پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کا سنگین مسئلہ

ہر برس لاکھوں افراد بھوک، بیماری، غذائی قلت اور افلاس کے باعث موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔


مہرین فاطمہ April 13, 2015
پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جو اقوامِ متحدہ کے وضع کردہ ترقی کے اہداف میں سے ایک یعنی بھوک میں کمی کو پورا کرنے میں عملی طور پر ناکام ہے۔ فوٹو: فائل

افریقہ سے بنگلہ دیش کے پسماندہ علاقوں اور دیہاتوں تک کروڑوں افراد غذائی قلت اور اشیائے خردونوش کی کمی کے سبب فاقہ کشی سے دوچار ہیں۔ عالمی سطح پر تخفیفِ غربت کی متعدد کوششوں کے باوجود کمی کے ٹھوس شواہد نظر نہیں آتے، بلکہ یہ اعداد و شمار بڑھوتری کی طرف ہی اشارہ دیتے رہے ہیں۔

عالمی ادارہ خوراک کے مطابق ہر برس لاکھوں افراد بھوک، بیماری، غذائی قلت اور افلاس کے باعث موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ 1996 کی عالمی خوراک کانفرنس کی قرارداد کی رو سے سے عالمی سطحہ پر خوراک کے تحفظ کو اسی وقت یقینی بنایا جاسکتا ہے جب تمام افراد ایک صحت مند اور فعال زندگی گزارنے کے لیے اپنی غذائی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق درکار، مناسب، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تک ہمہ وقت طبیعی، سماجی اور معاشی دسترس رکھتے ہوں۔

عالمی انسانی منشور کے تحت معیاری غذا کی بھرپور دستیابی ہر انسان کا حق ہے، جس کے نتیجے میں قوم کی مجموعی استعداد کار اور قوتِ عمل ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ برعکس صورتحال جہالت، بدعنوانی، معاشی ابتری اور بدامنی کو دعوت دیتی ہے۔ فی زمانہ غذائی بحران کے شکار ممالک بشمول پاکستان و دیگر جنوبی ایشیائی ممالک معاشی کسمپرسی سے فسادات کی زد میں ہیں۔ علاقائی و عالمی امن کو اس سے مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

https://twitter.com/danwibg/status/403520555397033984



پاکستان اگرچہ زرعی اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے، اس کے باوجود بھی تحفظِ خوراک پاکستان کے لیے خوفناک مسئلہ کا روپ اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا بڑا سبب بلند افراطِ زر، معاشی پسماندگی اور حکومت کی جانب سے زرعی پیداوار پر سبسڈیز میں کمی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے گذشتہ سال اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ 1990 سے پاکستان میں غذائی قلت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں 2012 سے 2014 کے اعداد وشمار کے مطابق 3 کروڑ 96 لاکھ افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے ۔

اقوامِ متحدہ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2050 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک بن جائے گا اور 40 سال بعد فصلوں کے لیے پانی کی عدم فراہمی غذائی بحران کو شدید تر کردے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اشیائے خوراک بالخصوص آٹے، چینی، چاول اور مویشیوں کی اسمگلنگ اور لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی موجودگی، مسلسل بد امنی، بیرونی مالیاتی قرضوں کا دباو، توانائی کی قلت، کم سرمایہ کاری، تخصیصی سماجی و معاشی نظام اور تعلیم و طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھی پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جو اقوامِ متحدہ کے وضع کردہ ترقی کے اہداف میں سے ایک یعنی بھوک میں کمی کو پورا کرنے میں عملی طور پر ناکام ہے۔

https://twitter.com/essapk/status/485798566825562112



آئینِ پاکستان 38 ڈی کے مطابق ریاست ہر شہری کو بلا تفریق رنگ و نسل، معذوری و بیروزگاری روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور طبی سہولیات کی فراہمی کی پابند ہے۔ تحفظِ خوراک کو یقینی بنانا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی اہم ذمہ داری ہے اور حال یہ ہے کہ ہنگر انڈیکس میں پاکستان الارمنگ اسٹیج 20 ویں نمبر پر ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 53 فیصد اضلاع غربت سے متاثر ہیں، جبکہ فاٹا کے تمام اور صوبہ خیبر پختون خوا کے 83 فیصد جبکہ کشمیر بلتستان اور بلوچستان میں 90 فیصد اضلاع کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ سندھ میں بھی صورتحال نہایت دگرگوں ہے۔ جنوبی سندھ اور ملحقہ ساحلی پٹی میں بسنے والے افراد شدید غربت کا شکار ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 21 سے 23 فیصد آبادی غذا کا بڑا حصہ گندم سے پورا کرتے ہیں اور گوشت، دودھ اور پھل خریدنے کے متحمل نہیں۔ یہی غذائی قلت بیماریوں کو موت کا عفریت بنا دیتی ہے۔ سندھ کے نواحی اور صحرائی علاقہ تھرپارکر میں غذائی قلت ایک ایسے ہی بڑے سانحے کو جنم دے چکی ہے۔ غذائی بحران کا عموماً پہلا شکار بچے ہوتے ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق تھرپارکر میں مرنے والے بچوں میں سے 40 فیصد غذائی قلت کا شکار تھے۔ گذشتہ برس سے اب تک ہزار سے زائد نوزائیدہ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ہنوز حل طلب ہے۔



تحفظِ خوراک کے حوالے سے ہمیں کئی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جیسے؛

* زرعی ترقی اور فاضل و متبادل غلہ کی وافر پیداوار اور اس کی محفوظ ذخیرہ کاری

* غذائی پیداوار پر دباؤ کے اسباب کے لیے لائحہ عمل کی تشکیل

* اشیائے خوردونوش کی گرانی کی روک تھام اور ارزاں قیمتوں پر وافر مقدار میں یقینی دستیابی

* غذائی عادات سےمتعلق عوام الناس میں شعور و آگاہی

* شہری آبادی میں پھیلاؤ اور دیہی آبادی میں پسماندگی کا سدِباب

* زراعت سے متعلق جدید ٹیکنالوجی کے لیے کسان کی تربیت اور مالی اعانت

* سماجی و معاشی تخصیص کا سدباب

* ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چور بازاری، آڑھتی چال بازیاں، منافع خوری اور جعل سازی کی روک تھام

* ماحولیاتی مسائل کا سدباب

* آبی و زمینی وسائل کا تحفظ اوریقینی بہترین نظامِ آب پاشی کا ازسرِ نو قیام

* ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ذاتی و سیاسی مفاد سے بالاتر ایسی اقتصادی، سرمایہ کارانہ و تجارتی، ماحولیاتی اور تعلیمی پالیسیاں مرتب کی جائیں جو فوری طور پر بلوچستان، فاٹا، جنوبی پنجاب و خیبر پختون خوا بالخصوص تھر، سندھ میں مذکورہ اہداف حاصل کرنے کے لیے راہیں ہموار کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

مقبول خبریں