میں کون ہوں؟

عمر قاضی  پير 29 جون 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

جس شہر کی گرم لو میں پندرہ سو انسانوں کی زندگی کی لو بجھ گئی! اس شہر کا مرثیہ لکھنے کے لیے ایک کالم نویس کی نہیں بلکہ ایک شاعر کی ضرورت ہے! مگر سخن وری کے قحط میں ہم وہ فیض احمد فیض کہاں سے لائیں؟ جس نے لکھا تھا کہ:

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا!

گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دیوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا

ہم تو اس دور میں اس ابن انشا کو بھی نہیں لا سکتے جس کو اس شہر سے عشق تھا، جو اس شہر سے کبھی ناراض ہوکر نکل جاتا اور پیچھے لکھ جاتا:

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں
کیوں بن میں جا بسرام کریں

مگر پھر وہ لوٹ آتا۔ اس شہر میں اس طرح جس طرح کوئی شام ڈھلے اپنے گھر کو لوٹ آتا ہے!

یہ شہر جو اس وقت ایک شمشان بن چکا ہے۔ یہ شہر کبھی گھر تھا! وہ گھر جس کی بالکنیوں میں پھولوں کے پاس تتلیوں جیسی لڑکیاں سڑک سے گزرنے والوں پر خاموش نظروں سے الفت کے تیر چلاتی تھیں۔ وہ سڑکیں جو کسی آزاد خیال انسان کے تصور کی طرح کشادہ ہوا کرتی تھیں۔ وہ سڑکیں جہاں کوئی ’’پی کے‘‘ نکلتا تھا تو اس کو راہ کا سہارا مل جاتا تھا۔ وہ شہر کہاں ہے رات گئے جس کی سنسان سڑکوں پر کوئی راہی گیت گاتا جاتا تھا۔ اب تو اس شہر کے روڈوں پر سماعتوں پر تشدد کرنے والے سائرن بجتے رہتے ہیں۔ یہ شہر جو کبھی ایک مدھر موسیقی تھا۔ اب یہ شہر ایک چیخ بن چکا ہے!!

اگر تاریخ کی کوئی عدالت ہوتی تو یہ شہر ایک فریادی کی طرح آتا اور وقت کے منصف سے پوچھتا کہ میرا قصور کیا ہے؟ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ میں نے ہمیشہ باہر سے آنے والوں کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دیے۔ میں نے اس بات کا فرق نہیں رکھا کہ کوئی کہاں سے آیا؟ سرحد پار سے یا اس ملک کے صحرائی علاقے سے؟ وہ پہاڑوں کو عبور کرکے پہنچا یا اس نے میدانوں کا طویل سفر کیا؟ میرے پاس جو بھی آیا میں اس کی پیاس بجھانے کے لیے پیالہ بنا۔ اس کی بھوک مٹانے کے لیے نوالہ بنا۔ اس کو سپنوں کی سیر کرانے کے لیے بستر بنا۔ میں نے اس کی ہر ضرورت پوری کی! ہر ضرورت کا مطلب؟ ہر ضرورت!! ہر جذباتی اور نفسیاتی ضرورت!! میں نے اس کو اپنی آغوش میں محبت بھی دی اور عزت بھی بخشی! میںنے یہاں آنے والوں سے اجنبیت کا احساس بھی لے لیا اور اس کو پرسکون ساحل دیا۔ سمندر کی نیلی لہریں دیں۔ بھیگی ریت دی۔ پیار کرنے والی بانہیں دیں۔ سرگوشی کرنے والے ہونٹ دیے اور بادلوں سے چھنتی ہوئی دھوپ میں بھی اس کو زلفوں کے سائے دیے!

اور یہ بات صرف مردوں تک محدود نہیں۔ میں نے یہاں آنے والی عورتوں کو آزادی دی۔ تحفظ دیا۔ وفا دی اور وہ چھت دی جہاں سے شہر کا منظر بہت خوبصورت نظر آتا تھا۔ میں نے ان عورتوں کو گلابی دھوپ دی اور ان کے زرد رخساروں میں شوخیوں کی لالی بھری۔ میں نے ان عورتوں کو وعدے نہیں بلکہ ان کی آغوش میں بچے دیے! مسکراتے بچے!! زندگی کا حسین روپ!!

اور میں نے بچوں کو چلنے کے لیے دھرتی دی۔ کھیلنے کے لیے گلیاں دیں۔ پڑھنے کے لیے اسکول دیے۔ وہ اور بڑے ہوئے تو میں نے ان کے لیے ان کالجوں کا اہتمام کیا جہاں انھوں نے اور بہت سی باتوں کے ساتھ عشق کا علم بھی حاصل کیا۔

میں نے بزرگوں کو سہارا دیا۔ انھیں اس عمر میں بھی حسن کو ٹھیک سے دیکھنے کے لیے چشمے دیے! انھیں بیماری میں دوا دی۔ پریشانی میں دلداری دی۔ انھیں یادیں دیں۔ پیار دیا، وقار دیا اور انھیں یہ اعتبار دیا کہ رشتے پھر بھی رشتے ہوتے ہیں۔

میں نے اس شہر کے غریبوں کو کیا کچھ نہیں دیا۔ وہ جو خالی ہاتھ آئے انھیں بلند مکانات دیے۔ وہ جو بیروزگار بھٹکتے تھے انھیں میں نے دفاتر عطا کیے!

اور صرف عام لوگوں کو ہی نہیں بلکہ میں نے اس شہر کے خاص لوگوں کو وہ ماحول دیا جہاں وہ بیٹھ کر کافی پیتے اور سیاست سے لے کر ادب تک ہر مسئلے پر دل کھول کر لکھتے۔ وہ لوگ جن کے پاس پان چبانے کے پیسے نہ تھے میں نے انھیں اخبارات کا مالک بنا دیا۔ اور صحافیوں کو میں نے تحفظ دیا۔ ان کے قلم کو آزادی عطا کی۔ ان کے پریس کلب میں پھول کھلائے اور انھیں شہر کی شناخت کا رتبہ دیا۔

اور جس جس نے کوئی اچھا کام کیا میں نے اس کا نام اپنی سڑکوں پر رکھ دیا۔ میں نے ان کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کے موت کے بعد بھی ان سے ناانصافی نہیں کی۔ میں نے کسی کے پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا۔ میں نے کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا۔ میں نے کسی کو نہیں لوٹا۔ میں نے کسی کی خوشیوں کو آگ نہیں لگائی۔ میں نے سب کے ساتھ عاشقی والا سلوک کیا۔ میں نے سب سے محبت کی۔ میں نے محبت کو حسن کے ساتھ مشروط بھی نہیں رکھا۔ میں نے ہر لڑکی کو لیلیٰ اور لڑکے کو مجنوں ہونے کا حق دیا۔ میں نے شاعروں کو وہ کیفیت عطا کی کہ انھوں نے ایسے گیت لکھے کہ:

’’تو کہاں چلی گئی تھی… تیرا بیقرار انشا… تیری جستجو میں حیراں… تیری یاد میں سلگتا… کبھی بستیوں بنوں میں… کبھی سوئے کوہ صحرا… کبھی بے کسا نہ تنہا… لیے دید کی تمنا… بنا آرزو سراپا… تجھے ہر جگہ پکارا… تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہارا… تو کہ روح زندگی تھی… تو کہاں چلی گئی تھی‘‘

آج میں خود یہ نظم بن چکا ہوں۔ میں کراچی ہوں۔ میں اپنے آپ کو کھو چکا ہوں۔ میں اپنے آپ کو تلاش کر رہا ہوں۔ مجھے اپنا پتہ نہیں مل رہا۔ میں کیا تھا؟ میں کیا ہوگیا ہوں؟ میں اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتا ہوں تو خود کو پہچان نہیں پاتا۔ اور اپنے دریدہ دامن میں دیکھتا ہوں تو سوائے خون کے چھینٹوں اور آنسوؤں کی نمی کے سوا مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔

میں نے سب کو شناخت دی۔ سب کو پتہ دیا۔ اب کوئی میری مدد کرو۔ مجھے بتاؤ کہ میں کون ہوں؟

کیا میں ایک دہشت گرد ہوں جو روپوشی کی زندگی جی رہا ہے؟

یا میں کوئی پولیس کا مخبر ہوں جس کو نہیں معلوم کہ اس کا اصل نام کیا ہے؟

یا میں کوئی پرندہ ہوں جو زخمی ہے اور جس کا آشیانہ جل چکا ہے؟

کیا میں ایک صحافی ہوں جو ٹارگیٹ کلنگ کے بعد خود ایک خبر بن چکا ہے؟

یا میں کوئی گیت ہوں جو اپنے مغنی کی تلاش میں بھٹک رہا ہے؟

یا میں پروین شاکر کے الفاظ میں:

’’ایک ایسی بیسوا ہوں… جس کے ساتھ … صحراؤں پہاڑوں اور میدانوں سے آنے والا… ہر سائز کے بٹوے کا آدمی رات گزارتا ہے… اور صبح کو اس کے ایک گال پر تھپڑ رسید کرتا ہے… دوسرے گال کی تمنا کرتے ہوئے… کام پر نکل جاتا ہے… آنے والی رات کے مسرور کن احساس کے ساتھ!!‘‘

’’یا میںاس گمنام شخص کی لاش ہوں… جو گرمی کی وجہ سے مرا… اور اس کو کئی دنوں کے انتظار کے بعد… ایدھی کے رضاکاروں نے… اجتماعی قبر میں دفن کردیا!!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔