سربراہ پاک فوج کا فکری خطاب

پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز محض سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت قومی آزمائش ہیں


ایڈیٹوریل December 23, 2025
فوٹو: فائل

چیف آف آرمی اسٹاف و چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں دراندازی کرنے والے ٹی ٹی پی جنگجوؤں میں 70فیصد افغان ہوتے ہیں‘ کسی بھی اسلامی ریاست میں جہاد کا حکم یا فتویٰ ریاست کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا‘ وہ اسلام آباد میں منعقدہ قومی علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جس میں ملک بھر سے تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور مشائخ نے بھرپور شرکت کی۔فیلڈ مارشل نے اپنے خطاب میں دہشت گردی، قومی سلامتی، عالمی برادری میں پاکستان کے ابھرتے کردار، جنگی تیاریوں اور علم و قلم کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی۔

پاکستان ایک نازک مگر فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے جہاں داخلی سلامتی، علاقائی سیاست، فکری انتشار اور عالمی دباؤ ایک دوسرے میں گتھے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں چیف آف آرمی اسٹاف و چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قومی علماء و مشائخ کانفرنس سے خطاب محض ایک عسکری بیان نہیں بلکہ ایک فکری، نظریاتی اور قومی سمت کا تعین تھا۔ ان کے خیالات میں ریاست کی بالادستی، دین کی صحیح تعبیر، قومی سلامتی اور امت کے اجتماعی مفاد کا واضح تصور جھلکتا ہے۔ انھوں نے جس دو ٹوک انداز میں دہشت گردی، افغان عوامل اور نام نہاد جہاد کے بیانیے کو للکارا، وہ پاکستان کی ریاستی پالیسی کی ترجمانی بھی کرتا ہے اور قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک سنجیدہ کوشش بھی۔

یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا داخلی چیلنج دہشت گردی کی وہ لہر ہے جو سرحد پار سے منظم ہو کر آتی ہے اور جس کے پیچھے نظریاتی گمراہی، بیرونی سرپرستی اور ریاست دشمن ایجنڈا کارفرما ہے۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر کا یہ انکشاف کہ پاکستان میں دراندازی کرنے والے ٹی ٹی پی جنگجوؤں میں ستر فیصد افغان ہوتے ہیں، ایک انتہائی سنگین اور تشویشناک حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ خون آلود کہانیاں ہیں جو معصوم پاکستانی بچوں، خواتین، علما، فوجیوں اور عام شہریوں کی قربانیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ سوال بجا طور پر اٹھایا گیا کہ کیا افغانستان کی سرزمین پاکستانی بچوں کے خون سے رنگین نہیں ہو رہی؟ اور اگر ہو رہی ہے تو اس کی اخلاقی، دینی اور سیاسی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں۔ ایک طرف تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے ہیں تو دوسری جانب قومی سلامتی کے ناقابلِ تردید تقاضے۔ فیلڈ مارشل کا یہ کہنا کہ افغان طالبان کو واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، دراصل ریاست پاکستان کی ایک بنیادی پالیسی کی یاد دہانی ہے۔ کوئی بھی خودمختار ریاست اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ اس کی سرزمین یا اس کے پڑوسی ملک کی سرزمین اس کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو۔ اگر افغان طالبان واقعی ایک ذمے دار ریاست کے طور پر عالمی برادری میں اپنا مقام چاہتے ہیں تو انھیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ فتنہ الخوارج کے ساتھ کھڑے ہیں یا ایک اسلامی، ہمسایہ اور برادر ملک پاکستان کے ساتھ۔

اس خطاب کا ایک نہایت اہم اور فکری پہلو وہ تھا جس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے جہاد کے تصور کو ریاست کے دائرہ اختیار سے جوڑا۔ ان کا یہ کہنا کہ کسی بھی اسلامی ریاست میں جہاد کا حکم یا فتویٰ ریاست کے علاوہ کوئی اور نہیں دے سکتا، نہ صرف آئینی اور قانونی حقیقت ہے بلکہ اسلامی تاریخ اور فقہ کا بھی ایک مسلمہ اصول ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند دہائیوں میں جہاد کے مقدس تصور کو مسخ کر کے ذاتی، گروہی اور بیرونی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ انتشار، خانہ جنگی اور بدنامی کا شکار ہوئی۔ پاکستان میں بھی یہی فتنہ مختلف ناموں اور تنظیموں کے تحت سامنے آیا جس نے دین کو ہتھیار اور معصوم جانوں کو نشانہ بنایا۔ اس تناظر میں علماء و مشائخ کی ذمے داری دوچند ہو جاتی ہے کہ وہ منبر و محراب سے حق بات کہیں، گمراہ کن بیانیوں کا رد کریں اور ریاست کے ساتھ کھڑے ہو کر دین کی صحیح تعبیر پیش کریں۔

آپریشن بنیان مرصوص کے دوران اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد کا ذکر محض ایک جذباتی بیان نہیں بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جب نیت صاف ہو، مقصد حق ہو اور قوم متحد ہو تو قدرتی نصرت شاملِ حال ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے جب بھی اخلاص، قربانی اور اتحاد کے ساتھ چیلنجز کا سامنا کیا، اللہ تعالیٰ نے غیر متوقع طریقوں سے مدد فرمائی۔ یہ مدد صرف میدانِ جنگ میں کامیابی کی صورت میں نہیں بلکہ قوم کے حوصلے، دشمن کی سازشوں کی ناکامی اور عالمی سطح پر سچ کے ابھرنے کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم اس نصرت کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی صفوں میں موجود فکری کمزوریوں، سیاسی انتشار اور اخلاقی زوال کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیں۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں علم و قلم کی اہمیت پر زور دے کر ایک نہایت بنیادی نکتے کی طرف توجہ دلائی۔ جدید دور میں جنگیں صرف بندوق اور بارود سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ بیانیے، علم، تحقیق اور فکری برتری بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں صرف ہتھیار نہیں اٹھاتیں بلکہ وہ ذہنوں پر حملہ کرتی ہیں، نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہیں اور دین و سیاست کے نام پر نفرت پھیلاتی ہیں۔ اس کے مقابلے کے لیے ریاست، تعلیمی اداروں، علماء، دانشوروں اور میڈیا کو مل کر ایک ایسا فکری محاذ قائم کرنا ہوگا جو سچ، اعتدال اور قومی مفاد پر مبنی ہو۔

پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز محض سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت قومی آزمائش ہیں۔ اندرونی طور پر سیاسی عدم استحکام، معاشی دباؤ اور سماجی تقسیم نے قومی یکجہتی کو کمزور کیا ہے۔ بیرونی طور پر علاقائی کشیدگیاں، عالمی طاقتوں کے مفادات اور پراکسی جنگوں کا خطرہ موجود ہے۔ ایسے میں قومی اتحاد اور فکری یکجہتی محض نعرے نہیں بلکہ بقا کی شرط ہیں۔ فیلڈ مارشل کا یہ پیغام کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے علم کی طاقت ناگزیر ہے، ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ترقی یافتہ اور محفوظ قومیں وہی ہوتی ہیں جو سوچ، تحقیق اور حکمت عملی میں مضبوط ہوں۔

خطاب کا ایک اور اہم پہلو وہ تھا جس میں پاکستان کو محافظینِ حرمین کے شرف سے جوڑا گیا۔ یہ ایک عظیم اعزاز ہے مگر اس کے ساتھ بھاری ذمے داری بھی وابستہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو نہ صرف اپنی سرحدوں بلکہ امتِ مسلمہ کے وسیع تر مفادات، مقدسات کے تحفظ اور اسلامی اقدار کی پاسداری کا بھی خیال رکھنا ہے۔ یہ کردار طاقت، حکمت اور اعتدال کا تقاضا کرتا ہے۔

افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی ہمیشہ امن، استحکام اور خیرسگالی پر مبنی رہی ہے۔ پاکستان نے مشکل ترین حالات میں بھی افغان عوام کی میزبانی کی، ان کے لیے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ اس کے باوجود اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو یہ دوستی اور بھائی چارے کے اصولوں کے منافی ہے۔ فیلڈ مارشل کا یہ واضح پیغام کہ افغانستان کو فتنہ الخوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، دراصل ایک آخری تنبیہ ہے کہ مزید ابہام یا دو عملی قابلِ قبول نہیں۔

قومی علماء و مشائخ کانفرنس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس میں تمام مکاتبِ فکر کی بھرپور شرکت تھی۔ یہ اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیت ہو تو فکری اختلافات کے باوجود قومی مفاد پر اتفاق ممکن ہے۔ علماء کا کردار محض عبادات تک محدود نہیں بلکہ وہ معاشرتی رہنمائی، فکری اصلاح اور قومی بیانیے کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کانفرنس کے ذریعے یہ پیغام جانا چاہیے کہ پاکستان میں دین دہشت گردی کے خلاف ہے، ریاست کے ساتھ ہے اور معصوم جانوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دیتا ہے۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا خطاب ایک جامع قومی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس میں سیکیورٹی، دین، سیاست اور علم کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ یہ خطاب ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک قوم کے طور پر اپنے چیلنجز کو سمجھ رہے ہیں؟ کیا ہم ذاتی، گروہی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہیں؟ کیا ہم دین کی اس تعبیر کو اپنانے کے لیے تیار ہیں جو امن، عدل اور ریاستی نظم و ضبط پر مبنی ہو؟ ان سوالات کے جواب ہی پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ اگر ہم نے اتحاد، فکری یکجہتی اور علم کی طاقت کو اپنا لیا تو کوئی دشمن، کوئی فتنہ اور کوئی سازش اس ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

مقبول خبریں