’صدر، افواج کےاعلی مناصب پر فائز افراد کو تاحیات استثنیٰ ان کے کردار پر دھبہ لگانےکے مترادف ہے‘

جے یو آئی نے تمام مکاتبِ فکر،دینی تنظیموں کے مشاورتی وعملی نمائندہ اجتماع کااعلامیہ جاری کردیا


ویب ڈیسک December 23, 2025

مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیرِ انتظام تمام مکاتبِ فکر اور دینی تنظیموں کے مشاورتی و عملی نمائندہ اجتماع کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیرِ انتظام تمام مکاتبِ فکر اور دینی تنظیموں کا مشاورتی و عملی نمائندہ اجتماع تمام مکاتب فکر کے علماء اور مختلف دینی جماعتوں اور تنظیموں کا یہ اجتماع مندرجہ ذیل امور پر مکمل اتفاق رائے رکھتا ہے: (1) آئین پاکستان دفعہ 277 کی روسے حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملکی قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق بنائے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہ بنائے۔ اس غرض کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی مکمل سفارشات تیار کی ہوئی ہیں۔

آئین کی رو سے ان کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے ان کے سلسلے میں قانون سازی حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن افسوس ہے کہ سالہا سال گذرنے کے باوجود اب تک انہیں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ نفاذ شریعت کو اولیت دے اور یہ سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کر کے ان کے مطابق قانون سازی کی جائے۔

(2) ملک میں اسلامی قوانین کے جاری اور غیر اسلامی قوانین کے خاتمے کے لیے مؤثر ترین ادارہ ” وفاقی شرعی عدالت “ اور سپریم کورٹ کی ”شریعت اپیلٹ بنچ ہے۔

آئین کی روسے وفاقی شرعی عدالت میں تین علماء موجود ہونے چاہییں ، لیکن عرصہ دراز سے یہ عدالت علماء سے خالی ہے، نیز شریعت اپیلنٹ بنچ میں بھی علماء کی موجودگی ایک سوالیہ نشان ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان عدالتوں کی طرف رجوع کی شرح بہت کم ہو گئی ہے۔ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ آئین کے مطابق علماء ججوں کا تقرر یقینی بنایا جائے۔

(3) آئین کی چھبیسویں ترمیم کا یہ ایک مستحسن فیصلہ تھا کہ ملک سے ربا (سود) کے مکمل خاتمے کیلئے ایک معین مدت مقرر کر دی گئی تھی جو 31 دسمبر 2027ء کو ختم ہو رہی ہے۔ اور یکم جنوری 2028ء سے سودی نظام کو مکمل ختم کر کے اسلامی مالیاتی اور بینکاری نظام کو نافذ کرنا تھا۔

اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک سے تمام بینکوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مذکورہ مدت میں اپنے تمام مالی معاملات کو سود سے پاک کر لیں۔ لیکن اس دوران اس مبارک عمل کو سبوتاژ کرنے اور رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

باوثوق ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وزارت قانون کی طرف سے ایک یادداشت تیار کی گئی ہے جس میں ان بینکوں کو اس حکم سے مستثنی کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جن میں غیر ملکی افراد کی حصہ داری ( شئیر ہولڈنگ ) ہے اور باوثوق ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بڑے بینکوں کی اکثریت کو استثناء دے بھی دیا گیا ہے۔

اس استثناء کی وجہ اس تحریر میں یہ بتائی گئی ہے کہ کچھ بین الاقوامی معاہدات کا یہی تقاضا ہے۔ ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کو برتری حاصل ہے اور جو کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں کام کرتی ہے، اسے پاکستان کے قانون کے تابع رہ کر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔

یہ ایک مسلم اصول ہے کہ بین الاقوامی معاہدات جب تک پارلیمنٹ کے ذریعے قانون نہ بن جائیں، انہیں دستور اور قانون پر بالاتری حاصل نہیں ہوتی۔

لہٰذا یہ عذر کسی طرح قابل قبول نہیں ہے اور یہ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی علیہ اسلام سے جنگ جاری رکھنے کے مرادف ہے۔ ان حالات میں یہ اجتماع متفقہ طور پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دستور میں سود ختم کرنے کی جو مدت مقرر کی گئی ہے اس پر لفظ و معنا مکمل طور سے عمل کیا جائے۔

(4) حال ہی میں دستور پاکستان میں ستائیسویں ترمیم انتہائی عجلت میں منظور کی گئی ہے۔ اس ترمیم میں متعدد امور عدلیہ کی آزادی پر قدغن کے حکم میں ہیں، لیکن ایک بات قرآن و سنت سے صراحتاً متصادم ہے اور وہ یہ کہ صدر مملکت اور افواج پاکستان کے بعض اعلی مناصب پر فائز افراد کو نہ صرف ان کی مدت کار میں بلکہ تاحیات ہر قسم کی فوجداری کارروائی سے مکمل استثناء دیا گیا ہے۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے کام چھوڑنے کے بعد بھی زندگی بھر وہ ہر قسم کے مجرم کی باز پرس سے آزاد رہیں گے۔ یہ استثناء قرآن کریم کے بالکل خلاف ہے جس نے یہ دو ٹوک ہدایت عطا فرمائی ہے کہ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ النساء - 135ترجمہ : اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو ، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔

شعار نبوت تو یہ ہے کہ رسول اللہ نے غزوہ بدر میں عین حالت جنگ میں خود اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے عہد میں اپنے آپ کو عدالت میں فریق ثانی کے ساتھ مساوی حیثیت میں پیش کر کے بلا امتیاز اور شفاف عدل کا نمونہ پیش کیا۔

ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ” بنیان مرصوص" کے معرکہ میں کامیابی پر افواج پاکستان مبارک باد کی مستحق ہیں لیکن ان کے اعلیٰ مناصب کو استثناء دینا ان کے مناصب جلیلہ کے شایانِ شان نہیں ہے بلکہ کردار پر دھبہ لگانے کے مرادف ہے۔

بفضلہ تعالی ہمارا آئین سن 1973ء سے تمام حلقوں کی طرف سے متفقہ چلا آرہا تھا، ستائیسویں ترمیم کی بناء پر آئین کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔

لہٰذا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ اس ترمیم کو منسوخ کیا جائے یا قومی مشاورت اور پارلیمنٹ کے اتفاق سے دستور پاکستان کی روح کے مطابق ڈھالا جائے، کیونکہ دستور کسی قوم وملت کا اجماعی میثاق ہوتا ہے۔

(5) جون 2025ء میں اسلام آباد دارالحکومت کے علاقے کے لیے ایکٹ نمبر 11 نافذ کیا گیا ہے، اس میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کے نکاح کرنے ، کرانے اور نکاح پڑھانے کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، اور اس کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ سن 2018ء میں نافذ ہوا تھا جسے وفاقی شرعی عدالت نے قرآن وسنت کے خلاف قرار دے دیا تھا، لیکن حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ میں اپیل دائر کر دی جو ابھی تک زیر التواء ہے، جس کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہے، اور قانون فی الحال جوں کا توں موجود ہے البتہ شنید ہے کہ پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی اس میں ترمیم پر غور کر رہتی ہے۔

یہ اجلاس واضح الفاظ میں یہ قرار دیتا ہے کہ تخلیقی طور پر جس شخص کی جنس مشتبہ ہو ، اسے اسلامی اصطلاح میں «خنشی“ کہا جاتا ہے اس کے لیے شریعت میں مفصل احکام موجود ہیں جن میں یہ بھی داخل ہے کہ اسے معاشرے میں باعزت شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کی بے عزتی سے پر ہیز کیا جائے۔ لیکن ٹرانس جینڈر“ کی اصطلاح جس معنی میں مغرب کی طرف سے گھڑی گئی ہے اس کا ”خنٹی“ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ٹرانس جینڈر کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے مذکر یا مؤنث ہونے کا فیصلہ اپنی حیاتیاتی یا تخلیقی بنیاد پر نہیں ، بلکہ خود اپنی پسند یا نا پسند کی بنیاد پر کر سکتا ہے ، یہ در حقیقت ہم جنس پرستی کو لائسنس دینے کے لیے ایک مخفی دروازہ ہے۔

مغرب نے انسان کی اصناف صرف مرد ، عورت اور خنثی کی حد تک محدود نہیں رکھیں، بلکہ انسانی کی بہت سی اصناف بنادی ہیں جنہیں LGBTO کہا جاتا ہے اور ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ، اسلامی معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

(7) یہ اجتماع اس بات پر یقین رکھتا ہے اور علماء کی طرف سے اس کا بار بار اعلان کیا گیا ہے کہ ملک میں حالات کی اصلاح اور شریعت کے نفاذ کے لیے صرف پر امن آئینی جد و جہد ہی واحد راستہ ہے اور اس غرض کے لیے مسلح جدوجہد نہ موجودہ حالات میں اسلام کا تقاضہ ہے نہ مصلحت شریعت کا ، اس وقت متعدد بیرونی طاقتیں ملک کو کمزور کرنے اور داخلی انتشار کے ذریعے اس کو تقسیم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔

ایسے حالات میں کوئی مسلح جد وجہد چاہے وہ اسلام کے نام پر ہو یا قومیت کے نام پر اس کا فائدہ صرف ملک دشمن عناصر ہی کو پہنچ سکتا ہے لہٰذا ہم ایک بار پھر ملک میں مسلح کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں ، البتہ حکومت سے بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان شورشوں کو ختم کرنے کے لیے جائز مطالبات پر عمل بھی کرے اور اس مسئلہ کو حکمت اور تدبر کے ذریعہ حل کرے۔

آج کا یہ تمام مکاتب فکر کا نمائندہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دینی مدارس و جامعات کے ساتھ کیے گئے میثاق اور اسکی بنیاد پر نافذ ہونے والے قانون پر لفظاً و معنی عمل کیا جائے اور اس میں نت نئی رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں۔

(10) یہ اجتماع بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی دل و جان سے نہ صرف حمایت کرتا ہے ، بلکہ اس بات کو ہر مسلمان کا فریضہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی استطاعت کی حد تک اس مقصد کے حصول کے لیے کسی کوشش سے دریغ نہ کرے، اگرچہ ظاہری سطح پر جنگ بندی کا اعلان ہو گیا ہے ، لیکن اسرائیل کی طرف سے بے گناہوں کو نشانہ بنانے اور ان کو امداد پہنچانے میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

ایسے حالات میں مسلمان ملکوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی افواج وہاں بھیج کر حماس کو غیر مسلحکریں، متعدد مسلمان حکومتیں اس سے انکار کر چکی ہیں اور اب پاکستان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔ یہ اجتماع پوری تاکید کے ساتھ حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے اپنی افواج کو بھیجنے سے گریز کرے اور اس سلسلے میں کسی دباؤ میں نہ آئے۔

الحمد للہ پاکستان کی افواج جذبہ جہاد سے آراستہ ہیں اور انہیں آزادی بیت المقدس یا آزادی فلسطین کی کسی مقدس جد و جہد کے خلاف کھڑا کرنے کا تصور بھی قوم کے لیے نا ممکن ہے۔ اس سازش سے ملک کو محفوظ بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے جس کا ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں۔

اعلامیہ: مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیرِ انتظام تمام مکاتبِ فکر اور دینی تنظیموں کا مشاورتی و عملی نمائندہ اجتماع

 

مقبول خبریں