حال ہی سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کررہی ہیں کہ جاپان نے بھی امریکا کی طرح جرائم کی روک تھام کیلئے غیرملکیوں کو وسیع پیمانے پر ملک بدر کرنا شروع کردیا ہے۔
پوسٹ میں بتایا گیا کہ سانائے تاکائیچی نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا اور فوری طور پر بڑے پیمانے پر غیر ملکیوں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا۔
جب سخت گیر قدامت پسند سانائے تاکائیچی 21 اکتوبر کو نئے حکومتی اتحاد کے قیام کے بعد ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں تو ایک پوسٹ فیس بُک اور ایکس پر شیئر کی گئی جو بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز بن گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ جاپان کی نئے وزیر اعظم نے فوری طور پر بڑے پیمانے پر ملک بدری کا آغاز کردیا ہے۔
تاہم جاپان کی حکومت نے اس فیک نیوز کی تردید کردی ہے اور کہا ہے کہ اگرچہ وہ غیر ملکیوں کے جرائم اور غلط رویے کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا چاہتی ہے تاہم وہ سوشل پر شیئر کی جانے والی آن لائن پوسٹس کے برعکس وسیع پیمانے پر ملک بدری نہیں چاہتی۔
یہ پوسٹ ایکس پر بھی شیئر کی گئی جس پر 95 لاکھ کمنٹس موصول ہوئے۔ برطانیہ میں جاپان کے سفارت خانے کے ترجمان نے بھی ایک ای میل میں کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ملک کی نئی وزیرِ اعظم نے بڑے پیمانے پر ملک بدری شروع کر دی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک نئی وزارت بھی تشکیل دی گئی ہے۔