کب تک بیو قوف بنتے رہیں گے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 8 نومبر 2014

فرض کیجیے کہ ہم ووٹ دے چکے ہیں انتخابات ختم ہوگئے ہیں اور منتخب لوگ اسلام آباد پہنچ گئے تاکہ ہماری پارلیمنٹ کو زینت بخشیں، لیکن جب وہ یہ لوگ وہاں پہنچتے ہیں تو انھیں کئی ذہنی صدموں سے دوچار ہونا پڑتا ہے کیونکہ یہ اراکین اسمبلی اکثر و بیشتر اوسط قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ان میں سو چ و بچار اور فکر کی صلاحیت سرے سے مفقود ہوتی ہے۔

اب ہمارے نمایندوں کو ان مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو انھیں اب تک پیش نہیں آئے تھے، انھیں الیکشن میں کامیاب ہونے کے لیے اپنے حلقے، علاقے اور ضلع کے ارباب اقتدار سے وفاداری، اپنے اثرات اور خفیہ معاہدے کرسکنے کی صلاحیت کی ضرورت تھی، انھیں تقریریں کرنے، الزام لگانے اور دوسروں کے لگائے ہوئے الزامات کی تردید کرنے اور خودنمائی میں ماہر ہونے کی ضرورت تھی، اور انھیں چندہ مانگنے، طاقت وروں پر مہربانیاں کرنے اور ہر ایک سے عہد و پیمان کرنے میں مہارت کی ضرورت تھی، لیکن اب جو مسائل انھیں اسلام آباد میں درپیش ہیں، وہ اقتصادی مسائل ہیں، یہ مسائل این ایف سی ایوارڈ، پانی و بجلی کی کمی، رسل اور وسائل، جہازرانی، درآمدات و برآمدات، ہوابازی، مالیات اور قانون سازی کے مسائل اور ان کی تقسیم ہیں۔

ان مسائل کی تفاصیل صرف ماہرین ہی کو معلوم ہوتی ہیں اور اس شخص کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتی ہیں جس نے فقط ریشہ دوانیوں میں مہارت حاصل کی ہو۔ جوں جوں حکومت زیادہ پیچیدہ ہوتی جاتی ہے منتخب نمایندے کم سے کم اہم اور ماہرین زیادہ اہم ہوتے جاتے ہیں، بیورو کر یسی معاملات کو اپنے حساب و کتاب سے آگے بڑھنا شروع کر دیتی ہے، پھر حالات کا رخ تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

نمایندہ حکومت اپنی ساکھ تیزی سے کھونا شروع کردیتی ہے۔ کیونکہ اس نے اہم عہدوں پر ذہین آدمیوں کو متعین کرنے کی کوئی راہ نہیں اپنائی تھی اور احمق لوگ اہم عہدوں کے گھوڑے پر سواری کررہے تھے اور پھر ہمارے نمایندے پریشان ہوکر، گھبرا کر، چکرا کر وہی سب کچھ کرنا شروع کردیتے ہیں جو ہم پچھلے 67 سال سے دیکھتے آرہے ہیں اور انتخابات سے پہلے ملک وقوم کے غم میں نڈھال ہونے والے اپنے غم میں نڈھال ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

ہم سب لاجواب واقع ہوئے ہیں، اگر ہمارے علاقے یا محلے میں کوئی شخص ایم بی بی ایس کیے بغیر اور اس میں مہارت حاصل کیے بغیر کلینک کھول کر بیٹھ جائے تو ہم فوراً چیخ وپکار کرنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ہم ماہر ڈاکٹر کو بلاتے ہیں یا اس کے پاس جاتے ہیں جس کی عملی سند اس بات کی ضامن ہوکہ اس نے خاص طور پر اپنے پروفیشن میں محنت کی ہے اور وہ مناسب عملی اور فنی استعداد رکھتا ہے، ہم یہ نہیں کرتے کہ اپنے تیمارداروں سے کہیں کہ ایسا ڈاکٹر بلواؤ جو حسین ترین ہو یا جس کا خطبہ فصاحت و بلاغت کا نقطہ عروج ہو۔ غور فرمائیے جب پوری ریاست مریض ہو تو کیا ایسے ڈاکٹروں کی خدمات نہیں حاصل کرنی چاہیے جو سب سے دانا اور عقلمند ہو۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ سیاسی مسائل کی تہہ میں فطرت انسانی کارفرما ہے، سیاست سے آگاہی کے ساتھ ساتھ نفسیات پر بھی مطالعہ ہونا پڑتا ہے کیونکہ ریاستیں دراصل ان خصائل سے بنتی ہیں جو حکمرانوں اور لوگوں کی فطرت میں موجود ہوتے ہیں، ریاست کی نوعیت شہریوں کی طبیعت اور فطرت کے مطابق ہوتی ہے اسی لیے جب تک انسان بہتر نہ ہوں ریاستیں بہتر نہیں ہوسکتیں جب تک یہ انقلاب پیدا نہ ہو معمولی تغیرات سے کسی بنیادی بات میں کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ لوگ بھی کیسے دلچسپ ہوتے ہیں، اپنا علاج خود کرتے رہتے ہیں، اپنا مرض خود بڑھاتے اور پیچیدہ بناتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی ٹوٹکے سے ان کا مرض رفع ہوجائیگا۔ اس طرح اچھے تو کیا ہونگے، بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

قانون سازوں کی طرف دیکھیے، کیا تماشا ہے۔ یہ لوگ قانون بناتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان اصلاحوں سے وہ انسان کی بددیانتی اور بدمعاشی کا خاتمہ کردیں گے۔ ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ ہائیڈرا کا سر کاٹ رہے ہیں۔ جس طرح خواہشات کو علم کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عوام کو دانشوروں کی رہبری کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تاجر ثروت کے پروں پر اڑتا ہوا فرمانروا ہوجاتا ہے تو ریاست تباہ ہوجاتی ہے، اسی طرح غیر سیاسی آمریت قائم ہوجائے تو بھی ریاست تباہ ہوجاتی ہے اور جب جاگیرداری ذہنیت کا غلبہ ریاست پر حاوی ہوجائے تو بھی ایسی ریاست کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔

کیونکہ یہ لوگ جب سرکاری عہدوں پر فائز ہوجائیں تو ان کی ناتجربہ کاری کے باعث تدبر پر سیاست کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ یاد رہے تدبر ایک سائنس ہے، ایک آرٹ ہے، اس کے لیے بھی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بات کی بھی کہ انسان نے تدبر کو اپنا نصب العین بنایا ہوا ہے۔ اس لیے دانش اور سیاسی قیادت ایک ہی شخص میں جمع نہیں ہوں گی، عوام کی حالت خراب رہے گی اور نسل انسانی کی بھی۔ جیسے لوگ ہوں گے ویسا ہی سماج ہوگا اور ویسا ہی عمل ہوگا۔ انسان واحد معاشرتی جانور ہے جس پر اپنے اردگرد کے ماحول کا فوری اثر ہوتا ہے، آپ اور میں بھی ان ہی انسانوں میں شامل ہیں۔

ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں‘‘۔ کیا ہم سوچتے ہیں، کیا ہم فکر کرتے ہیں اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے ملک و قوم کے لیے؟ آپ ہی وہ واحد فرد ہیں جو تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ بنانی ہے۔ معاشرے کے تباہ شدہ نظام کی بحالی کے لیے جدوجہد عظیم ترین جہاد ہے، ہم اب اتائیوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارے امراض کی کھوج کریں یا ہماری زندگی کو اور خطرے میں ڈالیں۔ تمام جمہوری ممالک آج بھی اپنے سیاستدانوں کو تربیت دینے اور منصفوں میں انصاف پسندی پیدا کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ کوئی چیز ناممکن نہیں، ہم صرف یہ سوچنے کے عادی ہوگئے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔

جمہوریت کے لیے کیا یہ بات لازمی نہیں ہونی چاہیے کہ سیاسی عہدوں کا متمنی اہل، عقل و دانش رکھنے والا اور تجربہ کار ہو، اس کے لیے خاص تعلیم کی پابندی اور حکومت کی پیچیدگیوں سے آگاہی اور ان کے حل سے واقفیت ہونا لازمی ہے۔ تعلیم و تربیت کے بعد سیاستدانوں کے انداز فکر میں تبدیلی پیدا ہو گی۔ ہمارے ملک میں صرف جمہوریت ہی ناکام نہیں رہی بلکہ ہم خود بھی ناکام رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے طاقت حاصل کرنے کے بعد شعور اور آگہی کو پختہ کرنے کی طرف سے غفلت برتی۔

ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ اکثریت طاقت کا راز ہے حالانکہ ہمیں زندگی کی ایک پست سطح کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ہم اپنے چنے ہوئے لوگوں سے کسی قسم کی عظمت، دانش مندی اور دور اندیشی کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم صرف یہ چاہتے ہیں وہ اچھے مقرر ہوں اور ہمیں فاقوں نہ مرنے دیں۔ ممکن ہے کہ لنکن کا یہ قول صحیح ہو کہ آپ لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بناسکتے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ آپ ان میں سے اکثر کو بے وقوف بنا کر ملک پر حکومت کرسکتے ہیں۔ اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کب تک بیوقوف بنتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔