اسرائیلی فوج کی ایک اعلیٰ ترین قانونی افسر میجر جنرل یفات تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تومر یروشلمی اسرائیلی فوج میں ملٹری ایڈووکیٹ جنرل کے طور پر تعینات تھیں اور ان کے خلاف قیدیوں پر فوجی اہلکاروں کے تشدد کی ویڈیو لیک ہونے کے معاملے پر تحقیقات جاری تھیں۔
میجر جنرل یفات تومر یروشلمی انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ میں تسلیم کرتی ہوں کہ میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے یہ مواد میڈیا کو جاری کرنے کی اجازت دی۔ میں اس فیصلے کی مکمل ذمہ داری لیتی ہوں۔
خاتون میجر جنرل نے اپنے استعفے میں اعتراف کیا کہ انھوں نے خود ایک ایسی ویڈیو میڈیا کو لیک کرنے کی منظوری دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ یہ ویڈیو جنوبی اسرائیل کے سدی تیمن حراستی مرکز کی نگرانی کیمروں سے ریکارڈ کی گئی تھی اور اگست 2024 میں اسرائیلی چینل 12 پر نشر ہوئی تھی۔
ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو زمین پر اوندھا لٹا کر ڈھالوں کے پیچھے لے جاتے ہیں اور پھر اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعد ازاں قیدی کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔
انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق تومر یروشلمی کا استعفیٰ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی فوج کے اندر شفافیت، احتساب اور انسانی حقوق کی سنگین کمی موجود ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے ان کے استعفے کو درست قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو شخص فوجی جوانوں کے خلاف جھوٹے الزامات پھیلائے، وہ اسرائیلی فوجی وردی کا اہل نہیں۔
فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے ان کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی تاکہ سچ سامنے لایا جا سکے۔
یاد رہے کہ سدی تیمن حراستی مرکز کو غزہ کی جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے فلسطینی شہریوں اور مشتبہ افراد کے لیے عارضی کیمپ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کیمپ میں قیدیوں پر تشدد، بدسلوکی، علاج معالجے سے محرومی اور غیر انسانی سلوک کے الزامات لگائے تھے۔
2024 میں اسی مرکز سے متعلق ایک اور مقدمے میں پانچ اسرائیلی فوجیوں پر ایک فلسطینی قیدی کو جنسی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
یہاں تک کہ ایک اہلکار کو اس جرم میں سات ماہ قید کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ سدی تیمن کیمپ کو قانونی دائرے میں چلایا جائے لیکن عدالت نے اسے بند کرنے کا حکم نہیں دیا۔
دوسری جانب دائیں بازو کے سیاستدانوں اور انتہا پسند گروہوں نے ان فوجیوں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا اور انہیں قومی ہیرو قرار دیا تھا۔