جو جاوے کوچے سے ترے آوے ہے گھائل
تلوار کھیچے ہے نہ کوئی تیر چلے ہے
کچھ ایسی ہی صورت حال آج کل ہمارے اس وطن عزیز کی ہے۔جس کے حصول کے لیے قربانیاں دی گئی تھیں ہزاروں جان کی، اس امید کے ساتھ کہ وہاں ہم دشمنوں سے دور،اپنے ہی اپنے ہوں گے کوئی غم خزن کوئی ملال نہیں ہوگا وہی ہماری فردوس گم گشتہ ہوگی اور ہم ہوں گے
بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را باکسے کارے نہ باشد
لیکن آج وہاں ایک گھمسان کی جنگ برپا ہے ہم اگر ہر طرف دیکھیں تو سارے کے سارے لہولہان ہیں۔اور وہی بات کہ تلوار کھچے ہے نہ کوئی تیر چلے ہے۔مطلب ہم اس لڑائی اور خونریزیوں کی بات نہیں کررہے ہیں جو ظاہری ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے وہ تو الگ سے چل رہی ہے اور چلتی رہے گی، جب تک دنیا میں عیار ومکار یہودی سوداگر اور سیدھے سادے مسلمان موجود ہیں۔ہم ایک اور جنگ کی بات کررہے ہیں جس میں کوئی ظاہری ہتھیار نہیں چل رہا ہے لیکن پھر بھی ہرطرف دیکھیے تو ہر کوئی لہولہان دکھائی دے اور گھائل نظر آئے گا یا مقتول۔یہ جنگ مغلوبہ ہر ہر شہر،ہر ہر گلی کوچے اور ہر ہر گھر میں بپا ہے۔
یہ لیڈر رہنما اور رہبر عوام کو قتل کررہے ہیں سرکاری محکمے پبلک کو گھائل کررہے ہیں سرکاری محکمے اور ادارے محکوموں کو چاقو چھریاں بھونک رہے ہیں پھر سیاسی لوگ اور پارٹیاں حکومت کے درپے ہے اور حکومت سیاست کے۔ دکاندار تاجر اور صنعت کار عوام کا قتل عام کررہے ہیں، مسیحا مریضوں کے کشتے کے پشتے لگا رہے ہیں، ٹرانسپورٹر عوام کو خونا خون کررہے ہیں، سرکاری لٹیرے ٹرانسپورٹوں کا خون چوس رہے ہیں بلکہ کچھ ایسے بھی ادارے اور عناصر ہیں جو خود کو خود ہی ٹھکانے لگارہے ہیں جیسے واپڈا،ریلوے وغیرہ۔قانون نافذ کرنے قانون کی ایسی کی تیسی کررہے ہیں محافظ ڈاکو بن چکے ہیں، چوکیدار خود چوری کررہے ہیں بلکہ قانون آئین اور انصاف خود ہی خود کے ہاتھوں لہولہان ہیں۔ہمیں تو کہیں بھی کوئی ایسا گوشہ دکھائی نہیں دے رہا ہے جہاں کوئی سلامت ہو ہاں اونچے بہت اونچے ’’ایریا‘‘ میں ہو تو ہو۔ اوراونچی دیواروں کے بیچ۔جن کی رگوں میں سابق’’رنگ‘‘ کا لہو بہہ رہا ہے سفید۔۔۔۔اور قدموں میں ان آقاؤں کا سبز رنگ۔
خط سبزے بخط سبز مرا کرد اسیر
دام ہمرنگ زمیں بود گرفتار شد
ہمیں تو اس پورے ملک میں ایسی کوئی جگہ نظر نہیں آتی جہاں یہ جنگ جاری نہ ہو ہم نے ابتدا میں جو شعر عرض کیا ہے وہی حالت ہے کوئی تیر چلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا کوئی تلوار چلتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے کوئی خنجر نیزہ کوئی چھری کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن جسے دیکھو گھائل اور لہولہان دکھائی دیتا ہے ہر طرف خون ہی خون بہہ رہا ہے کوئی دامن داغدار نہیں ،کوئی آستین سرخ نہیں لیکن لوگ گھائل ہیں زخمی ہیں، درد سے چیخ چلا رہے ہیں ،مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔لیکن سنے کون جو کہ سننے والے خود بھی اس جنگ مغلوبہ میں شامل ہیں،جو دانا دانشوروں نے ریاست کے چار ستون بتائے ہیں ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ستون روز بروز زمین میں دھنسے جارہے ہیں
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا مانند مسلمانی
اور ستونوں کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہیں گے کہ عیاں راچہ بیان۔لیکن جس ستون سے ہمارا تھوڑا بہت تعلق بنتا ہے۔پہلے زمانے میں اسے صحافت کہتے تھے اور یہ ایک فن یا مشن تھا۔لیکن آج اسے میڈیا کہتے ہیں اور انڈسٹری بن گئی ہے ۔اگلے زمانوں میں یہ ’’بذریعہ قلم‘‘ کی جاتی تھی اور ضمیر کی روشنی میں کی جاتی تھی لیکن آج یہ کیمرے اور مائک سے کی جاتی ہے اور مفادات کے باٹوں سے تولی جاتی ہے۔
پورا ستون ہی دیمک کھاچکا ہے صرف اوپر خول باقی ہے۔کچھ دانا دانشور کبھی کبھی چینلوں پر اخباری بیانات اور دانش سے بھر پور کالموں میں خوشی خوشی بتاتے ہیں کہ ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے،سڑکوں پر گاڑیوں کی آبشاریں بہہ رہی ہیں جگہ جگہ فوڈ اسٹریٹ چل رہی ہیں شاپنگ مالوں میں قدم جمانے کی جگہ نہیں ملتی ہر جگہ بہار ہی بہار اور گلزار ہی گلزار ہے اورا س کا مطلب ہے کہ ہمارا معاشرہ خوشحال ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں شہروں میں جو خوشحالی نظر آرہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 77سالوں میں جو بھی حکومتیں برپا ہوئی ہیں ان سب نے سینٹریلائزیشن اور مضبوط مرکز کا جو ’’عفریت‘‘ پالا ہے اس کے دو جبڑے ہیں ایک اوپر کا جو پندرہ فیصد سیاسیوں، راشیوں اور استحصالیوں پر مبنی ہے۔
وہ چلتا ہے نیچے کے جبڑے میں پھنسے ہوئے بدنصیبوں کو پیستا ہے اور اس کا خون پیتا ہے اور روز بروز موٹا ہوتا جاتا ہے۔یہ لیڈر دانا دانشور اور حکام نہیں جانتے بالکل نہیں جانتے یا جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں کہ شہروں کی چمک دمک جب نچلے طبقات والے دیکھتے ہیں تو ان سہولتوں اور ’’عیاشیوں‘‘ کو حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں اور کیا کیا کچھ ’’بیچتے‘‘ ہیں۔ان کو یہ تو یقینا پتہ ہوگا کہ دیہاتی قصبائی اور غریب لوگ ’’کیا کیا‘‘ بیچ رہے ہیں پندرہ فیصد اشراف کی ہمسری کرنے کے لیے۔ عزت، غیرت، عصمت سب کچھ۔کیونکہ این جی اوز اور بعض پرائیوٹ اسکولز وکالجوں کی شکل میں ’’سہولت کار‘‘ بھی موجود ہیں کیا کریں گے ترقی یافتہ جو بننا ہے۔کچھ’’پانے‘‘ کے لیے کھونا تو پڑتا ہے،کسی کو یقین نہ ہو تو سب کچھ سامنے ہے۔آدھی ادھوری تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی آزادی نسواں کی بانسریاں سن کر اسی راہ پر چل نکلی ہیں۔