کچھ دنوں سے اخبارات میں ’’کائنات‘‘ کے موضوع پر کچھ نہ کچھ آرہا ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ کچھ کنفیوز ہوجاتے ہیں چونکہ اس موضوع پر ہم بھی اپنی کتابوں میں ایک عرصے سے لکھتے چلے آرہے ہیں اس لیے ہم سے بھی اپنے پڑھنے والے کچھ نہ کچھ پوچھتے رہتے ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان اس دور میں داخل ہورہا ہے جس میں ایک’’بچہ‘‘ اپنے آپ کو ’’بڑا‘‘ محسوس اور عجیب وغریب کام کرنے لگتا ہے، وہ بڑوں کی چیزیں اٹھانے اور استعمال کرنے کوشش کرتا ہے، بڑوں کے جوتے اور لباس پہننے کی کوشش کرتا ہے، منہ سے فائر اور گاڑیوں کی آوازیں نکالتا ہے، گاڑیوں کی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلانے کی کوشش میں چوٹیں بھی کھاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ انسان اور اس کائنات کا بھی ہے۔ کائنات کی پیدائش اور تخلیق کے بارے میں اب تک جو نظریہ قائم کیا گیا ہے وہ بگ بینگ یا بڑے دھماکے یا انفجار عظیم کا نظریہ ہے۔اگرچہ جدید ترین طبعیات یا کوانٹم فزکس والے دھماکے کا نظریہ تسلیم نہیں کرتے اور کچھ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ قسم کی تھیوری پیش کرتے ہیں لیکن زیادہ مقبول نظریہ یہی بگ بینگ کا ہے لیکن ان سب نظریوں سے پہلے ہم انسان کے بارے میں بات کریں گے جو اس کائنات کے تناظر میں ایک ذرہ بے مقدار ہے، اس کی ہستی، اس کا وجود، اس کی عمر،اس کی رسائی اس کی استطاعت کچھ بھی نہیں ہے۔مثلاً اس ذاتی عمر میں تو ایک طرف پوری انسانیت اور اس کے علم و ذہن کی عمر چند ہزار سال سے زیادہ نہیں ہے جب کہ موجودہ کائنات جس میں ہم موجود ہیں اس کی عمر بیس ارب سال،سورج کی عمر آٹھ ارب سال اور زمین کی عمر چار ارب سال بتائی جاتی ہے اور حیات یا زندگی کی عمر اکہتر کروڑ سال ہے۔
ایسے میں انسان اور اس کا ذہن اس کائنات کو کیسے سمجھ پائے گا۔اس کے لیے میں اکثر ایک قطرے،ایک ذرے یا ایک جنگل کے ایک پتے سے چمٹے ہوئے کیڑے کی مثال دیتا ہوں۔ قطرہ سمندرکا،ذرہ صحرا کا اور کیڑا جنگل کا احاطہ کیسے کرسکتا ہے جب کہ اس کی عمر اس کی استعداد اور رسائی بھی مختصر ہو۔کائنات’’کُل‘‘ ہے اور انسان اس کا جزو۔ جزو کُل کا نہ احاطہ کرسکتا ہے نہ ادراک۔کائنات کے مقابل انسان کی بضاعت کا اندازہ ایک اور پہلو سے لگاتے ہیں جو ہماری زمین یا کرہ ارض ہے۔سورج کے خاندان کا ایک رکن ہے جس میں آٹھ دس اور اس سے بڑے بڑے اراکین بھی شامل ہیں پھر یہ ہمارے سورج اور اس کے خاندان جیسی’’سوارب‘‘ خاندان یا سورج یا نظامہائے شمسی ہماری اس سامنے والی ایک کہکشاں ہیں اور پھر ہماری اس کہکشاں کی طرح کائنات میں سوارب اور کہکشائیں بھی موجود ہیں۔لیکن یہ پرانا حساب تھا نیا حساب جو ناسا کے سائنس دانوں نے لگایا۔یہ تعداد اس سے آٹھ گنا زیادہ بھی ہوسکتی ہے گویا سو جمع سو اور جمع آٹھ۔اور یوں سمجھیے کہ ان میں ہماری زمین کی اتنی اور زمینیں ہوسکتی ہیں اور ان میں مخلوقات بھی موجود ہوتی ہیں اسی لیے تو’’ایلیز‘‘ کے افسانے فلمیں ڈرامے اور ناول تخلیق کیے جاتے ہیں۔
ایک اور حساب یہ بھی لگایا گیا ہے کہ اس کائنات کی وسعت یا فاصلہ پندرہ کھرب نوری سال’’نوری سالوں کے بارے میں اکثر پڑھے لکھے لوگوں کو پتہ ہے لیکن پھر بھی بتا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فاصلہ طے کرتی ہیں پھر سیکنڈ سے منٹوں،گھنٹوں،دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب لگایے اسے نوری سال کہا جاتا ہے پندرہ کھرب نوری سال؟ اندازہ لگائیں کہ یہ فاصلہ کتنا ہوگا کیونکہ روشنی سے تیز کوئی ذریعہ سفر تو ممکن نہیں کیونکہ بقول سٹیفن ہاکنگ۔اگر کوئی چیز اس سے زیادہ رفتار سے چلے تو’’مکان‘‘ سے نکل کر’’زمان‘‘ میں داخل ہوجائے گی ہمارے عام انسانی اصطلاح میں غائب یا معدوم ہوجائے گی۔ لیکن بات یہاں پوری نہیں ہوتی کیونکہ یہ پندرہ کھرب سال کا فاصلہ کہاں سے کہاں پر ہوگا۔یہ شروع کہاں سے ہوگا اور ختم کہاں پر ہوگا اور اس شروع سے پہلے کیا ہے اور ختم ہونے کے بعد کیا ہے۔
ہم عام انسانی زندگی میں اور مذہبی اصطلاح میں’’ازل‘‘ اور ابد کے الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن’’ازل‘‘ کہاں سے شروع ہے اور ابد کہاں ختم ہو ازل سے پہلے۔اس پہلے سے پہلے اور پہلے پہلے کیا تھا اگر کچھ بھی نہیں تھا تو وہ ’’کچھ بھی نہیں‘‘ کیا تھا اور اگر ابد کے بعد کچھ بھی ہوگا تو کچھ بھی کہاں تک۔انسانی ذہن تو ہر چیز کا آغاز و انجام چاہتا ہے اور یہاں نہ آغاز کا پتہ ہے نہ انجام کا۔تواس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کا ذہن اس کائنات کے مقابل محدود نارسا اور نامکمل ہے یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔جس بگ بینگ کا ذکر ہوتا ہے کہ ایک ذرہ پھٹا اور اس میں مرتکز کائنات پھیلنا شروع ہوئی اب بھی پھیل رہی ہے لیکن ایک خاص حد کے بعد جب دھماکے کا زور ختم ہوجائے گا تو یہ کائنات سمٹنا شروع ہوجائے گی یعنی انتشار کے بعد پھر ارتکاز۔معلوم نہیں کہ اس میں کتنا وقت لگے گا بیس ارب سال سے تو انتشار چل رہی ہے اور طبعیات والے کہتے ہیں کہ یہ کائنات ’’ادھیڑعمری‘‘ کی حالت میں ہے۔خیر جتنا بھی عرصہ لگے لیکن آخر کار یہ کائنات ایک مرتبہ پھر ایک ذرے میں مرتکز ہوجائے گی اور ارتکاز آخری حد پت پہنچے گا تو دباو سے ایک مرتبہ پھر دھماکا ہوگا اور نئی کائنات بننا شروع ہوجائے گی۔
یہیں پر انسانی ذہن اور علم پھر جواب دے جاتے ہیں۔ طبعیات والے نہیں بتاسکے کہ یہ دھماکوں یا کائناتوں کے بننے اور ختم ہونے کا سلسلہ کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا ہم سے پہلے کتنے سیکڑوں ہزاروں لاکھوں یا کروڑوں اربوں بگ بینگ ہوئے ہیں اور آیندہ کتنے ہوں گے۔ (جاری ہے)