جناب انجینئر حافظ نعیم الرحمن آج کل امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں ۔ جب وہ کراچی کے امیر جماعت تھے ، تب بھی سندھ /کراچی میں خاصے متحرک تھے ۔ منتخب ہو کرمرکزی امیرِ جماعت ہیں ، تب بھی اُن کے تحرک ، جانفشانی اور باخبری میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ بلکہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اُن کے تحرک میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے ۔
کراچی میں جب وہ امیرِ جماعتِ اسلامی تھے، ایم کیو ایم ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو ہر محاذ پر ٹف ٹائم دیا ۔ شائد اِسی لیے اُن کے چاہنے والے اُنہیں منتخب کرکے مرکز میں لائے ہیں ۔عوام کو جماعتِ اسلامی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے حافظ نعیم الرحمن صاحب کئی ’’لڑائیاں‘‘ لڑ رہے ہیں ۔ ریلیاں نکال رہے ہیں ۔
غزہ کے مظلوموں کے حق میں بڑے بڑے جلوسوں کا اہتمام کر رہے ہیں ۔کثیر الجہتی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں ۔ نوجوانوں کو اپنی جماعت کی جانب راغب کرنے کے لیے طالب علموں میں لیپ ٹاپ بھی تقسیم کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ مگر بات نہیں بن رہی، وہ نتائج بر آمد نہیں ہو رہے جن کی حافظ نعیم صاحب توقع کررہے ہیں ۔ مگر وہ دلبرداشتہ ہیں نہ اپنی جدوجہد سے مایوس ۔ اُن کی جماعت کے زیر نگرانی ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ بڑی محنت اور کمٹمنٹ سے پاکستان سمیت عالمِ اسلام میں کئی مظلوموں اور مستحقین کی مالی ، اخلاقی ، طبّی اور تعلیمی اعانت و امداد کررہی ہے ۔
موجودہ حکومت نے بجلی کے بِلوں کی بنیاد پر غریب عوام کی کمر توڑنے کے لیے جو کمر باندھ رکھی ہے، حافظ نعیم صاحب نے بلبلاتے عوام کی اعانت وریلیف کے لیے راولپنڈی میں کئی روزہ دھرنا بھی دیا۔ جھلستی اور حبس آلود دوپہروں اور شاموں کو برداشت کیا اور مہنگی ترین بجلی کے حوالے سے حکومت سے کچھ معمولی سے وعدے حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے۔لیکن سوال پھر وہی ہے : جماعتِ اسلامی پاکستانی عوام کے دلوں میں مقبولیت و محبوبیت کا وہ مقام حاصل کرنے میں کیوں ناکام و نامراد ہے جس کے لیے یہ آٹھ عشرہ قدیم جماعت مسلسل میدانِ جدوجہد میں ہے؟
بین الاقوامی حالات اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش سنگین حالات پر بھی حافظ نعیم الرحمن صاحب کی نظر رہتی ہے۔اِسی ’’نظر‘‘ کے تحت اُنھوں نے تازہ مطالبہ بھی کیا ہے ۔ چند یوم قبل بھارت کے شہر( پٹنہ) میں ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کے ساتھ صوبہ بہار کے بد اخلاق وزیر اعلیٰ، نتیش کمار، نے جو بہیمانہ سلوک کیا، حافظ نعیم صاحب کا مطالبہ اِسی واقعہ ( بلکہ سانحہ) کے پس منظر میں کیاگیا ہے ۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے :’’ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار، بھارت، ایک فسطائی ریاست بن چکا ہے۔
بھارت میں کسی غنڈے یا بدمعاش نے چوری چھپے نہیں بلکہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ، نتیش کمار، نے پوری دنیا کے سامنے ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کے چہرے سے نقاب اتارنے کی کوشش کی، جو انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت عمل ہے۔یہ واقعہ اسلام دشمنی، مسلم دشمنی اور ہندوتوا کی ذہنیت کا کھلا اظہار ہے۔ حکومتِ پاکستان نے تاحال اس مکروہ واقعے کی کھل کر مذمت نہیں کی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کم از کم بھارتی سفیر کو طلب کر کے اس واقعے پر احتجاج ریکارڈ کروائیں۔‘‘
حافظ نعیم الرحمن صاحب کا یہ مطالبہ بالکل بجااور بروقت ہے ۔ اخلاقیات اور انسانیت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ بھارتی صوبہ بہار کے بدقماش وزیر اعلیٰ، نتیش کمار، کے خلاف مسلمان ممالک ایسا ہی مطالبہ کرتے۔ سچ یہ ہے کہ نتیش کمار نے بھارتی خاتون مسلمان ڈاکٹر کے باحجاب چہرے کو زور زبردستی ننگا نہیں کیا بلکہ اپنے ، بی جے پی اور بھارتی حکومت کے بد اخلاق اور مسلم دشمن وحشیانہ چہرے کو بھی ننگا کر دیا ہے ۔ یہ خبر پوری دُنیا میں پڑھی، دیکھی اور سُنی گئی ہے ۔اِس واقعہ سے بھارت کی رہی سہی نیک نامی کو شدید بٹّہ اور دھچکا لگا ہے۔
بھارتی سماج وادی پارٹی کی مسلمان رہنما ( سامعہ رانا) نے لکھنو میں بہار کے وزیر اعلیٰ کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ کی صاحبزادی ( التجا مفتی) اور مقبوضہ کشمیر ہی کی اداکارہ ، زارہ وسیم ، نے بھی بدتمیزنتیش کمار کی سخت الفاظ میں گوشمالی کی ہے ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر ، عمر عبداللہ، نے کہا ہے:’’اگر کوئی بھارتی مسلمان کسی بھارتی ہندو عورت کا گھونگھٹ نوچ لیتا تو بھارتی ہندوؤں کا کیا ردِ عمل ہوتا؟۔‘‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بہاری وزیر اعلیٰ کی اِس دل آزار جسارت پر اِسے ’’عورت کی عزت پر سنگین حملہ‘‘ قرار دیا ہے ۔ بھارت کے مشہور ایکٹوسٹ، اکبر پٹیل، نے ایمنسٹی انٹر نیشنل کو چٹھی لکھ کر اِس واقعہ پر اپنا منفرد احتجاجج ریکارڈ کروایا ہے ۔
حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ جس بھارتی ریاست ( بہار) میں یہ سانحہ وقوع پذیر ہُوا ، وہاں بسنے والے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں اور اُن کی مسلم لیڈرشپ نے کھلے بندوں اِس پر کوئی احتجاج نہیں کیا ہے ۔ جماعتِ اسلامی ہند کے امیر، سید سعادت اللہ حسینی، نے بھی خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی تنظیم( آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین) نے بھی ممبئی میں چند مولویوں کا جلوس نکال کر مکمل خاموشی کی چادر اوڑھ لی ہے۔ بھارت کے معروف ترین مذہبی تعلیمی مرکز ، دیوبند، کے ممتاز اور مشہور علمائے کرام اور اساتذہ نے بھی نتیش کمار بارے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ دہلی کی شاہی مسجد کے امام و خطیب بھی اِس واقعہ پر خاموش ہیں ۔ یہ کالم لکھتے ہُوئے راقم نے بھارتی میڈیا کو کھنگالا ، تاکہ کوئی ایسی خبر مل جائے جو یہ بتاتی ہو کہ معروف بھارتی علمائے اسلام اور مسلمان لیڈروں نے نتیش کمار کی بد اخلاقی کی مذمت کی ہے ۔
مجھے مگر ایسی کوئی خبر دستیاب نہیں ہو سکی ۔ ایسے حالات میں جناب حافظ نعیم الرحمن کن لوگوں سے توقعات وابستہ کیے بیٹھے ہیں ؟ پہلے تو اِس واقعہ پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ بھی مہر بہ لب ہی تھی ، مگر 18دسمبر کو( جب کہ اِس واقعہ کو تین دن گزر چکے تھے)ہماری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، طاہر حسین اندرابی، نے بھی نتیش کمار کی بدتمیزی کی مذمت کر دی ہے ۔ شائد یہ امیرِ جماعتِ اسلامی کے احتجاج کا اثر ہے ۔اور اب ہماری پنجاب اسمبلی نے بھی نتیش کمار کی مذمت میں ایک قرارداد منظور کی ہے۔مسلمان ممالک سے بھارت کی مذمت کرنے کا مطالبہ ویسے حافظ نعیم صاحب کی معصومیت ہی کہی جا سکتی ہے۔
مسلمان ممالک تو بھارت میں آئے روز مساجد و مزارات کو شہید کرنے پر احتجاج نہیں کرتے۔ ایسے میں وہ بھارتی محترم مسلمان خاتون ڈاکٹر صاحبہ کی توہین کیے جانے پر اظہارِ احتجاج کیوں اور کیونکر کریں گے؟ بھارتی مسلمان خاتون کی توہین کیے جانے کے ٹھیک چار دن بعد بھارت اور ایک معروف و دولتمند مسلمان عرب ملک کے درمیان Mutual Visa Exemption Pactپر دستخط ہُوئے ہیں۔ اِس پیکٹ کے بعد اب بھارتی و مذکورہ عرب ملک کے اعلیٰ سرکاری عہدیدار ، صنعت کار اور بڑے بزنس مین فوری ویزہ حاصل کرکے بآسانی ایک دوسرے کے ملک کا سفر کر سکیں گے ۔ اِس سے پہلے یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ اگر کوئی مذکورہ مسلمان ملک ہمارے امیرِ جماعتِ اسلامی کا مطالبہ سُنتا اور مانتا تو یہ پیکٹ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
واقعہ یہ ہے کہ کسی عام مسلمان مرد یا عورت سے کوئی غیر مسلم حکمران یا غیر مسلم حکومت بد سلوکی کرتی ہے تو ہمارے مسلمان حکمرانوں یا مسلم حکومتوں کے نزدیک اِس کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہوتی ۔ یہ بات ہے تو دلخراش مگر حقیقت پر مبنی ہے ۔ امیرِ جماعتِ اسلامی، حافظ نعیم الرحمن صاحب، بھی اِس حقیقتِ ثابتہ سے آشنا اور واقف ہوں گے ۔ مگر وہ ہمت ہارنے کی بجائے اپنی سی کوششوں اور دستک دینے میں لگے ہُوئے ہیں۔
بھارتی مسلمان خاتون ڈاکٹر کو بے حجاب کرنے کا دلخراش واقعہ نیا نہیں ہے ۔ بی جے پی ، آر ایس ایس اور دیگر بھارتی بنیاد پرست ہندو جماعتیں اور تنظیمیں یکمشت اور یکجہت ہو کر بھارت بھر میں مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندیاں عائد کرنے اور کروانے میں مسلسل لگے ہُوئے ہیں ۔ 2022میں تو بھارتی ریاست، کرناٹک، میں بھارتی مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے باقاعدہ سرکاری سطح پر منع کر دیا گیا تھا ۔ بھارتی سپریم کورٹ میں جب بھارتی مسلمانوں نے حجاب کے خلاف ہندوتوا کی سازشوں اور کوششوں کے خلاف کیس کیا تو وہاں سے بھی مسلمانوں کو مایوسی ہی ہُوئی ۔