اداجعفری جدید اردو شاعری کی خاتون اول
ادا جعفری میرے لیے کسی داستان کے کردار کی حیثیت رکھتی تھیں۔
کراچی میں بن موسم کی برسات ہو رہی تھی۔ فاطمہ حسن اور میں بہن ادا جعفری کے گھر جا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ بارش تھم جائے، ان کے آخری سفر میں کوئی کھنڈت نہ پڑے۔ ہم دونوں گلیوں میں دائیں بائیں مڑتے رہے اور انھیں یاد کرتے رہے۔
میرے لیے وہ کسی داستان کے کردار کی حیثیت رکھتی تھیں۔ من موہنی صورت، نستعلیق لہجہ، شہرت کی بلندیوں پر اور پھر بھی اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت بھرا انداز۔ معاصر غزل میں نسائی لہجہ ایجاد کرنے والی وہ اردو کی پہلی شاعرہ تھیں جنھوں نے لہو میں بھنور ڈالتے ہوئے جذبوں کو شائستگی اور تہ داری کے ساتھ آمیخت کیا اور اپنی مثال آپ بن گئیں۔
47 تک وہ عزیز جہاں ادا بدایونی تھیں۔ شادی ہوئی، پاکستان میں قدم رکھا تو وہ اپنے شریک حیات نورالحسن جعفری کی نسبت سے ادا جعفری کہلائیں۔ یوں تو ہماری شاعرات کی کہانی مہ لقا بائی چندا سے شروع ہوتی ہے لیکن 30ء اور 40ء کی دہائی تک آتے آتے زاہدہ خاتون شروانیہ، نجمہ تصدق حسین، آمنہ عفت، رابعہ پنہاں، داراب بانو وفا شاعری کے افق پر نمودار ہو چکی تھیں اور داد وصول کر رہی تھیں۔ ایسے میں عزیز جہاں ادا بدایونی سامنے آئیں اور انھوں نے اردو شاعرات کو ایک نئی پہچان دی۔
ہر طرف ادا جعفری کا طوطی بولنے لگا۔ وہ اور زہرہ نگاہ مشاعروں کی جان بن گئیں۔ ان کے بعد آنے والیوں نے عشق و عاشقی کے عذاب اور وصل کے ثواب کھل کر بیان کیے۔ خواہشوں کے معاملات کو بے حجابانہ لکھا، یوں ادا جعفری کو ان سب سے اپنی الگ پہچان بنانے میں کوئی مشکل نہ ہوئی۔ برادرم جمیل الدین عالی نے ابتدائی دنوں میں ہی انھیں جدید اردو شاعری کی خاتون اول کہا اور اپنی آخری سانس تک وہ اس منصب پر فائز رہیں۔
''میں ساز ڈھونڈتی رہی'' ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا، اس کے بعد ''غزالاں تم تو واقف ہو'' ''حرف شناسائی'' ''ساز سخن بہانہ ہے'' اور ''شہر درد'' کے علاوہ آخری دنوں کی شاعری ''سفر باقی ہے'' کے عنوان سے ان کی کلیات ''موسم موسم'' میں شامل ہے۔
ان کا بڑا کام ''غزل نما'' ہے جس میں انھوں نے اردو غزل کے کلاسیکی شعرا کے کلام کا انتخاب کیا اور ان کے بارے میں لکھا۔ یہ تحقیقی کام تھا، بہ ظاہر ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تھا لیکن یہ کام انھوں نے بہت دل لگا کر کیا اور ہمارے کلاسیکی شعرا کا ایک مستند انتخاب سامنے آیا۔ یہ کام انھوں نے مشفق خواجہ صاحب کے اصرار پر شروع کیا تھا، خواجہ صاحب اور عالی صاحب اسے سلسلہ وار انجمن ترقی اردو کے ماہنامے ''قومی زبان'' میں شائع کرتے رہے اور بعد میں وہ انجمن کی طرف سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔
اس کتاب کا ابتدائیہ لکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ''مجھے یقین ہے پہلا شاعر، پہلے انسان کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ انسان جو اسماء کا علم رکھتا تھا کیسے ممکن ہے کہ جذبوں کے نام سے ناآشنا رہا ہو۔ اس بولتی ہوئی تنہائی سے آخر اس نے کچھ تو کہا ہو گا، اور وہ نامعلوم سی کیفیت انتظار جس کا ذائقہ بھی پہلے پہل آدم نے ہی چکھا تھا۔ تخلیق شعر کا اولین لمحہ شاید وہی ہو۔ ممکن ہے شاعری ہی ''شجر ممنوعہ'' ہو۔ شاعری کا نصیب بہرحال سوز و گداز و اضطراب ہے۔ فردوس بریں اس کے لیے مناسب مقام نہیں ہو سکتا تھا، اور پھر یوں ہوا کہ اس عالم فانی میں انسان کی طہارت قلب نے شاعری کو عبادت کے درجے تک پہنچا دیا۔ کہ اب نجات کا راستہ یہی تھا''۔
ان کلاسیکی شعراء کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ ان اشعار کے جھروکوں سے میں نے تسلسل کے ساتھ کئی صدیوں کا نظارہ کیا۔ زبان کے ارتقائی مدارج اور اس معاشرے کے خدوخال سامنے آئے۔ معروف اساتذہ اور مشاہیر سخن کے اس کارواں میں کچھ ایسے آبلہ پا بھی شریک سفر تھے جنھیں بہت جلد فراموش کر دیا گیا۔ وجوہ کئی تھیں۔ میری نگاہ میں وہ معاشرہ اور وہ ماحول بھی بہت سی کوتاہیوں کا ذمے دار تھا جس میں یہ لوگ زندگی بسر کر رہے تھے''۔
ابتدائی دور کے کم معروف اور غیر معروف شعرا کے کلام میں اردو کے الفاظ کو آنکھ کھولتے ہوئے اور اردو زبان کو پہلی بار سانس لیتے ہوئے دیکھنے کا بھی احساس ہوا۔ جب اظہار و ابلاغ کی ضرورت نے نئی زبان (اردو) نئے الفاظ اور الفاظ کو برتنے کے نئے رویوں کو جنم دیا تھا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں برصغیر میں فارسی خواص کی زبان تھی۔ دفتری اور شعر و ادب کی زبان بھی فارسی تھی۔
اس کے علاوہ عوام کی اپنی اپنی علاقائی بولیاں تھیں، جن کے امتزاج سے معاشی اور معاشرتی ضروریات کے تحت اردو وجود میں آئی، جس نے تمام زبانوں کے الفاظ کو اپنے دامن میں اس طرح سمیٹ لیا کہ اس عہد کے سخنوروں نے اپنی بات عوام تک پہنچانے کے لیے اسی زبان کا وسیلہ اختیار کیا۔ ادا بہن کے اس کام میں خواجہ صاحب کی لائبریری نے قدم قدم پر ان کا ساتھ دیا، اسی میں ہم جیسے شائقین ادب کے لیے انھوں نے زباں زد عام اشعار کے شاعروں کا بھی کھوج لگایا۔
ان کی تخلیقی جہتوں کا جائزہ لیجیے تو ان کی واردات قلبی آئینہ ہو جاتی ہے:
ہم نے سونپ دی جس کو کائنات جاں اپنی
وہ خدا نہ تھا لیکن کس قدر اکیلا تھا
بیت المقدس کے حوالے سے ان کی نظم ''مسجد اقصیٰ'' بہت مشہور ہوئی تھی اور ان کا یہ مصرعہ بہت دنوں تک ورد زباں رہا تھا کہ 'عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں'
جولائی 1995ء میں مکتبہ دانیال، کی حوری نورانی نے ان کی خودنوشت 'جو رہی سو بے خبری رہی' شائع کی تو ادا بہن نے اس کا نسخہ یہ لکھ کر میرے سپرد کیا کہ ''پیاری بہن زاہدہ حنا کے لیے... محبت کے ساتھ'' یہ ایک ایسی خود نوشت ہے جس میں وہ مختصر جملوں میں داستانیں بیان کر دیتی ہیں۔ ابتدائی صفحوں میں لکھتی ہیں کہ ''مرد تھے جن کی جنبش ابرو پر زندگی بھر کی خوشیوں یا محرومیوں کے فیصلے ہوتے تھے اور بی بیاں تھیں جو ان فیصلوں کو دین ایمان کے احکام کا درجہ دیتی تھیں''۔
دلی حسرتوں کا بیان کس سادگی سے کیا ہے کہ ''مجھے یاد ہے بچپن میں میری سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ کبھی خاندان کے لڑکوں کی طرح میں بھی اپنے شہر کی واحد کشادہ سڑک پر پیدل چلوں اور تقدیر کا فیصلہ یہ تھا کہ میں پوری دنیا گھوم لوں لیکن میرے قدم اس سڑک کو کبھی نہ چھو سکیں''۔
والد اگلے جہان کو چلے جاتے ہیں تو یہ ان کی امی ہیں جو انھیں راہ نجات دکھاتی ہیں، انھیں لکھنے پڑھنے کی طرف راغب کرتی ہیں اور محرابی دروں اور منقش ستونوں والے اس برآمدے تک لے جاتی ہیں جہاں فرش پر اردو، فارسی اور انگریزی کتابوں کے ڈھیر ہیں۔ باپ کی شفقت سے محروم ہو جانے والی لڑکی نے ان ہی کتابوں سے لفظ چنے۔
یہ وہ تھی جس کی ماں اس کے لیے زندگی کی اندھی سرنگ میں ایک روشن دیے کی طرح تھی۔ اس کے نانا تھے جو لفظوں سے اس کے عشق کا احوال جان کر اسے 'لغات کشوری' خرید کر دیتے ہیں، جسے خریدنے کی اس کی استطاعت نہیں لیکن جس کے پھٹے ہوئے کچھ اوراق نے اسے نئے لفظوں کے چمن کی سیر کرائی ہے۔ یوں وہ 9 برس کی عمر میں شعر لکھنے کا آغاز کرتی ہے اور چند دہائیوں بعد جدید اردو شاعری کی خاتونِ اول کے منصب پر فائز ہو جاتی ہے۔
وہ جسے بدایوں کی گلیوں میں، اپنے گھر کے اڑوس پڑوس میں گھومنے کی حسرت رہی، وہ دنیا کے تمام براعظم گھوم آتی ہے۔ ادا اپنی شاعری کا محاکمہ اس طور کرتی ہیں کہ ''میری نظم 'مسجد اقصیٰ' مسلمان حکمرانوں کی بے ضمیری کا نوحہ ہے۔ سقوط ڈھاکہ بھی ایک آمر کی بے تدبیری اور نشہ اقتدار کا نتیجہ تھا، ورنہ جغرافیائی دوری اور لسانی اختلافات کے باوجود کوئی ایسا حل تلاش کیا جا سکتا تھا جس سے پوری قوم کی آبرو مجروح نہ ہوتی۔ نہ اتنی خون ریزی کی نوبت آتی اور ایسی دوریاں بھی نہ ہوتیں۔ میں نے گم ہوتے ہوئے اور گم شدہ مشرقی پاکستان کے نام بھی کئی نوحے لکھے''۔
خود نوشت کے آخری صفحے پر وہ بات یوں ختم کرتی ہیں کہ میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ انسانی شعور کا نقطہ آغاز بھی حیرت ہے اور مرکزی انجام بھی حیرت۔ اس ابتدا اور انتہا کے درمیان گمان و یقین کی پناہیں تراشتے عمر بیت جاتی ہے۔ مدتوں پہلے وقت کے جادوگر سے اپنا پتہ پوچھ رہی تھی۔ آنکھوں نے گردش ماہ و سال کی نیرنگیاں دیکھیں اور میں ہوں کہ آج بھی قلم کاغذ ہاتھ میں تھامے اسی طرح پلنگ کے ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ اور وہی جستجو اور وہی آرزو۔ بھید تو جاننے والا ہی جانتا ہے۔
میں اندھیروں کو اوڑھ بھی لیتی
راہ میں ماہتاب آوے ہے
انھوں نے اپنی خودنوشت کا عنوان سراج الدین آرزو کی غزل کے ایک مصرعے کے نصف ٹکڑے کو بنایا تھا اور پھر زندگی کے آخری دنوں میں ان کے شب و روز عالم بے خبری میں ہی گزرے۔
آج جب، حوری نورانی، فاطمہ حسن، زاہدہ لطف اللہ خان کے ساتھ میں انھیں رخصت کر رہی تھی تو وہ پلنگ کے ایک کونے میں نہیں بیٹھی تھیں، وہ مشت خاک سفید چادر اوڑھے، منہ لپیٹے لیٹی ہوئی تھی۔ ان کے جاں نثار بیٹے ڈاکٹر عامر جعفری اور اس کی ہفت زباں شریک زندگی ماہا کے لیے، عزمی اور صبیحہ کے لیے یہی دعا ہے کہ انھیں پلنگ کا خالی کونہ دیکھنے کی تاب آ جائے۔