انسانی زندگی اور باہمی تعلقات میں ایک بنیادی سوال اسی نقطہ کے گرد گھومتا ہے کہ انسان حقیقی خوشی ، بہتر صحت اور پرتعیش زندگی کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ ایک اچھی زندگی کا خواب یا خواہش رکھنا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے اور ہر انسان ایک مختلف سوچ کی بنیاد پر اس حقیقی خوشی کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے ۔
یہ سوال بھی بنیادی نوعیت کا ہے کہ کیا صرف دولت ،کامیابی اور شہرت ہی انسان کو حقیقی خوشی فراہم کرتی ہے اور اس کے بغیر حقیقی خوشی کا تصور ممکن نہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے بنیادی سہولتیں اور ضروریات درکار ہوتی ہیں اور اس کے بغیر اچھی زندگی کا تصور بے معنی ہے۔لیکن کیا دولت ، شہرت اور طاقت کے پیچھے بھاگنا ہی انسان کا حق ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان معاملات میں اس طرح آگے بڑھے کہ اس کی زندگی سے جڑی خوشیاں اور بہتر صحت متاثر نہ ہو۔ایک سماجی تحقیق کے مطابق انسان کو دولت، شہرت،طاقت اور اقتدار کے کھیل میں اس حد تک آگے جانا چاہیے کہ وہ ان چیزوں کی بنیاد پر ایک اچھی، پرسکون، آسائش زندگی گزار سکے ۔اس کے مقابلے میں دولت ،طاقت ، شہرت کی ہوس یا سب کچھ زیادہ سے زیادہ لپیٹنے اور سمیٹنے کا جنون اور ہوس انسانی زندگی کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے ۔
اس وقت یہ مسئلہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ گلوبل دنیا اسی مسئلہ کے گرد گھوم رہی ہے اور جو دولت، شہرت اور اقتدار رکھتے ہیں ان کے سامنے بھی یہ ہی سوال موجود ہے کہ حقیقی خوشی کیا ہے اور کیسے ہم اسے حاصل کرسکیں گے۔آج کی جدید ترقی پر مبنی زندگی میں جہاں گلیمر کی دنیا ہے اور انسان سب کچھ حاصل کرنے کی جنگ میں مصروف ہے وہاں اس دوڑ میں انسان عملی طور پر تنہائی کا شکار بھی نظر آتا ہے ۔
ایک طرف امیر طبقات کی دنیا ہے تو دوسری طرف محرومی کا شکار دنیا اور ان کی غربت کا کھیل بھی نمایاں نظر آتا ہے۔یہ جو سیاسی ،سماجی اور معاشی یا طبقات کی بنیاد پر تفریق ہے اس نے بھی انسانی زندگی کو ایک مشین کی طرح بنا ڈالا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم خونی رشتوں کو بھی اسی فریم ورک میں دیکھنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں ۔اس عمل نے انسانی اور خونی رشتوںکے تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس عمل میں بھی ہم رشتوں اور خاندان کی بنیاد پر مختلف تفریق اور تعصب دیکھ رہے ہیں۔یہ سمجھنا کہ دولت اور طاقت کا کھیل آپ کو سب کچھ دے سکتا ہے تو یہ غلط مفروضہ ہے اور آپ کو اپنے ارد گرد ایسے لاتعداد لوگ دیکھنے کو ملیں گے جو مراعات یافتہ ہیں اور سب کچھ رکھتے ہیں لیکن حقیقی خوشی سے ان کی جیب اور ہاتھ خالی نظر آتے ہیں۔
کسی نے ایک خوب جملہ لکھا تھا کہ انسان کی زندگی میں اصل غربت مالی بنیادوں پر نہیں بلکہ رشتوں کی تلخیوں ،محرومیوں اور دوستوں کا ساتھ نہ ہونے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔آج کی دنیا میں وہی افراد زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں جو انسانی زندگی میں بہت زیادہ دولت کمانے کی بجائے محدود اور ضرورت کی آمدنی کے ساتھ اپنے رشتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کی بنیاد پر رہتے ہیں ۔کیونکہ دوسروں یا اپنے خونی رشتوں کے ساتھ مضبوط ، قابل اعتماد یا بھروسہ پر مبنی تعلقات، مشکل وقت میں انسانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی حقیقی روایات،ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں ساتھ دینے یا ان کے غموں میں ساتھ کھڑے ہونے،ایک دوسرے کو دلاسہ دینے یا ان کے آنسو پونچھنے، لالچ، حسد، بغض، تعصب اور نفرت سے خود کو دور رکھنے سمیت اپنے خدا پر پختہ یقین ہی خوشیاں لاتے ہیں ۔
وہ اسی سوچ کے عملی حامی ہوتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے تو ہمیں دوسروں اور اپنے خونی رشتوں کے ساتھ ان کو بانٹنا بھی ہے اور یہ بانٹنے کا عمل اس انداز سے ہونا چاہیے کہ دوسرے کو لگے کہ آپ اس پر احسان نہیں کررہے بلکہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ اس انداز میں ہی ہو کہ دوسروں کا بھرم یا سفید پوشی بھی قائم رہے۔اگر آپ اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ دوسروں کی اور بالخصوص خاندان میں موجود کمزور لوگوں پر خرچ کردیں تو اس سے آپ کے لیے خصوصی دعا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور آپ کا خدا بھی آپ سے راضی ہوگا جو یقیناً آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اگر آپ کے خونی ، خاندانی اور باہمی تعلقات لوگوں سے مضبوط ہیں اور لوگ آپ کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں تو یقینی طور پر آپ کی خوشی کا پہلو بھی نمایاں ہوگا اور آپ کی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ایک اور سماجی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ لمبی ،اچھی اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو انسانی رشتوں کی بہتری پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ خود بھی اسے قائم کرتے ہیں۔
یہ لوگ سماجی محفلوں کا حصہ ہوتے ہیں اور سماجی تعلقات کو بنانا اور نبھانا ان کو آتا ہے اور ان میں سے بیشتر لوگ تنہا رہنے کی بجائے دوستوں کی محفلیں یا بیٹھک سجا کر خود بھی انجوائے کرتے اور دوسروں کو بھی خوشی فراہم کرتے ہیں۔کیونکہ عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جولوگ بہت مالدار ہوتے ہیں یا شہرت اور طاقت رکھتے ہیں ان کے سماجی تعلقات میں حقیقت کم اور بناوٹ زیادہ ہوتی ہے یا وہ اس طرح سے آگے بڑھتے ہیں کہ خود نمائی ،نرگسیت اور ذاتی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں اور وہ اپنے سماجی تعلقات میں بہتری پیدا کرنے یا جدت پیدا کرنے کی بجائے تنہا ہوجاتے یا مختلف نوعیت کی بیماریوں اور دوائیوں تک محدود ہوجاتے ہیں۔انسان کا جسمانی سطح پر خوش رہنا اسے مجموعی طور پر ایک صحت مند انسان کے طور پر پیش کرتا ہے۔وہ دولت سمیٹنے سے زیادہ اپنی اچھی صحت اور سماجی تعلقات کی سطح پر بہتری پیدا کرنے پر توجہ دیتا ہے۔
میرے بڑے بھائی احمد ناصر مرحوم کی ایک اچھی عادت یہ تھی کہ وہ گھر اور خاندان کے سارے افراد کو تواتر کے ساتھ کھانوں پرخوشی سے مدعو کرتا تھا۔وہ کسی پر بوجھ ڈالنے کی بجائے سب کو کہتا تھا کہ دعوت میں ایک کھانے کی چیز سب نے لانی ہے اور سب مل کر کھانا کھائیں گے اور اسی طرح وہ اس کھانے میں سوسائٹی کے چوکیداروں کے لیے بھی علیحدہ سے کھانا تیار کرتا تھا۔ وہ سب بھانجوں، بھتیجیوں، بانجھیوں، بھتیجیوں کو بھی کہتا تھا کہ جب ہم نہیں ہونگے تو آپ نے اسی طرز کی محفلیں سجانی ہیں۔آج وہ دنیا میں نہیں لیکن اس کی قائم کردہ روایات کو باقی خاندان نے قائم رکھا ہوا ہے اور میرے بھائی کے گھر کھانے کے بعد جو اجتماعی دعا کا تصور ہے وہ واقعی شاندار ہے اور ہم سب بھی اپنے خاندان میں اس طرح کی روایت کو قائم کرسکتے ہیں۔ یہ جو آج کی جدید دنیا ہے جس میں ہم بہت زیادہ ڈیجیٹل ہوگئے ہیں۔
اس نے ہمیں انسانی تعلقات قائم کرنے اور اسے بہتر بنانے کی بجائے ایک مشینی دنیا میں جوڑ دیا ہے اور یہ عمل جہاں ہمیں زیادہ تنہا کرتا ہے وہیں ہم سب کو ایک بڑے ذہنی دباؤ کی طرف بھی دھکیل رہا ہے۔ہمیں اپنے انسانی معاملات اور تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا جو ہمیں دباؤ سے زیادہ حقیقی خوشی کی طرف لے کر جا سکے ۔اللہ تعالی بھی ایسے افراد یا لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی بنائی ہوئی مخلوق کو حقیقی طور پر خوشی فراہم کرتا ہے ۔کیونکہ جب آپ لوگوں کے بارے میں سوچتے یا ان کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں تو پھر ایک پیچھے موجود طاقت آپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور آپ کے لیے خوشیوں کا ماحول پیدا کرتی ہے ۔
ویسے بھی انسان جب انفرادی سطح سے اوپر اٹھ کر سوچتا، دیکھتا اور سمجھتا ہے یا عملی اقدامات اٹھاتا ہے وہ ہی ایک اعلی انسان بھی ہوتا ہے۔ محض مسئلہ دولت کا نہیں ہے اگر آپ بغیر دولت کے بھی اپنے خونی یا سماجی رشتوں کے ساتھ کھڑے رہیں تو یہ بھی ایک اعلی نیکی اور آپ کے خلوص کی ضمانت ہوتا ہے ۔انسان کو بڑی بڑی خوشیوں کی تلاش میں بھاگنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور مسکراہٹوں کے ساتھ جینا سیکھنا چاہیے۔
اسی طرح جہاں تک ممکن ہو اس کا تعلق بگڑے ہوئے رشتوں میں صلح اور دوستی کروانے کا ہونا چاہیے تاکہ لوگ آپ کو تعلقات بہتر بنانے کی کنجی سمجھے۔ اگرانسان دنیا کی نمائش کی طرف بھاگنے کی بجائے قناعت پسندی کے ساتھ اور اپنی چادر دیکھ کر آگے بڑھنے کی عادت بنا لے تو وہ اپنے لیے اور اپنے جڑے رشتوں کی سطح پر خود بھی مطمئن اور خوش رہ سکتا ہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھ سکتا ہے۔