ڈھاکا: بنگلہ دیش میں جمہوری اصلاحات کا منصوبہ سیاسی اختلافات کے باعث تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔ عبوری حکومت نے سیاسی جماعتوں کو ایک ہفتے کی مہلت دی ہے کہ وہ اصلاحاتی چارٹر پر متفق ہوں، ورنہ حکومت خود فیصلہ کرے گی۔
نوبیل انعام یافتہ محمد یونس، جو عبوری حکومت کے "چیف ایڈوائزر" ہیں، نے کہا کہ انہوں نے ایک "تباہ حال سیاسی نظام" وراثت میں پایا ہے۔ انہوں نے اصلاحاتی منصوبے کو ملک میں دوبارہ آمرانہ طرزِ حکومت سے بچاؤ کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
"جولائی چارٹر" کے نام سے مشہور یہ منصوبہ جولائی 2024 کی عوامی بغاوت کے بعد تیار کیا گیا تھا، جس کا مقصد وزیراعظم کے لیے دو مدت کی حد مقرر کرنا اور صدارتی اختیارات میں اضافہ کرنا ہے۔ تاہم، بعض جماعتوں کا مؤقف ہے کہ اس منصوبے کو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے منظور کیا جائے۔
دوسری جانب، بی این پی اور جماعتِ اسلامی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے چارٹر پر دستخط کر دیے ہیں۔
عبوری حکومت کے اعلانات کے ساتھ ہی بی این پی نے اعلان کیا ہے کہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیں گی۔
80 سالہ خالدہ ضیا تین نشستوں سے انتخاب لڑیں گی، ان کے بیٹے طارق رحمان بھی برطانیہ سے الیکشن میں حصہ لیں گے۔
خالدہ ضیا گزشتہ کئی برسوں سے خراب صحت اور سیاسی مقدمات کے باعث سرگرم سیاست سے دور تھیں۔ ان کی حریف شیخ حسینہ واجد کو اگست 2024 میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔
بنگلہ دیشی عبوری حکومت نے پرائمری اسکولوں میں موسیقی کے اساتذہ بھرتی کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ وزارتِ تعلیم کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق، "موسیقی اور فزیکل ایجوکیشن کے اسامیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔"
ذرائع کے مطابق، یہ فیصلہ جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیموں کے دباؤ کے بعد کیا گیا ہے، جو نصاب میں موسیقی کی شمولیت کی مخالفت کر رہی تھیں۔