گلگت بلتستان بلند وبالا کہساروں اورگلیشیئرزکی سرزمین

بشیر واثق  اتوار 10 مئ 2015
گاشر برم ون یہاں کی تیسری اور دنیا کی گیارھویں بلند ترین چوٹی ہے اس کی بلندی 8080 میٹر ہے، یہ کوہ قراقرام کا حصہ ہے,فوٹو فائل

گاشر برم ون یہاں کی تیسری اور دنیا کی گیارھویں بلند ترین چوٹی ہے اس کی بلندی 8080 میٹر ہے، یہ کوہ قراقرام کا حصہ ہے,فوٹو فائل

سحرانگیز خطے کا مشاہدہ کرنا ہو تو اس کے لئے دنیا کے کسی دور درازعلاقے میں جانے کی ضرورت نہیں، قدرت نے پاکستان کو ایسے بہت سے علاقوں سے نوازا ہے جن کا حسین نظارہ انسان کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتا ہے، گلگت بلتستان کا شمار بھی ارض پاک کے ایسے ہی خطوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا حصہ ہے۔

جنت نظیر وادیوں کی یہ سر زمین اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ تاریخی طور پر یہ خطہ تین ریاستوں پر مشتمل تھا یعنی ہنزہ ، گلگت اور بلتستان ۔ چینی سیاح فاہیانگ جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو کہ پورے گلگت بلتستان پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا ۔ پھر ساتویں صدی میں اس کے بعض حصے تبت کی شاہی حکومت میں چلے گئے۔

پھر9 ویں صدی میں یہ مقامی ریاستوں میں بٹ گئی جن میں سکردو کے مقپون اور ہنزہ کے ترکھان خاندان مشہور ہیں۔ مقپون خاندان کے راجاؤں نے بلتستان سمیت لداخ،گلگت اور چترال تک کے علاقوں پر حکومت کی ۔

احمد شاہ مقپون اس خاندان کا آخری راجا تھا جسے ڈوگرہ افواج نے ایک ناکام بغاوت میں 1840ء میں قتل کر ڈالا۔ پھر 1947ء میں بر صغیر کے دوسرے مسلمان علاقوں کی طرح یہاں بھی آزادی کی شمع جلنے لگی ۔

مگر ڈوگرہ راج نے طاقت کے ذریعے پورے علاقے پر قبضہ کیا ہوا تھا تب یہاں کے عوام نے اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے بندوق اٹھائی اور کرنل مرزا حسن خان نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جنگ لڑی اور پورے علاقے کو ڈوگرہ راج سے نجات دلائی پھر یہاں کے عوام نے اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ جیسے پاکستان کے دیگر شمالی علاقہ جات کو سپیشل سٹیس دیا گیا ہے تو گلگت بلتستان کو بھی وہی حیثیت حاصل تھی، عرصہ دراز تک اس علاقے کو خصوصی حیثیت حاصل رہی ۔ پھر 2009ء میں اسے مجوزہ صوبے کا درجہ دیتے ہوئے عام انتخابات کرائے گئے ۔ پیر کرم علی شاہ یہاں کے پہلے گورنر اور سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب کئے گئے۔

گلگت بلتستان کا کل رقبہ تقریباً 119985 مربع کلومیٹر ہے، اس کی آبادی تقریباً چودہ لاکھ چھیانوے ہزار سات سو ستانوے نفوس پر مشتمل ہے ۔ دو ڈویژنوں گلگت، بلتستان پر مشتمل اس مجوزہ صوبے کا مرکزی مقام گلگت ہے ۔ جبکہ ان ڈویژنز کو سکردو، گانچھے ، گلگت ، غذر، دیامیر ، استور اور ہنزہ نگر میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

اردو کے علاوہ یہاں پر بلتی، شینا، بروشاسکی، کشمیری ، واخی ، کوہواری اور کوہستانی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ شمالی علاقہ جات کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ سرحد واقع ہیں۔

دنیا کے بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم ،کوہ ہمالیہ اورکوہ ہندوکش یہاں آ کر ملتے ہیں ۔ یہاں پر سات ہزار میٹر سے زائد بلند  50چوٹیاں واقع ہیں، اسی طرح تین بڑے گلیشیر بھی یہیں واقع ہیں ۔ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن گلیشیئربلتستان کے ضلع گانچھے کے پہاڑی سلسلے قراقرم میں واقع ہے تاہم متنازع ہونے کی وجہ سے کبھی اسے بلتستان میں شمار کیا جاتا ہے اور کبھی نہیں۔

بھارت نے اپنے مخصوص جنگی عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 1984ء میں یہاں پر قبضہ کیا تو پاکستان کو بھی اس کے ردعمل میں میدان جنگ میں کودنا پڑا ، یہاں پر گرمیوں میں درجہ حرارت منفی دس اور سردیوں میں منفی پچاس تک چلا جاتا ہے، اس لئے یہ دنیا کا مشکل ترین محاذ جنگ ہے ۔ اپنی خوبصورتی اور بلند و بالا چوٹیوں کی وجہ سے دنیا بھر سے سیاح اور کوہ پیما یہاں آتے ہیں ۔ یوں پاکستان کو سیاحت کے شعبہ میں کافی آمدن ہوتی ہے۔ ان تمام خصوصیا ت کا حامل یہ خطہ پاکستان کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

گلگت بلتستان کے موجودہ گورنر برجیس طاہر ہیں ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے یہاں کا دورہ کیا تو گلگت بلتستان کے لئے 45 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ، جس کے تحت خنجراب سے اسلام آباد تک ریلوے سروس شروع کی جائے گی۔ قراقرم یونیورسٹی کے بعد اب بلتستان یونیورسٹی بنائی جائے گی ۔ انہوں نے ہنزہ نگر کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شگر اور گھرمنگ کو بھی ضلع کا درجہ دیں گے۔ شمالی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھا دیں گے اور ایسا وقت بھی آئے گا کہ سکردو کو ریلوے کے ساتھ منسلک کریں گے۔

یوتھ ایمپلائمنٹ سکیم کے تحت ہنرمند نوجوانوں کو 20، 20 لاکھ کے قرضے دیئے جائیں گے۔ گلگت میں پانی کی کمی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کردی جائے گی۔ دیامر بھاشا ڈیم سے 4 ہزار 500 میگا واٹ ، بونجی ڈیم 7 ہزار میگاواٹ ، داسو ڈیم 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔دنیا کے عجائبات میں شمار ہونے والی شاہراہ قراقرم بھی اسی خطے سے گزرتی ہے، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کی حفاظت کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی بھی ہدایات دیں ۔

گلگت بلتستان کا ایک سنگین مسئلہ بڑھتی ہوئی فرقہ واریت ہے، درجنوں افراد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، حکومتی کوششوں کی وجہ سے مساجد بورڈ یہاں پر امن قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اقدامات کی بھی سخت ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے شر پسند افراد پر خصوصی نظر رکھے جو اس جنت نظیر خطے کے امن کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔

حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کے لئے اربوں روپے کا ترقیاتی پیکج خوش آئند ہے، ریلوے کی ترقی اور شاہراہوں کا جال بچھائے جانے سے یہاں پر آمدو رفت بڑھے گی اور مختلف مقامات تک رسائی جتنی زیادہ ہو گی ترقی کے اتنے زیادہ راستے کھلیں گے ۔ اسی طرح تعلیم عام کرنے کے لئے بلتستان یونیورسٹی کا قیام انتہائی اہم قدم ہے ۔

 

اس سے یہاں کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے دوسرے علاقوں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا ، خاص طور پر ایسے طلبہ جو آگے پڑھنے کا جذبہ رکھنے کے باوجود مالی مسائل کی وجہ سے دوسرے شہروں کا رخ نہیں کر سکتے ان کے لئے یہ بہت بڑی سہولت ہے۔ خطے میں روزگار کے زیادہ مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت بے کاری کا شکار تھی، وزیر اعظم کی طرف سے نوجوانوں کے لئے یوتھ ایمپلائمنٹ پروگرام کے تحت بیس، بیس لاکھ روپے کا قرضہ دیئے جانے کی وجہ سے یقینی طور پر روزگار کے کافی مواقع میسر آئیں گے، اب ضرورت ہے کہ حکومت کی طرف سے ان اقدامات کے اعلان کے بعد ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ خطے کے وسائل اور مسائل کو دیکھتے ہوئے 45 ارب روپے کا یہ حکومتی پیکج ناکافی دکھائی دیتا ہے، اگر یہاں پر حقیقی معنوں میں ترقی اور خوشحالی لانی ہے تو ایسے ترقیاتی پیکج ہر سال دیئے جانے کی ضرورت ہے، اگر حکومت یہاں پر موجود سیاحتی مقامات تک پہنچنے کی سہولتیں فراہم کرے تو اس سے شعبہ سیاحت کی آمدن میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس طرف بھرپور توجہ دے کیونکہ دنیا میں بہت سے ممالک کی آمدن کا بڑا ذریعہ سیاحت ہے، اور وہ اپنے ملک کے زیادہ تر اخراجات اسی شعبے سے پورا کرتے ہیں ۔

دنیا کے تین بڑے گلیشیئرز

بیافو گلیشیئر: یہ67 کلومیٹر بڑا ہے جو کوہ قراقرم میں واقع ہے۔ یہ آگے جا کر ایک اور بڑے گلیشیئر سے ملتا ہے جس سے پولر ریجن کے باہر دنیا کا سب سے بڑا گلیشیل سسٹم بنتا ہے، قطبین کے باہر یہ دنیا کا تیسرا بڑا گلیشیئر ہے ۔

بلتورو گلیشیئر : یہ 62 کلومیٹر طویل ہے جو کوہ قراقرم میں واقع ہے۔ کے ٹو بھی اسی گلیشیئر میں واقع ہے ۔ یہاں سے برالدو دریا نکلتا ہے جو دریائے سندھ میں گرتا ہے۔

بتورا گلیشیئر: یہ 54کلومیٹر طویل ہے جو وادی بتورا اور گوجل میں واقع ہے ۔ اس کا شمار قطبین کے باہر بڑے اور طویل گلیشیئرز میں ہوتا ہے ۔

آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ کہسار
پوری دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے پانچ گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔

یہاں کی سب سے بلند چوٹی کے ٹو ہے جو مائونٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی دوسری بلند چوٹی ہے، اس کی بلندی 8611 میٹر ہے ۔ یہ پاکستان اور چین کی سرحد پر کوہ قراقرم میں واقع ہے ۔ اسے سردیوں میں ابھی تک سر نہیں کیا جا سکا۔

نانگا پربت یہاں کی دوسری اور دنیا کی 9ویں بلند ترین چوٹی ہے اس کی بلندی 8126 میٹر ہے ۔ یہ کوہ ہمالیہ کا حصہ ہے، اسے سر کرنا بہت مشکل ہے، اب تک درجنوں کوہ پیما اسے سر کرتے ہوئے اپنی جان سے گزر چکے ہیں ، اسی لئے اسے کلر مائونٹین بھی کہتے ہیں ۔ اسے بھی سردیوں میں سر نہیں کیا جا سکا۔

گاشر برم ون یہاں کی تیسری اور دنیا کی گیارھویں بلند ترین چوٹی ہے اس کی بلندی 8080 میٹر ہے، یہ کوہ قراقرام کا حصہ ہے۔

بروڈ پیک یہاں کی چوتھی اوردنیا کی بارھویں بلند ترین چوٹی ہے ، اس کی بلندی 8051 میٹر ہے۔ یہ کوہ قراقرم میں پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔
گاشر برم ٹو یہاں کی پانچویں اور دنیا کی تیرھویں بلند ترین چوٹی ہے، اس کی بلندی 8034 میٹر ہے۔ یہ بھی کوہ قراقرم میں پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔

گلگت بلتستان کی مشہور جھیلیں
شائوسر جھیل: یہ سکردو کے دیو سائی پارک میں واقع ہے ، سطح سمندر سے 4142 میٹر بلند ہے اس کی لمبائی 2.3 کلومیٹر اور چوڑائی 1.8کلومیٹر ہے اور گہرائی تقریباً 40کلومیٹر ہے ۔

ستپارہ جھیل : یہ سکردو کے قریب ہے، سکردو کو پانی فراہم کرتی ہے ۔ سطح سمندر سے 2636 میٹر بلند ہے، 2.5 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے ۔
کچورہ جھیل : یہ جھیل سکردو میں واقع ہے، یہ 8200 فٹ چوڑی اور سطح سمندر سے 2500 میٹر بلند ہے، یہ کوہ قراقرم میں واقع ہے، اس کے دوحصے اپر کچورہ جھیل اور لوئر کچورہ جھیل ہیں ۔

ضربا تسائو جھیل : یہ سکردو میں واقع ہے ۔
فروق تسائو جھیل: یہ بھی سکردو میں واقع ہے۔

خرفک جھیل : یہ بلتستان میں خرفک میں واقع ہے ۔ یہ مچھلیوں کی مختلف اقسام کی وجہ سے مشہور ہے ۔
بیارسا تسائو جھیل : یہ استور کے علاقے گلناری میں ہے۔

بورتھ جھیل: ہنزہ کے علاقے گوجل میں ہے ۔ یہ سطح سمندر سے 2600 میٹر بلند ہے۔
راماجھیل : یہ استور کے قریب واقع ہے ، سطح سمندر سے 3300 میٹر بلند ہے ۔

رش جھیل : وادی نگر میں رش پری پیک کے قریب واقع ہے ، یہ سطح سمندر سے 4694 میٹر بلند ہے ۔
کرومیز جھیل : ضلع غذر میں واقع ہے۔

برودروکش جھیل : یہ ضلع نگر میں وادی بار میں واقع ہے۔
غوروشی جھیل : وادی غندوس میں ضلع گھرمنگ میں واقع ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔