خیالی پلاو پہلی ملاقات

فرمان صرف اپنے والد کی خواہش پرایم بی بی ایس کررہا تھا۔ جب کہ خود اسے ادب سے گہرالگاؤتھا اورکہانیاں لکھ لیتا تھا۔


نعیم خان قیصرانی December 28, 2014
دونوں ہوا کے جھونکے کی طر ح تیزی سے گزری لیکن فرمان کی نظر حجاب پہنی لڑکی کی نظر سے ٹکر ا گئی اور فرمان کے دل کو ایک عجیب دھچکہ سا لگا جبکہ دوسری طرف سے ایک ہلکی مسکراہٹ آئی ۔ فوٹو: فائل

جب بس شہر میں داخل ہوئی تو پورا شہر تیز بارش کی لپیٹ میں تھا آسمان پر بادلوں کا راج تھا جبکہ سڑکوں پر پانی کی حکمرانی تھی۔ پھر بھی چند لوگ رنگی برنگی چھتریوں کے سائے میں سڑکوں پر چلتے نظر آرہے تھے ۔ پہاڑوں میں بسا یہ خوبصورت شہر اسلام آباد قدرت اور انسان کی مشترکہ تخلیق کی ایک شاندار شہکار لگ رہاتھا۔ گہرے بادلوں اورڈھلتے وقت کی بدولت شہر یقینی طور اپنے باسیوں کو ایک اور خوبصورت شام تحفہ دینے جارہا تھا ۔

بس ٹرمینل پر جاکر رکی، فرمان سیٹ سے اٹھا اور اپنا ہیند بیگ سنبھالا اور نیچے اتر آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ بارش تھمنے کا انتظارکرتا ایک ٹیکسی جس کی بیرونی حالت بہت ہی خستہ تھی آکر رکی، موٹا ڈرائیور جس نے سر پر ٹوپی اور منہ پر مونچھیں سجائی ہوئی تھیں اور اپنے مخصوص انداز میں فرمان کو مخاطب ہوا ۔
صاحب کہاں جانا ہے آپ نے ۔

میریٹ ہوٹل چلو ۔۔

فرمان لاہور سے ایک ادبی میلے میں شرکت کے لیے اسلا م آباد آیا تھا، چوبیس سالہ فرمان صرف اپنے والد کی خواہش پر پنجاب میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کررہا تھا۔ جب کہ خود اسے ادب سے گہرا لگاؤ تھا اور وہ خود بھی چھوٹی چھوٹی کہانیا ں لکھ لیتا تھا اس لیےاسے ادبی میلوں اورادبی محفلوں میں جانے کا بہت شوق تھا۔ ایک ہفتہ پہلے اسلام آباد میں وزارت ثقافت اورکلچر نے میریٹ ہوٹل میں ایک ادبی میلے کااعلا ن کیا تھا، فرمان نے بھی کالج سے چھٹی لی اوراس ادبی میلے میں شرکت کے لیے آسلام آباد چلا آیا ۔

ٹیکسی اسلام آباد کی پہاڑیو ں کو کاٹتی ،بل کھاتی ہو ئی سڑ کو ں پر دوڑ رہی تھی جبکہ فر ما ن سیٹ کو ٹیک لگا ئے بارش کا خو بصو رت نظارہ کر رہا تھا اور ساتھ یہ سو چ رہا تھاکہ کاش وہ ڈاکٹر بننے کے بجائے ادیب بنتا اور یو ں ادبی میلو ں میں وہ بطور ادیب شر کت کرتا۔

آپ کر اچی سے آئے ہیں ۔ ٹیکسی ڈرائیو ر نے اچانک سوال داغ کر فرمان کی سو چو ں میں مداخلت کی ۔

نہیں لاہور سے ۔ فر ما ن نے مختصر جو ا ب دیا

اوہ ۔۔لاہور لاہور ہے ۔کیا بات ہے لاہور کی ۔

اچھاجی ۔۔۔فر مان نے مختصر جو اب دیا ۔آپ اسلا م آباد خیر یت سے آئے ہیں ۔ ٹیکسی ڈرائیو ر نے شیشے میں سے فر ما ن کی طر ف دیکھتے ہو ئے سوالو ں کا سلسلہ جاری رکھا۔

کیوں میں ویسے نہیں آسکتا ۔

او پاجی تسی لاکھ دفعہ آو تہا ڈااپنا شہر اے،فر ما ن کا روکھا جو اب سن کر ٹیکسی والے کو شائد اردو بھو ل گئی اور اس نے اپنائیت کا ثبوت دیتے ہو ئے پنجا بی میں جو اب دیا ۔

فرمان نے خامو شی کو تر جیح دی اور کو ئی جو اب نہ دیا لیکن ٹیکسی والے نے خو د ہی اپنے بار ے میں بتاناشروع کر دیاکہ وہ مانسہر ہ کا رہنے والا ہے اور وہ پچھلے بیس سالو ں سے اسلا م آباد میں ٹیکسی چلا رہاہے۔ پند رہ سال اس نے کر ائے کی ٹیکسی چلا ئی لیکن اب پچھلے پانچ سا لو ں سے وہ اپنی ٹیکسی چلا رہا ہے اور اب اسے اتنے پیسے بچ جاتے ہیں جس سے اس کے دس لو گو ں پر مشتمل خاندان کا گزار ہ ہو جاتاہے ۔

ٹیکسی والا خود ہی بو لے جارہا تھا جبکہ فر ما ن مارگلہ کی پہاڑیو ں کے سحر میں مبتلا انہیں دیکھ رہا تھا اور اسے ٹیکسی ڈرائیو ر کی یہ تما م باتیں ناگوار گزر رہی تھیں ۔

تقریباً بیس منٹ بعد ٹیکسی ریڈ زون میں داخل ہو ئی۔ انٹر نس پر ہی پو لیس کی چیک پوسٹ تھی ایک سپاہی آگے بڑھااور اس نے ٹیکسی اور فر ما ن کی سامان سمیت جامع تلا شی لی پھر اند ر جانے دیا ۔

ٹیکسی کئی سر کاری عمارتو ں،شاپنگ پلازوں سے گزرتی ہو ئی اگلے پانچ منٹ بعد میر یٹ ہو ٹل کے سامنے جاکے رُکی اور فر ما ن نے پرس نکا ل کر ٹیکسی ڈرائیو ر کو کر ایہ دیا اور اپنا بیگ اٹھا کر میر یٹ ہو ٹل کے گیٹ کی طرف بڑھا ۔میر یٹ ہو ٹل کے باہر ملک کے سکیورٹی خدشات کے باعث سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے ۔ ہو ٹل کی بیر ونی دیو ار کے باہر پولیس کی بھا ری نفری تعینا ت تھی جبکہ سر اغ رساں کتے بھی نظر آرہے تھے ۔ تلا شی کے دوران فرمان نے دو پو لیس والو ں کو آپس میں یہ گفتگو کر تے سنا کہ دہشت گرد کسی بھی وقت ہو ٹل کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

سکیورٹی چیکنگ سے فارغ ہو کر فرمان ہو ٹل کے استقبالیہ کارنر کی طرف بڑ ھ گیا ۔

میریٹ ہوٹل شہرکے محفوظ مقامات میں سے ایک تھا اس لیے حکومت نے ادبی میلے کے انعقا د کے لیے میریٹ ہو ٹل کا اتنخاب کیا تھا۔ میریٹ ہوٹل ایک بین الااقو می سطح کا ہو ٹل ہے جہا ں اکثر غیر ملکیو ں کی بڑی تعداد رہتی ہے اوراس کے علا وہ قو می اور بین الا قو امی کانفر نسز اور سیمنا رز بھی ہمہ وقت جاری رہتے ہیں۔ان کے علاوہ بین الااقوامی و مقا می بز نس مین ،سیاست دان ،صحافی اور امیر لو گ بھی اسی ہو ٹل میں رہنے کو تر جیح دیتے ہیں اس لیے یہا ں پر کمر ہ حاصل کر نا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ لیکن فر مان کو خو ش قسمتی سے 703 نمبر کمر ہ الا ٹ ہو گیا ۔ فرمان اس رات اپنے ہو ٹل میں ہی ٹھہر ا رہا میلہ کل صبح دس بجے شروع ہو نا تھا۔

اگلی صبح فرمان کی آنکھ کھلی توکمرے پر مو جو دگھڑی پر نو بج رہے تھے فرمان جلد ی سے تیار ہو ا ناشتہ کمر ے میں ہی منگو ایا ۔ ناشتے سے فارغ ہو کر فرمان نے بیگ میں مصور کاظمی کی کتا ب ''اجنبی رشتے '' رکھی جس پر اس نے مصور کاظمی کے دستخط لینے تھے اور ہال کی طر ف چل پڑ ا ۔

ادبی میلہ میریٹ ہو ٹل کی اندرونی عما رت کے تہہ خانے میں ایک بڑ ے ہال میں ہورہا تھا۔فرما ن نے بہت سے لو گو ں کو ہال کی طر ف جاتے دیکھااچانک دو لڑ کیا ں فرمان کے پاس سے جلد ی سے گز ریں۔ ان میں سے ایک نے ہلکے نیلے رنگ کا سو ٹ پہنا ہو ا تھا جبکہ دوسر ی نے حجاب پہنا ہو ا تھا لہذ ا اس کے کپڑ وں کا رنگ کا اندازہ فرمان کو نہ ہو سکا ۔ دونوں ہوا کے جھونکے کی طر ح تیزی سے گزری لیکن فر مان کی نظرحجاب پہنے والی لڑ کی کی نظر سے ٹکر ا گئی اور فر مان کے دل کو ایک عجیب دھچکہ سا لگا جبکہ دوسر ی طرف سے ایک ہلکی مسکر اہٹ آئی ۔

اس ادبی میلے میں شر کت کے لیے دنیا بھر سے دانشور آرہے تھے اور ان میں اکثر کی کتابیں فرمان پڑ ھ چکا تھااور ان کو ٹیلی ویژن پر بھی دیکھ چکا تھا ۔ فرما ن ان کو اب اپنے سامنے دیکھنا چاہتا تھا ،ملنا چاہتا تھا ان سے باتیں کر نا چاہتا تھا اور انہیں اپنے بارے میں بتا نا چاہتا تھا کہ وہ بھی لکھتا رہتا ہے خاص طور پر اسے مصو ر کاظمی سے ملنے کا بہت شو ق تھاجس نے حال ہی میں ایک ناول ''اجنبی رشتے '' لکھاتھا جو فرمان کی پسندید ہ کتابو ں میں سے ایک تھی۔

فر ما ن جب ہال میں داخل ہوا تو ہال لو گو ں سے کچھا کچھ بھر ا ہو ا تھا اور لو گ اپنے اپنے پسند ید ہ مصنفو ں کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے ۔
فر ما ن نے ہال کا سر سر ی جائز ہ لیا۔ہال میں نشستیں بڑ ی خو بصورت طریقے سے سجا ئی گئی تھیں لو گ میزبانوں کی توقع سے شائد کچھ زیا دہ ہی آگئے تھے۔ ملک کی مختلف یو نیو رسٹیو ں سے آئے طلباء وطالبات کی حاضر ی متا ثرکن تھی ۔بڑی عمر کے لو گو ں نے بھی تعداد کے معاملے میں جوان عمر کے لوگو ں کے ساتھ مقابلہ خوب کیا ہو ا تھا ۔ ہال کی گیلری پر میڈ یا کے لو گو ں کا قبضہ تھاانہوں نے پورے ہال کو کیمر وں کی روشنیو ں میں نہلا یا ہو ا تھا جبکہ ہال کے باہر مختلف کتا بو ں کے اسٹا ل خو بصورتی سے سجائے گئے تھے ۔

انتظار کی گھڑیا ں اپنے اختتام کو پہنچی جب تین ادیب جن میں ایک خاتو ن بھی تھی ایک دوسر ے کے آگے پیچھے ہال میں داخل ہو ئے لو گو ں نے کھڑے ہو کر تالیا ن بجا کر ان کا استقبال کیا ۔جب ان ادیبوں نے اپنی اپنی نشستیں سنبھالیں تو ان کے بیٹھنے کی تر تیب کچھ اس طر ح تھی کہ خاتو ن ادیب دو مر د ادیبو ں کی درمیا ن میں بیٹھی۔جبکہ میز بان ان تینو ں سے تھوڑا الگ بیٹھے تھے۔

میلے کی کاروائی کا اغاز ہو ا۔ سب سے پہلے ایک غیر ملکی بر طانو ی مصنف Johen Adamکو اپنے ناول It will never end کے بارے میں اظہار خیال کر نے کے لیے بلا یا گیاانہو ں نے یہ ناول دوسری جنگ عظیم پر لکھا تھا ۔

معز ز مہما ن نے دوسر ی جنگ عظیم پر گہر ی روشنی ڈالی اور ان کا مو ضو ع سخن ایڈ وولف ہٹلر کے مظالم ہی تھے ۔معز ز ادیب کے مطابق اگر اتحا دی افواج ناز ی افواج کو شکست فاش نہ دیتی تو آج ہر جگہ انسا نیت کی تذلیل ہو رہی ہو تی اور جمہوریت کا نام و نشا ن نہ ہو تا ۔ لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسر ی عالمی جنگ عظیم کے بعد دنیا کا امن ہمیشہ کے لیے خطر نا ک ہو گیا ہے ۔ انہوں نے حاضرین کے لیے اپنے ناول کے کچھ وہ اقتبا سات بھی پڑ ھے جن میں جر من فو جو ں کا مذ ا ق اُڑیا گیا تھا ۔ جس پر انہوں نے حاضر ین سے خوب داد سمیٹی ۔

ان کے بعداگلی باری کے لیے میز بان نے ہند وستا ن سے آئی خاتو ن ادیب میڈم پو نم رائے کو اپنے ناول ''میر ی جنگ ''پر اظہا ر خیال کے لیے بلا یا گیا۔اس ناول میں ہند وستانی عو رتو ں کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی تھی ۔ناول کی کہانی گجر ات کی ایک مسلم عو رت صو فیہ کے گھر د گھو متی تھی جس کا پورا خاندا ن گجر ات میں ہو نے والے ہند و مسلم فسادات میں مارا گیا تھا ان فسادات میں صو فیہ حالات اور موت سے بھاگ کر ممبئی آجاتی ہے جہا ں وہ اپنی بقا کی جنگ لڑنا چاہتی ہے لیکن اسے بدترین جنسی ،مذہبی امتیا ز کا سامنا کرنا پڑ تا ہے لیکن یہ عورت ہمت مر داں کی مثال بن جاتی ہے بلا آخر یہی صو فیہ عورتو ں کی بھلا ئی کے لیے ایک تنظیم ''گھو نسلہ '' بنانے میں کامیا ب ہو جاتی ہے ۔ یہ تنظیم لاچاراور لا وارث عورتو ں کو ہر قسم کی مد د فراہم کرتی ہے ۔ ہال میں پونم رائے کی گفتگو کو بڑ ی تو جہ سے سنا گیا، کئی بار حاضر ین کی آنکھیں بھی نم ہوئیں۔

میڈ م پو نم رائے کی تقر یر کے بعد میز بان نے لنچ کا وقفہ کر دیا ، فر ما ن ہا ل سے با ہر آیاتو کینٹین پرکافی رش تھاکو ئی کافی کاخر ید ارہا تھا تو کو ئی بریا نی اور چائے ملنے والی لائن میں کھڑ ا تھا توکچھ لو گ سینڈ وچ اور کو کا کو لا کے مزے لے رہاتھا۔

کینٹین پر فرمان نے دیکھا کہ وہ دونو ں لڑ کیاں اپنے خو بصو رت ہاتھو ں میں کافی کے مگ پکڑ ے ہو ئے کھڑی تھی، فر مان نے ایک نظر میں حجاب والی لڑ کی کو دیکھا تو اسے دیکھ کر فر ما ن کونجانے کیو ں ایک انجانی اپنا ئیت سی محسو س ہو ئی اور فر ما ن کے قدم ان لڑ کیو ں کی طر ف بڑ ھنے لگے ۔ فر مان جب لڑ کیو ں کے قریب گیا تو لا محالہ لڑ کیو ں کو بھی اس کی مو جو دگی شائد کچھ ناگو ار سی گز ر ری ہو گی کیونکہ ان دونو ں نے آپس میں ایسی کھسر پھسر کی جس میں فرمان کے لیے ایک پو شید ہ پیغام تھا ۔فرمان بھی معاملے کی نزاکت کو سمجھا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے۔

کافی کہاں سے ملتی ہے ۔۔فرمان نے دونو ں لڑ کیو ں کو مخاطب کر تے ہو ئے پوچھا لیکن اس کی نظر اس لڑ کی پر تھی جس نے حجاب پہنا ہو ا تھا ۔
جی وہ سامنے سے ۔۔دوسر ی لڑ کی نے کا فی کیبن کی طر ف سے اشارہ کر تے ہو ئے قدرے تلخی سے جو اب دیاآپ کہا ں سے تشریف لائی ہیں ۔۔فر مان نے بات جاری رکھنے کی کو شش کی۔

ہم اسلام آباد سے ہی ہیں ۔۔زارا چلو ہم کو ئی کتاب دیکھتے ہیں لڑ کی نے اپنی ساتھی کو مخا طب کیا ۔

زارا ۔۔فرمان نام جان لینے کو اپنی بہت بڑ ی کامیا بی جانا ۔ پل بھر میں وہ دونو ں لڑ کیا ں پھر بھیڑ میں گم ہو گئیں لیکن فرمان کی انکھیں مسلسل زارا کے تعاقب میں رہیں ۔

لنچ کا وقفہ ختم ہو ا۔ فر مان ہال میں واپس آیا اب اس کے پسند ید ہ مصنف مصو ر کاظمی نے ہا ل میں آنا تھا اور انہو ں نے اپنے شہر ہ افا ق ناول ''اجبنی رشتے' 'پر بات کر نی تھی اور ساتھ ساتھ انہو ں نے حاضر ین کے سوالو ں کے جواب بھی دینے تھے ۔فر مان نے بھی سو چ رکھا تھا کہ وہ بھی مصور کاظمی سے کچھ سوال جو اب کر ے گااور انہی کی کتاب پر ان سے آٹو گراف بھی لے گا ۔

وقفے کے بعد ابھی لو گو ں نے نشستیں سنبھالی ہی تھیں کہ مصو ر کاظمی ہال میں داخل ہو ئے اور ہال کے تما م حاضرین نے ان کاشاند ار استقبال کیا۔ہال کافی دیر تک تالیو ں کی آوازسے گو نجتا رہا اور لو گ کافی دیر اپنی نشستو ں پر کھڑ ے ہو کر مصو ر کاظمی کو خراج تحسین پیش کر تے رہے ۔مصو ر کا ظمی بھی اپنے مداحو ں کی محبت دیکھ کر اپنی نشست پر بیٹھنے کے بجا ئے جواباً کا فی دیر کھڑ ے ہو کران کا شکر یہ ادا کر تا رہے۔

میز بان کی طر ف سے مصو ر کاظمی کو سٹیج پر بلا نے کا اعلا ن ہو ا تو اچانک فر ما ن نے دیکھا کہ پاس والی قطار کی آخر ی نشست پر زارا اکیلی بیٹھی تھی جبکہ اس کی دوست کہیں غائب تھی ۔ فر مان نے ایک لمحے کو خواہش کی کہ وہ چل کے اس کے پاس بیٹھے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا ۔فرمان نے دیکھازارا کا گو را چٹا چہر ہ اس پوری قطار میں منفر د طریقے سے چمک رہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے چو دھو یں رات کا چاند بھی اپنی چاند نی اس چہر ے سے مستعار لیتا ہو گا ۔ زارا کے چہر ے پر ٹھہر ی ہو ئی چاند نی اور سکو ن فرمان کے دل کو ٹھنڈ ی ہو ا کے جھو نکو ں ،شبنم کے قطروں اور بارش کی بو ند وں جیسی راحت محسوس ہورہی تھی۔فرمان کو یقین تھا کہ جو نو ر اور تازگی اس لڑ کی کے چہر ے پرقر بان ہو رہے ہیں وہ آج تک شائد ہی دنیا میں کسی لڑکی کو نصیب ہو ئے ہوں گے۔فرمان کو وہ لڑ کی روشنی اور خو بصورتی کا مجسمہ لگی ۔ فرمان زارا کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسا کو ئی معصو م بچہ رات کو چاند کی طرف دیکھتا ہے ۔زارا کے سحر میں فرمان پور ی طرح گر فتا ر ہو چکا تھا ،فرمان کی سانسیں اب زارا کی نظر کی محتاج ہو چکی تھی ۔شائد فرمان کو زارا سے محبت ہوگئی تھی ۔

اسی عالم میں فرمان نے یکایک دیکھا کہ زارا اپنی نشست سے اٹھ کر اس کی طر ف چلی آرہی ہے جو ں جو ں وہ قر یب آرہی تھی فرمان کی دنیا تھمنے لگی ،وقت رک ساگیا تھا لیکن زارا بڑی تیز ی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔

زارا فرحان سے دو قد م دور تھی کہ تالیو ں کی گو نج بڑھی لو گ کھڑ ے ہو کر تالیا ں بجا ہی رہے تھے کہ اچانک ہال میں ایک زبردست دھماکہ ہو ا اور ہر طر ف دھو اں ہی دھو اں چھا گیا، چیخ و پکارہال کی دیو اروں سے ٹکرائی ، پورا ہال اندھیرے میں ڈوب گیا ،فرمان نے محسو س کیا کہ کو ئی چیز زور سے اس سر پر آکرپیوست ہو گئی ہے، بند ہو تی ہو ئی انکھوں سے فرمان نے ایک روشنی کو اپنی طر ف آتے دیکھا اور پھروہ بے ہو ش ہو گیا ۔
تین روز بعد فر مان نے آنکھ کھو لی تووہ پمز ہسپتا ل کے انتہا ئی نگہد اشت وارڈ میں پڑ ا تھا،فرمان نے کچھ یاد کرنے کی کو شش کی تووہی اجنبی روشنی آنکھو ں میں اتر آئی ،فرمان مسکر ا پڑ ا کیو نکہ وہ روشنی اب اس کی آنکھوں کا نو ر بن چکی تھی اور وہ روشنی ہی اس کی اصل زندگی تھی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مقبول خبریں