’وہ ہار جس نے جیت کو ہار میں بدلا‘

شاید یوسف رضا گیلانی نے تسبیح سمجھ کر ہار اپنے پاس رکھ لیا تھا یا پھر وہ خود کو اس عطیے کے زیادہ مستحق سمجھتے ہوں۔


انعم احسن July 01, 2015
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اس حرکت کی وجہ سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے ،فوٹو:فائل

سرمئی شام نے بنگال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، اندھیرے کے سائے گلیوں میں گہرے ہورہے تھے۔ رات کے اس پہر بنگال کی تاریکی میں ڈوبے خستہ حال گھر مزید پُراسرار لگ رہے تھے۔ بیٹی نے ستاروں بھرے آسمان پر نظر ڈالتے ہوئے ماں سے پوچھا، اماں! اگر ترکی بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے چلاگیا تو مسلمان کہاں جائیں گے؟ کیا ہم اس کے لئے کچھ کرسکتے ہیں؟ کیا ہم پر جہاد فرض ہوگیا ہے؟ ماں نے بیٹی کے معصومانہ مگر درد بھرے سوال کے جواب میں کہا نہیں بیٹی ہم تو اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، خلافت کی مدد کر سکتے ہیں چندے کے ذریعے، انہیں مالی تعاون دے سکتے ہیں، مگر ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، کہاں سے لائیں گے یہ سوچ اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی؟ ماں رائے دیتے ہی گہری سوچ میں ڈوب گئی، مگر بیٹی فوراً بولی، اماں میرے لئے جو آپ نے طلائی چوڑیاں اور گہنے بنوائے تھے وہی دے دیتے ہیں۔

یہ جنگ عظیم اول کے دوران بنگال ہی نہیں برصغیر کے ہر مسلم گھر کی مشترکہ سوچ بنی ہوئی تھی، خلافت مرکز اسلامیہ سے مسلمانوں کی قلبی وابستگی، جذباتی لگاؤ اور گہری عشق و محبت تھی، خلافت کا قیام اسکی بقاء اور اسکے استحکام کو مسلمانانِ عالم نے ہمیشہ اپنا مذہبی فریضہ جانا۔ 1941ء سے قبل اس نے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کا پورا سامان کر لیا تھا۔ مصر پر انگریز کا آہنی پنجہ گڑا ہوا تھا۔ ایران، روس اور برطانیہ کا غلام ہوچکا تھا۔ مراکش پر فرانس قابض تھا۔ ترکی طرابلس الغرب کا صوبہ افریقہ کھوچکا تھا اورایک مردِ بیمار کی طرح اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ترکی اور کل یورپ سے قریب پانچ سو سال کی جنگ سب کے سامنے تھی اور مسلمان بجا طور پر یہ سمجھتا تھا کہ اگر خلافت عثمانیہ کا یہ جھلملاتا ہوا چراغ گل ہوگیا تو مسلمانوں کا وقار دنیا میں باقی نا رہے گا۔ جنگ بلقان اور جنگ طرابلس میں مسلمانان ہند نے جو جوش اور ولولہ، ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا تھا وہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ خلافت کا زوال مسلمانوں کی برداشت سے باہر ہے۔ یورپ نے ہمیشہ ترکی سے جنگ مذہبی بنیاد پر کی اور ان کو مسلمانوں کا پیشوا اورمحافظ قرار دیا۔

اس طرح مسلمانان عالم کے دِل میں یہ بات گھر کرگئی کہ ترکی کی بقاء اسلام کی بقاء اور ترکی کا زوال اسلام کا زوال ہے۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے وہ خلافت اسلامیہ اور حکومتِ ترکی کے ساتھ دامے درمے قدمے سخنے شریک رہا۔ 1897ء میں یونان کی جنگ شروع کرنے پر اور 1921ء میں بلقان کی جنگ کے موقع پر مسلمانان ہند نے چندہ اکٹھا کرکے ترکوں کی مدد کی تھی۔ ترکی کا معاملہ مسلمانوں نے ہمیشہ تحفظ اسلام اور تحفظ خلافت مرکز اسلامیہ کو سمجھ کر اپنے مذہب، اپنی زندگی اور اپنے وجود و بقاء کا معاملہ سمجھا۔یہ وہ وقت تھا جب پہلی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کو محفوظ کرنے کیلئے برصضیر کی مسلم خواتین نے دینی جوش و جذبے سے سرشار ہوکر اپنے مسلم بہن بھائیوں کو نقد رقم اور اپنے زیورات دیکر ترکی کی امداد کی تھی۔ اس اقدام کا ترکی کے مسلمانوں پر بہت گہرا اثر ہوا اور انہوں نے اپنے نصاب میں خصوصاً برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اس قربانی کا ذکر کیا جس میں خواتین کی جانب سے زیورات دینے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک مسلمان پاکستان کے مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور پاکستانی قوم کیلئے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔وہ اپنے اس عقیدت کا اظہار وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔

اکتوبر 2005ء میں جب پاکستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا تو ہنستی مسکراتی صبح نے اچانک قیامت کا روپ دھار لیا۔ اس زلزلے نے کشمیر اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے بالائی علاقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے، ہزاروں افراد زخمی ہوئے اور لاکھوں افراد کو بے گھری کا عذاب سہنا پڑا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا نا قابلِ فراموش زلزلہ تھا۔ اسی دوران جب ترکی میں پاکستانی سفارتخانے میں امداد کی غرض سے کیمپ لگایا گیا تو اس کیمپ میں یہ دیکھا گیا کہ ترک خواتین اپنے زیورات دینے کے لئے پاکستانی سفارتخانے کا رخ کرتی تھیں جہاں انہیں بتایا جاتا تھا کہ زیورات کے بجائے وہ نقد رقوم بطور امداد دیں لیکن ان کا اصرار ہوتا تھا کہ ہم پاکستان کے مسلمانوں کی قربانی کو نہیں بھلا سکتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے زیورات دے کر ان کے ساتھ اپنی مذہبی عقیدت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ خواتین کو زیورات سے بہت محبت ہوتی ہے لیکن پاکستانی اور ترک خواتین نے اپنے جذبہ ایثار دکھا کر یہ ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کے لئے زیورات کی کوئی قیمت نہیں۔

اسی طرح ترک خاتون اول نے 2010ء میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کیلیے وہ قیمتی ہارعطیہ کیا جو ان کی شادی والے دن ان کے شوہر یعنی طیب اردگان نے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اگر وہ چاہتیں تو وہ اپنا بیش قیمت ہار بیچ کر بھی نقد رقم سیلاب کے متاثرین کے لئے دے سکتی تھیں لیکن انہوں نے پاکستانی قوم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ انہیں زیور سے زیادہ پاکستان کے مسلمانوں سے محبت ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے بھی اسی عقیدت کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنا زیور عطیہ کیا تھا۔

انہوں نے وہ ہار اس وقت سیلاب زدگان کیلئے عطیہ کردیا جب وہ طیب اردگان اور سید یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ سندھ کے ایک فنڈ ریلیف کیمپ میں گئیں جہاں انہیں پتا چلا کہ آٹھ جوڑوں کی شادیاں ہو رہی ہیں۔ اس ہار کی مالیت کے برابر رقم شادی شدہ جوڑوں میں تقسیم کردی گئی اور ہار سید صاحب کے حوالے کردیا تاکہ اسے وزیراعظم ہاوس میں پاک ترک دوستی کی علامت کے طور پر رکھا جائے۔ لیکن پھر خبر آئی کے وہ ہار کہیں گم ہوگیا ہے، اسی طرح جیسے ہمارے ملک سے بجلی، گاڑی سے سی این جی، موٹر سائیکل سے پٹرول، چولہوں سے گیس، نلکوں سے پانی اور ہمارے حکمرانوں کا ضمیر۔

خیر ہار کی تلاش شروع کردی گئی، عین اُس وقت جب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی اے کو حکم دیا کے وہ ہار کی گمشدگی کی تحقیقات کریں تو انکشاف ہوا کہ ہار مل گیا ہے۔ سید صاحب نے اقرار کیا کہ وہ ہار انہی کے پاس ہے۔ شاید موصوف نے تسبیح سمجھ کر ہار اپنے پاس رکھ لیا تھا یا پھر ہوسکتا ہے وہ خود کو اس عطیے کے زیادہ مستحق سمجھتے ہوں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس خوبصورت اور ایمان افروز تاریخ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس ہار پر قبضہ جمائے رکھا۔ کتنے افسوس کی بات ہے پاکستان کی شبیہہ کو ہمارے کرپٹ حکمران ہی بیرونی دنیا میں مجروح کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بدترین کرپٹ اور نااہل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ابھی تک اپنی پرانی روش پرقائم ہیں۔ سابق وزیراعظم کی اس حرکت کی وجہ سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ حکمرانوں میں دولت کی ہوس کب ختم ہوگی لیکن جناب سید صاحب کاش کے آپ ہار کو پاس نہ رکھتے، کچھ عزت سادات کا خیال رکھتے یا کم ازکم پاکستان کے وقار کو مجروح نہ کرتے۔ جناب مرشد ذرا غور فرمائیں اگر یہ خبر ترک عوام تک پہنچ گئی جو کہ پاکستانی عوام کے قصیدے گاتی ہے تو ان کے دل پر کیا گزرے گی؟ اور ذرا یہ بھی غور فرمائیں کہ اِس حرکت کے بعد پاکستانی عوام آپ کو کن الفاظ میں یاد رکھیں گے؟

[poll id="517"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

مقبول خبریں