کرسمس کا پیغام

کرسمس کو پرامن کرسمس بنائیں تاکہ پوری دنیا کو ایک پیغام مل سکے کہ امن کا دوسرا نام کرسمس ہے


جاوید نذیر December 25, 2025
کرسچن کمیونٹی کے لوگ اسٹیڈیم اور گرجا گھروں میں پناہ لینے پر مجبور (فوٹو: ٹوئٹر)

دنیا 2025 سال سے ہر کرسمس کے موقع پر یقیناً امن کا تجربہ کرتی ہے۔ دنیا میں جاری جنگ و جدل روک دی جاتی ہیں۔ پوری دنیا شادمانی کے عالم میں مسحور ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر مغرب کے ساتھ ساتھ مسلم ملکوں میں بھی کرسمس کو نہایت شاندار طریقے سے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں خورونوش اور ملبوسات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کردی جاتی ہے۔ جس سے فائدہ نہ صرف مسیحی بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے تمام انسان اٹھاتے ہیں، خواہ اُن کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقے اور مسلک سے ہو۔ کرسمس کے موقع پر اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرسمس صرف مسیحیوں کا ہی تہوار نہیں بلکہ اسے ایک عالمگیر ثقافتی تہوار کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، جس کی خوشی سے دنیا کا ہر انسان لطف اندوز اور شادمان ہوتا ہے۔

کرسمس کی تاریخ کو جاننے کے بعد علم ہوا کہ مسیحی پہلی اور دوسری صدی میں کرسمس نہیں مناتے تھے بلکہ ان دو صدیوں میں وہ المسیح کے مُردوں میں سے جی اٹھنے کی عید ’’ایسٹر‘‘ کو مناتے رہے۔ تیسری صدی میں مختلف کلیسیاؤں میں المسیح کی پیدائش کے حوالے سے بحث شروع ہوئی اور اس حوالے سے کچھ جگہوں پر دسمبر کے آخر میں ’’یادگاری عبادات‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا۔

336 عیسوی میں کرسمس کے حوالے سے سب سے پہلی گواہی روم کی کلیسیا نے دی کہ کلیسیائی کیلنڈر میں پہلی مرتبہ 25 دسمبر کو ’’المسیح کی پیدائش‘‘ کا سال قرار دیا گیا۔ یہی وہ سال ہے جس کو کرسمس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومی سلطنت میں مسیحیت پھیل گئی اور کرسمس کو پوری صدی میں ایک جشن کے طور پر منایا جانے لگا۔ پانچویں صدی میں رومی سلطنت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مسیحیوں کا مذہبی و ثقافتی تہوار بن گیا۔

المسیح کی پیدائش کے حوالے سے فرشتے نے جب مقدسہ مریم کو سلام پیش کیا اور المسیح کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو مقدسہ مریم نے خداوند کے منصوبے کے تسلیم کیا۔ پروفیسر مشتاق اسد نے اپنے ایک خطاب میں مقدسہ مریم کی فضیلت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ معلوم نہیں کہ غیر کیتھولک مقدسہ مریم کی تقدیس میں بخل سے کام کیوں لیتے ہیں، کیونکہ المسیح کی پیدائش کے بارے میں جو کچھ ہم گزشتہ دو ہزار پچیس سال سے سن رہے ہیں اُس کے بارے میں بتایا تو مقدسہ مریم نے تھا، اور جسے رسولوں نے اپنی انجیلوں میں بطور گواہی تحریر کیا۔ اس کے علاوہ پرانے عہد نامہ میں وہ تمام نوشتے بھی مقدسہ مریم کی فضیلت کے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔ مقدسہ مریم کی اسی گواہی کی وجہ سے ہی دنیا بھر میں کرسمس کو نہ صرف مانا جاتا ہے بلکہ پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

دلچسپ بات تو یہ کہ غیر مسیحی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے تو کرسمس کو من و عن تسلیم کرتے ہیں لیکن کیتھولک چرچ سے خائف کچھ کلیسیائیں کرسمس پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نام نہاد کلیسیائیں جب کرسمس مناتی ہیں تو اس کے بارے میں دنیا کو بالکل علم نہیں ہے، کیونکہ دنیا نے 25 دسمبر کو ’’المسیح کا جنم دن‘‘ تسلیم کرلیا ہے۔

موجودہ کرسمس کو امن کا کرسمس قرار دیا جارہا ہے کیونکہ امن کے بادشاہ کا اُس دن جنم ہوا تھا، جس کی وجہ سے دنیا کو ایک ایسے مذہب کے پیرو کار اور پرچارک بننے کا موقع ملا جو امن کی تعلیم دیتا ہے۔ جس کی راہ میں اپنوں بیگانوں نے روڑے اٹکائے لیکن اس کے باوجود مسیحیت دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ اس بات کو تمام کلیسیائیں مانتی ہیں کہ وہ سب عالمگیر کلیسیا (کیتھولک کلیسیا) سے ہی نکلی ہیں۔ نیرو بادشاپ،ہنری ہشتم، نپولین بونا پارٹ اور اس طرح کے کتنے ہی بادشاہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ عالمگیر کلیسیا کو ختم کردیں گے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عالمگیر کلیسیا (کیتھولک چرچ) تاحال پوری دنیا میں المسیح کے امن کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

عالمگیر کلیسیا نے امن کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے تعلیم کو عام کرنے کےلیے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں قائم کیں۔ ہم صرف اپنے ملک میں ہی دیکھیں تو 500 سے زیادہ سکول اور کالج تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھیں تو بولونیا، پیرس اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں کے سرپرست عالمگیر کلیسیا کے سرپرست ہی تھے۔ ان یونیورسٹیوں میں فلسفہ، الہیات اور سائنس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ آج کی تعلیمی روایات انہی اداروں کی بدولت ہی ہیں۔ اسی طرح اسپتال اور شفا خانے بھی راہبوں اور راہبات نے قائم کیے اور ان میں خدمت کرنا اپنا مشن بنالیا۔ ’’مقدسہ مدر ٹریسا‘‘ کو اُن کی اسی خدمت کی وجہ سے تاریخ میں اہمیت حاصل ہوچکی ہے اور جن کی خدمات کو پوری دنیا خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کی عظمت کو سلام پیش کرتی ہے۔

موجودہ کرسمس بھی یقیناً امن سے مشروط ہے اور اسی وجہ سے حال ہی میں ترکی کے دورہ پر عالمگیر کلیسیا کے موجودہ پوپ ’’لیو چودھویں‘‘ نے اپنے خطاب میں غزہ میں مکمل امن پر زور دیا ہے، یعنی ایسا امن جس میں کوئی بھید بھاؤ نہ ہو۔ گو کہ غزہ میں پچھلے کچھ سال سے وحشت اور بربریت کا جو کھیل کھیلا جا رہا تھا اُس کو روک تو دیا گیا ہے لیکن غزہ میں ابھی تک مکمل امن قائم نہیں ہوا۔ اس لیے غزہ کے باسی آنے والے کرسمس پر غزہ میں مکمل امن کے خواہاں ہیں۔ اس طرح یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی بھی اب خواب بن چکا ہے۔ اس لیے آنے والے کرسمس پر شنید ہے کہ کرسمس کو پوری دُنیا میں پرامن بنانے کےلیے جنگ بندی ضرور ہوگی۔

آنے والے کرسمس کو پرامن بنانے کےلیے ہمیں انفرادری طور پر بھی کوشش کرنی ہے۔ عالمی سطح پر تو دنیا میں جہاں بھی جنگیں اور بدامنی کے سائے لہرا رہے ہیں وہاں امن قائم کرنے کےلیے کوششیں کر رہی ہے لیکن دنیا بھر کے ہر انسان کو اپنے اندر بھی امن لانے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ تب ہی ہم نہ صرف اپنے خطے کو بلکہ دنیا کو بھی پُرامن بناسکتے ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں کرسمس کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو کرسمس کو پرامن کرسمس بنائیں تاکہ پوری دنیا کو ایک پیغام مل سکے کہ امن کا دوسرا نام کرسمس ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تحریر کردہ
جاوید نذیر
مصنف کی آراء اور قارئین کے تبصرے ضروری نہیں کہ ایکسپریس ٹریبیون کے خیالات اور پالیسیوں کی نمائندگی کریں۔

مقبول خبریں