لاشوں کی سیڑھیاں لگا کر جنت تک پہنچنے والوں کو کب نکیل ڈالی جائے گی؟

روخان یوسف زئی / نوید جان  بدھ 17 دسمبر 2014
یقین نہیں آرہا کہ ان قاتلوں کے سینوں میں دل جیسی نرم چیز بھی دھڑکتی ہوگی۔. فوٹو: اے ایف پی

یقین نہیں آرہا کہ ان قاتلوں کے سینوں میں دل جیسی نرم چیز بھی دھڑکتی ہوگی۔. فوٹو: اے ایف پی

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کُھلنے لگے مقتل بھرے بازارکے بیچ

آج اگر اس شعر کے خالق محسن نقوی زندہ ہوتے اور پشاورکے علاقے ورسک روڈ پرواقع اسکول میں پیش آنے والے پھول جیسے معصوم بچوں کی درس گاہ کو مقتل بنانے والے انسان دشمن عناصر کی اس کارروائی کو دیکھتے تو شاید ان کے جذبات اور احساسات ان کو اور بھی بہت کچھ کہنے پر مجبور کر دیتے۔ یقین نہیں آرہا کہ ان قاتلوں کے سینوں میں دل جیسی نرم چیز بھی دھڑکتی ہوگی۔

آج ہمیں جس قاتل سے پالا پڑا ہے اس کو قتل چھپانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں اور وہ خود بھی صرف تب تک چھپتا ہے جب تک موت کی دہلیز پر آخری قدم نہ رکھ دے اور شکار کے ساتھ ساتھ خود بھی شکار ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھی کچھ اس طریقے سے اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو، دہشت گردوں نے عرصۂ دراز سے انسانیت کو تماشا بنانے کا جو گھناؤنا اورکریہ عمل شروع کر رکھا ہے۔

اس کے اثرات تو وطن عزیز کے دوسرے شہروں میں بھی دکھائی دے رہے ہیں لیکن پشاور کی حالت کچھ ایسی بن چکی ہے کہ یہاں کے باسی ایمبولینس یا پولیس کی گاڑی کے سائرن کی آواز سنتے ہیں تو ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور ابھی چہ می گوئیوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے، موبائل فونوں پر میسیجز کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر بعد نیٹ ورکس تک جام ہونے لگتے ہیں اور پھر لوگ ٹی وی چینلز کی طرف لپکتے ہیں۔

جہاں افراتفری کے وہ مناظر یکے بعد دیگرے آنکھوں میں کرچیاں بھرتے جاتے ہیں، جن کو پشوری اتنی مرتبہ دیکھ چکے ہیں کہ اصولی طور پر تو اب تک ان کو ان کا ’’عادی‘‘ ہو جانا چاہیے لیکن کیا کیا جائے کہ یہ گوشت پوست کے انسان ہیں اور ان کے سینوں میں بھی وہی دل دھڑکتا ہے، جس میں نرم جذبات کا خانہ کچھ زیادہ ہی بڑا ہے البتہ شدت پسندوں کے سینوں میں کس قسم کا دل ہوتا ہے، جو صرف نفرت کا ہی مسکن بنا رہتا ہے کہ

پتھروں سے جڑے ہوئے شیشے
پتھروں سے بھی سخت ہوتے ہیں

اہل پشاور کے حوصلے اس کے باوجود پہاڑ کی طرح بلند ہیں حال آں کہ ان کی پوری ایک نسل لاشیں اٹھا اٹھا کر جوان ہوئی ہے۔ 80 کی دہائی میں یہاں جتنے ماتم برپا ہوئے، اب صورت حال اس سے بھی آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ روز پشاور ایک بارپھر ایک ایسی قیامت سے گزرا جس کی پوری دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی کا واقعہ قلم اور کتاب سے محبت کرنے والے معصوم اور نہتے بچوں کے ساتھ پیش آیا،جس میں دہشت گردوں نے بربریت اور حیوانیت کا وہ مظاہرہ کیا جس کے مناظر دیکھ کرکوئی بھی ذی روح انسان روئے بغیرنہیں رہ سکا۔

پشاور کے معروف ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول اینڈکالج پرچھے مسلح دہشت گردوں نے حملہ کیا اور پھول جیسے معصوم بچوں کوخون میں نہلا دیا، وہ تڑپ تڑپ کرمررہے تھے ان کی آہ وبکا، چیخ پکار نے بھی ان کے دلوں پرکچھ اثر نہ کیا۔ کاش کوئی ان انسان دشمنوں کو سمجھائے کہ ابھی تک ایسی کوئی جنت ہی نہیں بنی جہاں لاشوں کی سیڑھی بنا کر پہنچا جا سکے، مرنے والا اور مارنے والا کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ یہ سب کیا ہے؟ انسانیت کہاں رہ گئی۔ ہمیں کس قسم کے بے رحم دور سے پالا پڑ گیا ہے۔ کیا ایسے میں انسان ہونا باعث شرم نہیں رہ گیا؟

یہ وہ خیالات ہیں جو کسی بھی جان سوز واقعہ کے بعد کسی فلم کی طرح ذہن میں چلنا شروع ہو جاتے ہیں اور اشرف المخلوقات کی وہ سند مشکوک دکھائی دینے لگتی ہے، جس پر ہم بہت فخر کرتے ہیں اور گذشتہ روز ایسی ہی کیفیت رہی کیوں کہ معصوم اور نہتے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ہمارا دین اسلام کسی کافر کے بچے کوبھی مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس سے پتا چلتاہے کہ ان دہشت گردوں کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی دین وایمان۔

دنیا کے کسی بھی مذہب کے ماننے والے اس قسم کی بربریت اور حیوانیت کا سوچ بھی نہیں سکتے، ابھی بہت سے معصوم  زخمی بچوں کی سانسیں اٹک رہی تھیں، کچھ درد سے کراہ رہے تھے، کچھ بے سُدھ پڑے تھے، ان کے لواحقین ہوش میں آنے کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے، ٹی وی اسکرینیں آنسو بہاتی دکھائی دے رہی تھیں کہ اچانک اس پر ٹکر چلنے لگا کہ ’’کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے‘‘ اور وہ بھی کچھ ایسے جیسے یہ کوئی بہت بڑا کریڈٹ ہو  اس انسان سوز واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان محمدعمرخراسانی نے بڑے فخریہ انداز میں کہا کہ ہمارے چھے حملہ آور اسکول میں داخل ہوئے ہیں۔ وہ کہتا تھا ’’یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضرب عضب اور خیبرایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کا ردعمل ہے، کیوں کہ مذکورہ آپریشنوں میں ہمارے پانچ سو ساتھی مارے جاچکے ہیں‘‘۔

صوبائی دارالحکومت پشاور کینٹ کے انتہائی حساس علاقہ ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج پر خود کار ہتھ یاروں سے لیس چھے دہشت گردوں نے حملہ کیا، حملہ میں طالب علموں،خاتون اور مرد اساتذہ سمیت 132سے زیادہ شہیدجب کہ 150سے زیادہ زخمی ہوگئے، جن میں زیادہ ترزخمیوںکی حالت انتہائی نازک بتائی جارہی ہے۔ اسکول پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں نے خود کش جیکٹیںبھی پہن رکھی تھیں۔ حملہ کے وقت اسکول میں آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے طالب علموں کو ہال میں فرسٹ ایڈکی تربیت دی جارہی تھی۔

عسکریت پسندوں نے ہال پر قبضہ کرکے طلبا پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ اس دوران سیکورٹی فورسزکی جوابی کارروائی میں دو دہشت گردمارے گئے جب کہ ایک حملہ آور نے کلاس روم میں خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔ سکیورٹی فورسز نے دیگر دہشت گردوں کے خلاف اسکول میںآپریشن شروع کردیا اور کئی گھنٹوں پر محیط آپریشن میں 6 دہشت گردوں کواپنے انجام تک پہنچایا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی امدادی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں جب کہ انتظامیہ نے شہر بھر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی۔

دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی بچوں کے والدین اسکول پہنچ گئے، جہاں وہ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور اپنے بچوں کو پکارتے رہے، یہ دل خراش اور انسانیت پر سے اعتماد اٹھا دینے والا سانحہ، منگل کی صبح 10بج کر 20 منٹ پرورسک روڈ پر واقعہ آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج میں پیش آیا، دہشت گردوں نے اسکول میں داخل ہوتے ہی اپنی گاڑی کوآگ لگادی، جس کی زد پر ایک خاتون ٹیچر بھی جھلس کرشہید ہوئیں۔

اسکول کی سکیورٹی پر مامور پاک آرمی کے جوان ندیم کو فائرنگ کرکے شہید کردیا، جس کے بعد عسکریت پسند فائرنگ کرتے ہوئے آڈیٹوریم میں داخل ہوگئے جہاں انہوں نے طالب علموں کو یرغمال بناکر ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجہ میں ہال میں موجود طالب علموں میں کچھ جاں بحق اور کچھ زخمی ہوگئے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پشاور پولیس کے اعلیٰ حکام اور سکیورٹی فورسزکی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی، جنہوں نے اسکول اور علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔

ورسک روڈ، گورا قبرستان اور خیبر روڈ کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔آپریشن میں آرمی کمانڈوز اور پولیس کمانڈوز نے بھی حصہ لیا واقعہ کی اطلاع ملتے ہی شہر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی جب کہ امدادی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی، جہاں دہشت گردوں کی موجودگی کے باعث امدادی سرگرمیوں میں انتہائی مشکلات کا سامان کرنا پڑا اس دوران ریسکیو کا ایک اہل کار بھی زخمی ہوا۔

فائرنگ اور دھماکوں میں شہیدہونے والوں میں 132بچے  5 خاتون ٹیچرز، ایک مرد استاد، ایک آرمی اہل کار اور تین چوکی دار شامل ہیں جب کہ زخمی ہونے والوں میں 100بچے، 2خاتون ٹیچرز، ایک آرمی اہل کار، ایک پولیس اہل کار اور ایک ریسکیو اہلکار زخمی ہیں. دہشت گردوں کے حملے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے تمام بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔ دوسری جانب سیکورٹی اداروںنے دہشت گردوں کی تعداد 7بتائی ہے۔

ماں مجھے بھی صورتِ موسیٰ بہادے نہر میں
قتلِ طفلاں کی منادی ہوچکی ہے شہر میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔