پاکستان ایک نظر میں یہ تالے کب کھلیں گے

آبدیدہ آنکھوں سے بزرگ نے بتایا کہ اس دن انہوں نے قربانی دینے کی بجائے جنازے پڑھے تھے۔


آصف محمود October 28, 2014
آبدیدہ آنکھوں سے بزرگ نے بتایا کہ اس دن انہوں نے قربانی دینے کی بجائے جنازے پڑھے تھے۔ فوٹو فائل

KARACHI:

بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کی طرف سے ورکنگ باؤنڈری پرعید کے دن سے شروع ہونے والا بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ چند روز کے وقفے سے ابھی تک جاری ہے۔ بھارتی جارحیت کی وجہ سے اب تک ایک درجن کے قریب پاکستانی شہید اور کئی زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سے بیشتر سی ایم ایچ سیالکوٹ میں زیرعلاج ہیں۔ ساتھ بھارت کی اس بلااشتعال فائرنگ کا پنجاب رینجرز کی طرف سے منہ توڑجواب بھی دیا جارہا ہے۔


بھارتی جارحیت پرپاکستان کی سرکارکا کیا ردعمل ہے، یہ سب کے سامنے ہے۔ میں تو صرف ان بے بس لوگوں کی مشکلات اوردکھ دنیا کے سامنے لانا چاہتا ہوں جو ورکنگ باؤنڈری کے قریبی دیہات میں بستے ہیں۔ عید کے چند روزبعد پنجاب رینجرزکی دعوت پر ورکنگ باؤنڈری کے سرحدی دیہات چاروا اوردھمالہ کا دورہ کیا۔ دھمالہ گاؤں ورکنگ باونڈری سے صرف ڈیڑہ سے دوسو گزقریب ہے۔ اس گاؤں میں بھارتی فوج کی شیلنگ اورگولہ باری سے ناصرف درجنوں گھرتباہ ہوچکے ہیں بلکہ ایک ہی خاندان کی تین افرادجن میں ایک خاتون اوراس کے دو پوتے شامل ہیں شہید ہوگئے تھے۔ میں نے اس گھرکے درودیوارکو بھی دیکھا جہاں گولیوں اورمارٹرگولوں کے نشانات نمایاں ہیں۔ بھارتی گولہ اس گھرسے چند میٹردورگرا تھا لیکن مارٹرگولے کے ٹکڑے اس گھرکے میں موجود خاتون اوراس کے دو پوتوں کی جان لے گئے، اس گھرکواب تالے لگے ہیں مقامی لوگوں کے مطابق متاثرہ خاندان یہ گھرہمیشہ کےلئے چھوڑکرشہرچلا گیا ہے۔


دھمالہ گاؤں کی آبادی دو سے تین ہزارنفوس پرمشتمل ہے لیکن اب یہاں 90 فیصد گھروں کو تالے لگ چکے ہیں۔ لوگ رات کو محفوظ مقامات پرمنتقل ہوجاتے اوردن مین کام کاج کے لئے صرف چند افراد واپس آتے ہیں۔ گاؤں میں ایک ہو کا عالم ہے، ایسا لگتا ہے جیسے موت گلیوں میں ناچ رہی ہو۔ گاؤں کا کافی حصہ گھومنے کے بعد ہمیں ایک بزرگ لکڑیاں کاٹٹے نظرآئے، ہم سلام دعا کرکے ان کے پاس بیٹھ گئے اوران سے احوال پوچھنے لگے، انہوں نے بتایا کہ گاؤں والے نمازعید کی ادائیگی کی تیاریاں کررہے تھے کہ اچانک بھارت کی طرف سے فائرنگ اورگولہ باری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کئی لوگ شہید ہوئے اوربہت سے زخمی۔ آبدیدہ آنکھوں سے بزرگ نے بتایا کہ اس دن انہوں نے قربانی دینے کی بجائے جنازے پڑھے تھے۔


میں نے دیکھا کہ گاؤں کے اردگرد کھیتوں میں دھان کی فصل تیارہوچکی ہے اور کچھ تیارہونے والی ہے۔ چند کھیتوں میں چاول کی کٹی فصل پر بھی پڑی نظرآئی، اور بالآخر کافی تلاش کے بعد ایک شخص ملا جس نے بتایا کہ وہ اس ڈرسے تیارفصل نہیں کاٹ رہے کہ کہیں بھارت کی طرف سے فائرنگ نہ شروع ہوجائے ،ان کھتوں میں کھڑے ہوکردیکھیں تو سامنے بھارتی چیک پوسٹیں واضع دکھائی دیتی ہیں۔ ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ یہی فصل ان کی جمع پونجی ہے، وہ 6 ماہ تک اس کوتیارکرتے رہے اوراب جب فصل کاٹنے کا وقت آیا توبھارت نے فائرنگ شروع کردی، اب سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں، جن سے کھاد اوربیج ادھارلیا تھا ان کو ادائیگی کہاں سے کریں گے، گھرکا نظام کیسے چلے گا۔



فوٹو؛ آصف محمود


دھمالہ سے واپسی پرہم چاروا گاؤں میں رک گئے یہاں بھی کافی گھروں کو گولہ باری کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا، کئی گھروں کی چھتیں بھی اڑگئیں تھیں۔ گاؤں میں چلتے چلتے ہم گرلزہائی اسکول کے سامنے پہنچ گئے۔ میں نے سوچا دیکھوں توسہی کہ اسکول کی کیا حالت ہے اور بچے اس صورتحال بارے کیا کہتے ہیں۔ لیکن جب ہم دروازہ کھول کراسکول میں داخل ہوئے تو اسکول کی ویرانی نے ہماراستقبال کیا۔ چوکیدارنے بتایا کہ اسکول کا اسٹاف موجود ہے اور وہ اسٹاف روم میں بیٹھا کام کررہا ہے لیکن بچے اسکول نہیں آتے۔ دور دراز دیہات سے ٹیچرہر روزاس امید پراسکول آتے ہیں کہ شاید آج کوئی بچہ اسکول آیا ہوا ہو، لیکن ہرروز انہیں مایوس واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ اس اسکول میں 500 کے قریب بچیاں پڑھتی ہیں، یہ اسکول اس علاقے کا مرکزی اسکول ہیں ،بہت سے بچیاں قریبی دیہات سے کئی کلومیٹر پیدل یا تانگوں پریہاں پڑھنے بھی آتی تھیں۔ اسکول کی چھت پرکھڑے ہوکرجائزہ لیں تو پاکستانی اوربھارتی چیک پوسٹیں باآسانی نظرآتی ہیں۔



فوٹو؛ آصف محمود


اسکول کی ہیڈ مسٹریس نے بتایا کہ موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد اسکول کھلے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ ہمیں گولہ باری کی وجہ سے پھر اسکول بند کرنا پڑا ہے۔ ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے بلکہ زیادہ تربچے شہر یا ورکنگ باؤنڈری سے دور کے دیہات میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جاچکے ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ بچوں کا نصاب کیسے مکمل ہوگا؟ جن کا مالی نقصان ہوا ہے انہیں توحکومت معاوضہ دے دیں گی مگر جن کا پورا تعلیمی سال ضائع ہورہا ہے ان بچوں کا کیا ہوگا؟ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ورکنگ باؤنڈری سے ملحقہ دیہات میں 71 پرائمری ،مڈل اورہائی اسکول بند ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ان سے مزید معلومات لیتے رینجرزکا ایک جوان آگیا اورکہنے لگا کہ آپ کو میجرصاحب بلارہے ہیں، کافی دیرہوچکی ہے ہمیں واپس جانا ہے۔


واپسی پرچناب رینجرزکے ہیڈکوارٹرمیں سیکٹرکمانڈرنے ہمیں بھارتی جارحیت سے ہونیوالے نقصان اوررینجرزکی جوابی کارروائیوں پر بریفنگ دی، لیکن میرا ذہن ابھی تک ان بند اسکولوں اور گھروں میں اٹکا ہواتھا جن کو تالے لگے چکے ہیں اورمیں سوچ رہا تھا کہ نجانے یہ تالے کب کھلیں گے اور لوگ کب واپس لوٹ کراپنے گھروں کو آئیں گے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں