افغانستان میں افغان طالبان کے زیرِ اقتدار نظام میں صحافیوں کو شدید جبر، تشدد، دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا ہے، جس کے باعث میڈیا کی آزادی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
مختلف رپورٹس کے مطابق طالبان حکومت میں آزادیِ اظہارِ رائے تقریباً ختم ہو چکی ہے اور صحافی خوف کے ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
افغان میڈیا واچ ڈاگ کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق رواں سال افغانستان میں میڈیا پر جبر اور صحافیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے کم از کم 205 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان واقعات میں صحافیوں پر تشدد، حراست میں لینا، دھمکیاں دینا اور میڈیا اداروں کو بند کرنا شامل ہے۔
افغانستان انٹرنیشنل کے مطابق طالبان کے دورِ حکومت میں میڈیا کی آزادی کو مکمل طور پر کچل دیا گیا ہے، جہاں سخت سنسرشپ اور صحافیوں کی ہراسانی معمول بن چکی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2025 کے دوران دو صحافی قتل جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔
اعداد و شمار کے مطابق صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیوں کے 160 واقعات اور 34 صحافیوں کو حراست میں لینے کے واقعات پیش آئے۔ رپورٹس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کے دعوؤں کے برعکس کم از کم پانچ افغان صحافی اب بھی جیلوں میں قید ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صحافت اور آزادیِ اظہار سے متعلق خلاف ورزیوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خواتین صحافیوں کو خاص طور پر شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ان پر عملی طور پر کام کرنے پر پابندی عائد ہے اور انہیں دھمکیوں، جبر اور صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
افغانستان میں کم از کم 20 ٹیلی وژن چینلز بند ہو چکے ہیں جبکہ باقی میڈیا ادارے بھی شدید دباؤ اور خطرات میں کام کر رہے ہیں۔ ماہرین اور میڈیا تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں میڈیا کی آزادی اور صحافت کا مستقبل سنگین خطرات سے دوچار ہے۔