آدم زاد: حقیقی زاویوں کی کہانی

ناول میں مصنف یہ سوال کھڑا نہیں کرتا کہ انسان کیسے پیدا ہوتا ہے



پروفیسر خیال آفاقی کا ناول ہمارے بیسویں اور اکیسویں صدی کے سنگم پر پیدا ہونے والے اس سماجی تجربے اور انسانی خدمت والے جذبے کو سامنے لاتا ہے، جس نے ہمارے معاشرے میں نئی اخلاقی اور فلاحی معنویت پیدا کی۔ خیال آفاقی نے اسے روایتی ڈرامائی سسپنس کی جگہ انسانی تعمیر اورکردار سازی پر کھڑا کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میاں راحیل کی تحریر اس ناول کے تعارف کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں علامہ اقبال کے شعرکا حوالہ محض ادبی اضافہ ہی نہیں بلکہ اس ناول کے بنیادی روحانی جملے کے طور پر بھی سامنے آتا ہے کہ انسان وہی بڑا ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے جیتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

پروفیسر خیال آفاقی ناول کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں۔’’ قدرت کے بے شمار مظاہر میں سے ایک بہت بڑی نشانی اور اس پر اسرار کائنات کا عجیب و غریب حصہ سمندرکہ، اس کی تاحد نظر پھیلی ہوئی نیلگوں سطح کو دیکھ کر عقل انسان حیران و ششدر ہے۔

اس کی تیز رفتار اور پر شور موجیں جب ساحل کی طرف یلغارکرتی ہیں تو دیکھنے والوں کے دل و دماغ سہم کر رہ جاتے ہیں۔ وقت کی نبضیں ڈوبنے لگتی ہیں لیکن یہ سرکش اور منہ زور موجیں مقررہ حد سے ایک قدم آگے بڑھے بغیر اسی تیزی سے واپس ہو جاتی ہیں توکائنات کے خالق و مدبرکی حمد و ثنا کرنے پر دل مجبور ہو جاتا ہے۔

اور دماغ سوچنے لگتا ہے کہ اگر یہ بپھری ہوئی موجیں اسی رفتار سے آگے بڑھتی چلی جائیں اور واپس نہ ہوں تو زمین کے خطہ خشک پر آباد زندگی پلک جھپکتے ہی غرق آب ہوکر فنا کا عنوان بن جائے۔ لیکن، ایسا ہوتا نہیں! سمندر جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل پیرا ہے۔

ہزاروں سال سے خود بھی قائم ہے اور اپنے ساحل پر بسنے والی مخلوق اور دوسری نشانیوں کو بھی زندہ و سلامت دیکھتا چلا آ رہا ہے، بلکہ صدیوں کی طرح آج بھی اس کے ہمسائے، روز وشب اس سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں اور انسان اس کلام الٰہی کے آگے لب بستہ و سر خمیدہ ہے کہ:

’’اے گروہ جن وانس، تم اس کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ لاریب اس کی نعمتوں کا نہ شمار ممکن ہے اور نہ ہی حق سپاس ادا کرنے کی کسی میں طاقت ہے۔‘‘

ناول آدم زاد کا آغاز سمندر کے منظر سے ہوتا ہے۔ سمندر یہاں محض منظر ہی نہیں بلکہ علامتی موازنہ بھی ہے۔ سمندر کی سرکش موجیں حدود میں رہ کر جینے کا پیغام دیتی ہیں۔ پھر کہانی آگے چل کر ایک نکاح کی تقریب سے دوسرے باب پر منتقل ہوتی ہے۔

یہ تقریب بعد میں آنے والی ساری سماجی بساط کا مرکزی نقطہ بنتی ہے۔ وقت گزرتا ہے، موسم بدلتے ہیں۔ تعلقات غیر مانوس سے مانوس بنتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی ذمے داری بن جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جہاں جدائی اور موت کا پہر ہے۔

ڈاکٹر کی گفتگو میں انسانی خدمت کا سب سے اونچا پہلو سامنے آتا ہے۔ اختتام میں ایک فلاحی ادارہ ہے جو چل پڑا ہے۔ انسانیت کی خدمت تسلسل میں جاری ہے۔ آدم اب صرف ایک فرد ہی نہیں بلکہ وہ ایک کار خیر کی علامت بن گیا ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی لکھتے ہیں۔’’چاروں طرف سنہری دھوپ پھیلی ہوئی ہے، جس نے سردی میں بڑی حد تک کمی کر دی ہے۔ پنڈال کے پاس، ڈاکٹر بنفس نفیس برات کی منتظر ہے۔ خوش آمدید خوش آمدید۔ اس نے سر اور کمر کو ہلکا ساخم دے کر دولھا اور مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔شکریہ نوازش! جواب میں امام صاحب نے اظہار تشکر کیا۔‘‘

ناول آدم زاد کا مرکزی موضوع بے لوث انسان دوستی ہے۔ پروفیسر آفاقی صاحب نے بتائے بغیر ثابت کیا ہے کہ اصل آدم زاد وہ ہے جس کے اندر حسن اخلاق اور ہمدردی کا نور ہو۔ ناول میں مصنف یہ سوال کھڑا نہیں کرتا کہ انسان کیسے پیدا ہوتا ہے۔ ناول نگار یہ دکھاتا ہے کہ انسان ’’یہ کیسے بنتا ہے۔‘‘

اس ناول کی ساخت روایتی پلاٹ کی پابند نہیں۔ یہ فوٹوگرافک فکشن اسٹریم بھی نہیں۔ یہ سادہ بیانیہ ہے۔ سورج، سمندر، موسم، نکاح، موت اور پھر ادارے کی تعمیر وغیرہ وغیرہ۔ اس کا بیانی سفر زندگی کے دو بڑے دائروں کو سامنے رکھتا ہے۔

ایک دائرہ’’ زندگی کا آنا‘‘اور دوسرا دائرہ’’ زندگی کا چلے جانا‘‘ان دونوں دائروں کی درمیانی پگڈنڈی خدمت ہے۔ناول میں کائناتی منظر نگاری بھی ہے جیسے سمندر کا استعارہ، موسموں کا استعمال، مرد عورت کے تعلق کا انسانی احترام، موت کی شدید حقیقت کو نرم انسانی لہجے میں بیان کرنا شامل ہے۔

ان سب کے بیچ نہ کوئی مصنوعی جذباتی ڈرامہ ہے نہ کوئی خطابت۔ یہ کم از کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ احساس جگانے کی ادبی تکنیک ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی رقمطراز ہیں۔’’سردیاں گئیں، بہار کا موسم آیا۔ گرمیوں نے آگ برسائی اور برسات نے پانی، اور اس طرح روز و شب گذرتے چلے گئے۔ سال بھر ایسے بیت گیا جیسے مہینہ۔ وقت کا پہیہ گھومتا ہوا پھر اسی جگہ پر آ گیا۔

اب پھر راتیں خنک ہونے لگیں۔ باہر کھلی فضا اور صاف ہوا میں سونے والے پھر اندر کمروں میں گھس کر گرم بستروں میں راتیں گذارنے لگے۔‘‘

 خیال آفاقی کا ناول‘‘آدم زاد’’ہمارے سماجی ادب کی اس روایت کو آگے بڑھاتا ہے جو قرۃ العین کے ناولوں میں قضا و قدر کے درمیان انسان کے اخلاقی کردار کو دیکھتی ہے۔ یہ ناول ماضی میں خیراتی اداروں یا سماجی تنظیموں کو ادب میں صرف موضوع کے طور پر لانے تک محدود نہیں رہتا۔

یہ ناول انسان کو ایک اخلاقی پروجیکٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پروفیسر آفاقی صاحب نے یہ ناول لکھتے ہوئے کسی سماجی ٹیبل پر بیٹھ کر ڈرامائی کردار نہیں گھڑے۔ انھوں نے زندگی کی خام حقیقت کو صفحات پر منتقل کیا۔ اس لیے اس ناول میں خدمت کی عملیت ہے۔ جذبات کا روایتی تصنع نہیں۔

خیال آفاقی لکھتے ہیں۔’’اس وفا کے روشن مینار کو رات ہونے سے پہلے پہلے، جیسے ہی مطلع صاف ہوا، سر شام ہی اس کے محبوب کے پہلو میں سلا دیا گیا۔ مہربان بزرگ تمام رسومات ادا کرنے کے بعد واپس اسپتال ڈاکٹر کے پاس آئے تو سوگوار ماحول میں جو بڑی دیر سے خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔

ان کی غم سے بوجھل آواز نے ہلچل سی پیدا کر دی۔ سلام کے بعد وہ براہ راست ڈاکٹر سے مخاطب ہوئے۔آپ کی تعمیر نو کردہ عمارت کو زمین کے حوالے کر آئے ہیں۔ اچھا ہو گیا، بہت اچھا ہو گیا ڈاکٹر نہایت اطمینان سے بولی۔ ’’وہ اپنا ساتھی کا پاس چلا گیا، نہیں تو ہم کدھر سے اس کو بتاتے کہ اس کے بچہ کا کیا ہوا؟ کون اس کے بچہ کو لے گیا؟‘‘

ناول کے شروع میں سمندر ہے۔ آخر میں ایک فلاحی ادارہ ہے۔ درمیان میں انسان کی نفسی تعمیر ہے۔ یہی اسے دیگر ناولوں سے الگ کرتا ہے۔یہ ناول ہمارے اس دور میں ایک اخلاقی بیان ہے کہ انسان کو آدم زاد بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود تک محدود نہ رہے۔ انسانیت دو حرف کا لفظ نہیں بلکہ یہ ذمے داری ہے۔ یہ عمل ہے۔ یہ مسلسل خیر کے میدان میں رہنے کا نام ہے۔

اس لیے ناول’’آدم زاد‘‘ ا دب کے لیے بھی اہم ہے اور سماج کے لیے بھی۔ یہ ناول پڑھنے والے کو خاموشی میں ڈال دیتا ہے۔ اور خاموشی کے بعد انسان خود سے پوچھتا ہے۔

میں خود اپنے اندر کا آدم کب تک زندہ رکھوں گا اور میری خدمت کا دائرہ کہاں تک جاتا ہے۔ میں ناول آدم زاد کے ذریعے انسانی ذات کے حقیقی زاویوں کو نمایاں کرنے پر اور کتاب کی اشاعت پر مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

مقبول خبریں