QUETTA:
بھارتی نوجوان سائسدان نے ایک ایسا سینسر ایجاد کیا ہے جو سانسوں کو الفاظ میں بدل دے گا جس سے ان گونگے لوگوں میں امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے جو بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر پانی پت کے رہائشی 16 سال کے عرش شاہ دلباغی کی اس ایجاد کی بدولت ان کا نام گوگل گلوبل سائنس میلے میں شامل کر لیا گیا ہے بلکہ وہ ایشیا میں سے اس میلے کے فائنل میں منتخب ہونے والے واحد نوجوان ہیں، اس ڈیوائس کو شاہ نے '' ٹاک '' کا نام دیا ہے۔ شاہ کا کہنا تھا کہ اس ڈیوائس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کو جو بات کرنے کی صلاحیت سے بالکل ہی معذور ہیں کو ان کی سوچ اورخیالات کو الفاظ کا روپ دینے میں مدد کرے گی اور ڈیوائس ایسے کسی بھی شخص کی سانس کے سگنل کو مورس کوڈ کے ذریعے ایک سینسر کی مدد سے وصول کر کے الفاظ میں بدل دے گی۔
دنیا کی تیز اور سستی ترین آگمینٹیٹیو ایند الٹرنیٹو کمیونیکیشن (اے سی سی ) ڈیوائس بنانے کا دعویٰ کرنے والے شاہ کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو مٹر نیورو کی معذوری کا شکار ہیں ان کے لیے مارکیٹ میں موجود اس طرح کا آلہ خریدنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ اس آلے کی مارکیٹ میں قیمت 7 ہزار امریکی ڈالر ہے لیکن دلباغی کا کہنا ہے کہ اس کا ایجاد کردہ آلہ صرف 80 امریکی ڈالر میں مل سکے گا جس سے لوگوں کی بڑی تعداد فائدہ اٹھا سکے گی۔
ڈیوائس کی وضاحت کرتے ہوئے دلباغی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص دو مختلف قوت کی سانسیں خارج کرتا ہے ان سانسوں کو الیکٹریکل سگنلز میں تبدیل کرنے کے لیے مائیکروفون استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سگنل مائیکروپروسیسر کے ذریعے مزید پروسیس کے عمل سے گزارا جاتا ہے جسے مورس انجن کہا جاتا ہے جو ہلکا سانس نکالنے کو ڈاٹس اور لمبی سانس کوڈیشز سے ظاہر کرتا ہے۔ پھر ان سانسوں کو مورس کوڈ کے ذریعے وضاحت کی جاتی ہے جو ان سگنلز کو الفاظ میں تبدیل کردیتاہے یہاں سے یہ الفاظ ایک اور مائیکروپروسیسر کی طرف بھیج دیئے جاتے ہیں جو انہیں آواز میں بدل دیتا ہے۔ دلباغی کا کہنا ہے کہ '' ٹاک '' دو طریقے سے کام کرتا ہے ایک تو اس کی زبان انگلش ہے اور دوسرا عمر اور جنس کے لحاظ سے نو طرز کی آوازوں میں بات کرتا ہے جب کہ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس آلے کی مدد سے دماغی امراض کی تشخیص بھی کر سکتا ہے۔