ہمارا جرنیل سری لنکا میں

سری لنکا اس خطے میں پاکستان کا سب سے بڑا دوست ہے اور یہ دوستی محض زبانی کلامی اور کاغذی نہیں ہے


Abdul Qadir Hassan June 10, 2015
[email protected]

پاکستان کے ارد گرد کے ممالک جو ''سارک'' کے ادارے کے نام سے پہچانے جاتے ہیں ان میں بھارت سب سے بڑا ملک ہے اور المیہ یہ ہے کہ دوسرے چھوٹے ممالک اپنی سلامتی کے لیے پاکستان کی امید اور سہارے پر جیتے ہیں جو بھارت کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے اور وہ اس کا اظہار کھلے بندوں کرتے ہیں کیونکہ یہ سب بھارت کے ڈسے ہوئے ہیں اور ہر وقت بھارتی جارحیت سے دوچار رہتے ہیں۔

انہیں اپنی سلامتی صرف پاکستان میں دکھائی دیتی ہے۔ ان ممالک میں سری لنکا پاکستان کا سب سے بڑا دوست ہے اور ایک چھوٹا سا جزیرہ ہونے کے باوجود بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا دم بھرتا ہے۔ یاد آتا ہے کہ جب ایک بار بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات اس قدر بگڑ گئے کہ بھارت نے اپنی فضائی سرحدیں پاکستان پر بند کر دیں تو ان دنوں مشرقی پاکستان کے لیے ہماری فضائی پروازیں کولمبو کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ڈھاکا جایا کرتی تھیں۔ سری لنکا کو پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی پروا نہیں تھی جب کہ یہ خوبصورت ملک بھارت کی جارحیت کا ڈسا ہوا تھا۔

بھارت نے اس کے خلاف دہشت گردی شروع کر رکھی تھی اور تامل ناڈو کے ذریعے اس نے سری لنکا کو سخت پریشان کر رکھا تھا لیکن پاکستان سری لنکا کی ہر مدد پر تیار تھا۔ تب سے اب تک سری لنکا اس خطے میں پاکستان کا سب سے بڑا دوست ہے اور یہ دوستی محض زبانی کلامی اور کاغذی نہیں ہے۔

صدر ضیاء الحق کو احساس تھا کہ ہمارا دوست سری لنکا جو ایک پرامن مذہب کا پیروکار ہے فوج نہیں رکھتا۔ بدھ مت میں تو کسی کا خون بہانا خواہ وہ جانور اور کیڑا مکوڑا ہی کیوں نہ ہو جائز نہیں ہے۔ صدر ضیاء نے سری لنکا کے لیڈروں کو قائل کر لیا کہ وہ بھارت سے بچاؤ کے لیے فوج کے محتاج ہیں اور انہیں فوج رکھنی پڑے گی۔ سری لنکا کے ایک دورے میں صدر ضیاء نے باتوں باتوں میں بتایا کہ سری لنکا فوج رکھنے پر قائل ہو گیا ہے اور فوج کے قیام میں پاکستان اس ملک کی مکمل اور بھرپور مدد کرے گا۔

آج جب ہمارے سپہ سالار اور ہر دلعزیز جرنیل سری لنکا کے دورے پر گئے ہیں تو وہاں انہوں نے پاکستان میں تربیت پانے والے فوجیوں سے خاص طور پر ملاقات کی اور یقیناً سری لنکا کے سیاسی اور فوجی لیڈروں سے اس خطے کی سیاسی و فوجی صورت حال پر سیر حاصل گفتگو کی ہو گی۔ ہمارا دشمن ایک ہی ہے جو پاکستان کا کھل کر مگر سری لنکا کا نیم مخالف ہے اور ان دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے حالات خوب یاد ہیں۔ پاکستان نے سری لنکا کو بھارتی دہشت گردی سے نجات دلانے کی زبردست کوشش کی تھی اور سری لنکا کے شہریوں کو یہ سب معلوم ہے اور یاد ہے چنانچہ جب بھی سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا اس ملک کے شہریوں کے رویے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ انھیں اپنے دوست کے احسانات یاد ہیں۔

سری لنکا ایک سیاحتی ملک ہے اور یہاں سال بھر سیاح جمع رہتے ہیں بھارت نے دہشت گردی کے ذریعے سری لنکا کی سیاحت پر کاری ضرب لگائی۔ ایسی ہی ایک ضرب بھارت نے پاکستان کا دورہ کرنے والی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر بھی لگائی تھی اور برسوں تک پاکستان غیر ملکی کرکٹ سے محروم رہا اب جا کر کہیں سخت محنت کے بعد پاکستان کے راستے کھلے ہیں اور عالمی کرکٹ کے میچ اب پاکستان میں بھی ہوں گے لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا دشمن کس قدر کمینہ ہے اور کس حد تک جا سکتا ہے۔

ان دنوں تو اس کی زبان اس قدر کھل گئی ہے کہ اس کا جواب صرف ایک فوجی شریف راحیل شریف ہی دے سکتا ہے اور وہ جس طرح کی دفاعی پالیسیوں پر چل رہا ہے بھارت کو اس سے سخت پریشانی ہے بھارت رقبے اور آبادی اور فوجی سازو سامان پاکستان سے بظاہر کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو مگر کوئی بھارتی فرد کسی پاکستانی سے بڑا نہیں ہے اور اب تو ہم نے بھارت کا ہر زعم توڑ دیا ہے۔ ہم بھارت سے فنی اعتبار سے بہتر ایٹمی طاقت ہیں اور اگر ہم بھارت کے نشانے پر ہیں تو بھارت کا چپہ چپہ بھی ہماری دستبرد میں ہے۔

ایک زمانہ تھا اور وہ اب بھی ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک چیف کے مطابق ہم پورے بھارت میں تباہی مچا سکتے ہیں اور بھارت کو اس سے خبردار کر چکے ہیں کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے اور کوئی بچگانہ حرکت نہ کر بیٹھے۔ پاکستان جانتا ہے کہ اس کی سلامتی اس کے حتمی نوعیت کے دفاع میں ہے۔ بہر کیف ہمارے جرنیل نے نہایت ہی مناسب اور موزوں وقت پر سری لنکا کا دورہ کر کے بھارت کو بہت تکلیف دی ہے۔

جس کا اظہار بھارتی وزیراعظم کی زبان پر ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یوں لگتا ہے جیسے بھارت نے پاکستان پر چڑھائی کر دی ہے اور اب اس کا کوئی اور نہیں خود وزیراعظم دھمکیاں دے رہا ہے۔ بھارتی لیڈروں کے بیان پڑھ سن کر یوں لگتا ہے جیسے انھیں کوئی سخت قسم کی تکلیف پہنچ چکی ہے۔

میں ایک پاکستانی کے طور پر اس کی ہر بات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ ان دنوں ہم بھارت کے ساتھ پیار و محبت کے افسانوں اور خواہشوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کا یہ تاریخی بیان ریکارڈ پر ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی کو شدید رنج تھا کہ ہمارے حکمران بھارت کے عقیدت مندوں کی حیثیت سے بھارت سے دوستی اور تجارت کا راگ کیوں الاپ رہے ہیں۔

11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد میاں محمد نواز شریف کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ''عوام نے مسلم لیگ (ن) کو بھارت سے دوستی اور تجارت کے لیے ووٹ دیے ہیں''۔ اب تک اس تلخ بیان کی کوئی وضاحت یا تردید نہیں آئی بلکہ جناب وزیراعظم تو بھارت کے دورے پر بھارت کے ایک بڑے صنعت کار سے ملے اور اس ملاقات کے لیے اپنا بیٹا بھی خصوصی طور پر لندن سے بلا لیا تھا۔ بہر کیف اب بھارت کے جارحانہ نشانے پر یہ ملک اب محترم میاں صاحب کے پاس ہے مجھے ذاتی طور پر یقین ہے کہ میاں صاحب ایک سچے پاکستانی ہیں لیکن انھوں نے اپنے گرد و پیش میں کئی بھارتی شردھالو جمع کر رکھے ہیں پھر بھی امید یہی ہے وہ جلد ان سے جان چھڑا لیں گے۔

یہ باتیں ہمارے سپہ سالار کے ایک دوست ملک کے دورے سے یاد آئی ہیں جس کے ساتھ ہمارے خصوصی فوجی تعلقات بھی ہیں۔ صدر ضیاء کی باتیں بھی یاد آ گئیں جو سری لنکا میں فوج کے قیام کے بارے میں تھیں۔ بھارت کو ہمارے ان تعلقات سے سخت تکلیف ہے اور تو اور دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال بھی پاکستان کی خاص دوست ہے۔ بھارت کے مقابلے میں یہ چھوٹا پاکستان بھارت کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔

مقبول خبریں