحے بھی دیکھے اور گرم تیل کی کڑاہی بھی۔
اس دنیا میں بھی انبیاء کرام، خدا کے نیک بندے، صالحین آتے رہے جنھوں نے لوگوں کو نصیحت کی کہ نیکی کی راہ اختیار کریں، بدی سے دور رہیں اور سب سے زیادہ یہ کہ اس دنیا میں اپنا جی نہ لگائیں۔ جن لوگوں نے ان انبیاء، صالحین کی بات کو مانا، وہ کام یاب ہوئے مگر جن لوگوں نے ان کی باتوں کو عام جان کر ہوا میں اڑا دیا تو تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں بھی وہ ایسی عبرت کا نشان بنے کہ رہتی دنیا تک نشانِ عبرت ہی رہیں گے۔ صرف انسان ہی نہیں بلکہ کچھ عمارتیں بھی ایسی ہوتی ہیں جو نشانِ عبرت بن جاتی ہیں۔
مکان اینٹ ریت بجری سے تھوڑا بنتا ہے۔ مکان تو بنتا ہے انسانوں سے، ماں باپ سے، اولاد سے، اپنے پیاروں سے۔ جب ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے تو وہ مکان گھر نہیں رہتا۔ صرف اور صرف اینٹ ریت کی عمارت رہ جاتی ہے۔ خواہ وہ اوکاڑہ کی نو لاکھ سے بنی ہوئی نو لکھی کوٹھی ہو یا چنیوٹ کا خوب صورت لکڑی کا کام والا عمر حیات محل۔
نو لکھا ہار برصغیر کی قدیم تاریخ اور ادب میں ایک مشہور استعارہ ہے۔ ’’نو لکھا‘‘ کا مطلب ہے ’’نو لاکھ‘‘ یعنی انتہائی قیمتی اور بیش بہا۔ اس طرح ’’نولکھا ہار‘‘ ایک ایسا ہار ہے جو نو لاکھ کی مالیت کا ہو، یا پھر محاورہ کے طور پر کسی نایاب اور بے مثال چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں نولکھا ہار ایک ایسا زیور تھا جو صرف بادشاہوں اور راجاؤں کے پاس ہوتا۔ مغل دور میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ بادشاہ اپنے شاہی خزانے میں ایسے قیمتی ہار رکھتے تھے۔ پنجابی اور اردو شاعری اور لوک کہانیوں میں ’’نو لکھا ہار‘‘ کو محبوب یا کسی نایاب شے کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جب کوئی چیز یا شخص بہت قیمتی، نایاب یا بے مثال ہو تو اسے ’’نولکھا ہار‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بیٹی والدین کے لیے نو لکھا ہار ہوتی ہے۔
’’نو لکھی کوٹھی‘‘ بھی ’’نولکھا ہار‘‘ ہی کی طرح ایک محاوراتی اور تاریخی اصطلاح ہے۔ ’’نولکھی‘‘ یعنی نو لاکھ کی، اور ’’کوٹھی‘‘ یعنی بڑی حویلی یا عالی شان مکان۔ اس طرح ’’نولکھی کوٹھی‘‘ کا مطلب ہوا ایک ایسی کوٹھی جو نو لاکھ روپے میں بنی ہو، یا پھر اتنی قیمتی اور شان دار ہو کہ اس کی مثال نہ مل سکے۔
پرانے وقتوں میں جب کسی رئیس یا نواب نے کوئی بہت شاندار حویلی یا مکان بنوایا تو اسے ’’نو لکھی کوٹھی‘‘ کہا جانے لگا۔ لاہور میں بھی ایک ’’نولکھی کوٹھی‘‘ کا ذکر آتا ہے جو اپنی شان و شوکت اور خوب صورتی کے باعث مشہور تھی۔ پنجابی لوک گیتوں اور محاوروں میں ’’نولکھی کوٹھی‘‘ کو اکثر غرور، دولت اور عیش و عشرت کی علامت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی بہت شاندار اور قیمتی مکان بنائے تو لوگ اسے ’’نو لکھی کوٹھی‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’وہ تو ایسی نو لکھی کوٹھی میں رہتا ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔‘‘