(پاکستان ایک نظر میں) - بڑی مہربانی ہوگی

سدرہ ایاز  منگل 2 دسمبر 2014
اس نمائش کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات اور حکومتی رویئے پر سخت افسوس ہے۔

اس نمائش کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات اور حکومتی رویئے پر سخت افسوس ہے۔

ہمیں اس روٹ سے نہیں آنا چاہئے تھا، میری دوست نے اپنی کلائی میرے آگے کردی، 9 بج گئے؟ میں تقریباَ چینخ اٹھی۔

جی ہاں میڈم 9 بج رہے ہیں اب آرام سے بیٹھی رہو اس ٹریفک میں، میرے خیال میں 11 تو بج ہی جائیں گے۔ ہفتے کے پہلے دن ہی یہ ہونا تھا، لیٹ بھی لگ گئی اوپر سے بلاوجہ کی ڈانٹ بھی کھانی پڑے گی، اس سے تو بہتر تھا کہ آج میں چھٹی ہی کر لیتی۔

 فریا کی نظر اب ٹریفک میں پھنسی لمبی گاڑوں کی قطاروں اور لوگوں کے پریشان حال چہروں پر تھی۔ خود اس کی چہرے سے جھلکتی پریشانی مجھے صاف نظر آرہی تھی، لیکن اس کا کہنا صحیح تھا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟

میں اور فریا بہترین دوست ہونے کے ساتھ ساتھ آفس کولیگز بھی ہیں۔ ہم روز ہی آفس اکھٹے آتے جاتے۔ کراچی جیسے شہر میں آئے روز ٹریفک کے مسائل کسی بھی فرد کے لئے نئی بات نہیں ہے۔ ہاں مگر آج شہر کا کوئی مخصوص حصہ نہیں بلکہ پورے شہر کا نظام ہی ٹریفک کی وجہ سے درہم برہم ہوگیا تھا، وجہ تھی  شہر کی بیچ و بیچ ایکسپو سنٹر میں کامیابی سے جاری دفاعی ہتھیاروں کی نمائش ’’ آئیڈیاز 2014 ‘‘۔ یہ نمائش جہاں ایک طرف دنیا میں دفاعی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم پاکستان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ایک اچھا تاثر پھیلانے کا باعث ہے وہیں دوسری طرف سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر مقامی انتظامیہ شہر کی اہم سڑکوں پر ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کا منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوگیا ہے۔

بے شک دفاعی ہتھیاروں کی نمائش ایک ایسے وقت منعقد ہوئی جب پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے، ساتھ ہی عسکریت پسند معصوم لوگوں سمیت حساس تنصیبات اور اہم مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں، لیکن اس نمائش کے ذریعے پاکستان کی ہتھیار سازی کی صلاحیت کو دنیا میں فروغ ملے گا اور پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور اہم منصوبوں میں پیش رفت ہوگی۔ اس موقع پر وزیراعظم کا بھی کہنا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود ہمارے ماہرین نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، جو واقعی قابل تعریف ہے۔ غرض یہ کہ دفاعی ہتھیاروں کی نمائش کی جنتی خوبیاں بیان کی جائیں اور جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن اس نمائش کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات اور حکومتی رویئے پر مجھے سخت افسوس ہے۔

میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ نمائش کے بارے میں شہریوں کو پہلے سے آگاہی نہیں تھی، البتہ کچھ لوگ اس نمائش سے مکمل طور پر ہی لاعلم تھے، یہاں تک کہ جب میں نے اور فریا نے آفس تاخیر سے پہنچنے کی وجہ نمائش اور بدترین ٹریفک جام بتایا تو ہماری ایک کولیگ کہنے لگی ’’ آئیڈیاز کون سی؟ وہ گل احمد والوں کی؟ اُس کے لئے سارے راستے بند ہیں؟‘‘ ۔ ہمیں اس کی بات سن کر ہنسی آگئی اور پھر بہت سارے لوگوں سے میں نے اسی قسم کے سوال و جواب سنے، جس سے مجھے لوگوں کی لاعلمی کا اندازہ ہوا۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مقامی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس ٹریفک کا رخ تبدیل کرنے کی اپنی مکمل اور جامع حکمت عملی تیار کرکے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر متبادل راستوں کی خبر نشر کراتے تاکہ لوگ ٹریفک جام کی پریشانیوں سے بچ سکتے۔ یہاں بات صرف آفس لیٹ پہچنے کی پریشانی کی نہیں ہے، مجھے یاد ہے کچھ ماہ قبل جب بلاول بھٹو زرداری نے لیاری کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے بھی وی آئی پی کلچر کی روایت کو فروغ دیتے ہوئے آس پاس کے تمام متعلقہ راستے بند کروا دیئے تھے۔ میرے ایک جاننے والے کے والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا لیکن بلاول کی پروٹو کول میں بند راستوں کی وجہ سے وہ بروقت اسپتال نہ پہنچ سکے جس کے نتیجے میں وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کا بیٹا سیکیورٹی افسران کی منت سماجت کرتا رہا کہ خدا کے واسطے راستہ کھول دیجئے میرے والد کی زندگی کا سوال ہے، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اگر وہ بروقت اسپتال پہنچ جاتے تو شاید آج ہمارے درمیان موجود ہوتے۔ یہاں کس کو قصوروار ٹھہرایا جائے؟

میرے سامنے کل ایک ایمولینس سائرن بجاتی اور اعلان کرتے ہوئے متبادل راستہ ڈھونڈ رہی تھی۔ اب اللہ جانے اس میں موجود مریض کس حالت میں اور کہاں ہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کا سانپ نجانے اور مزید کتنی زندگیاں نگلے گا۔ کل بھی نجانے ٹریفک کی وجہ سے کتنے مریض اسپتال نہ پہنچ سکے ہونگے، جلدی کے چکر میں نجانے کتنے حادثات ہوئے ہونگے، بلکہ دو حادثے تو میں نے خود صبح دیکھے ہیں۔

کسی بھی قسم کی نمائش کا انعقاد غلط نہیں لیکن اس طرح کی ہائی پروفائل نمائشوں کو آبادی سے فاصلے پر منعقد کیا جانا چاہئے تاکہ شہری اور حکام دونوں پریشانی سے بچیں۔ بلکہ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ سپر ہائی وے یا ائیرپورٹ کے قریب نمائش کا انعقاد کیا جاتا۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ائیڈیاز کا انعقاد کرنے والوں کو جب شہر کے ٹریفک کا ہی آئیڈیا نہیں تو وہ معیاری اسلحہ اور بارود کیسے بنا سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی باتوں سے کچھ اتفاق اور کچھ سے اختلاف بھی ہے۔

بہرحال ان تمام باتوں کے بعد میری انتظامیہ اور حکومت سے صرف یہ گزارش ہے کہ وہ نمائشوں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانیوں پر بھی ایک نظر ڈال دیں تو ان کی بڑی مہربانی ہوگی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔