جنگ کی چند یادیں

کسی دشمن کا وار تازہ ہو یا صدیوں پرانا زندہ قوموں کو کبھی بھول نہیں سکتا۔


Abdul Qadir Hassan September 08, 2015
[email protected]

MULTAN: کسی دشمن کا وار تازہ ہو یا صدیوں پرانا زندہ قوموں کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ کوئی نصف صدی پہلے بے وقوف بھارت نے پاکستان پر بلاوجہ باقاعدہ حملہ کر دیا۔ وہ اپنی فوج لے کر آیا اور پاکستان کی حدوں کے اندر گھس آیا اور پھر اس کی حماقت پر اس کے ساتھ اس قوم نے جو سلوک کیا وہ اسے ہمیشہ یاد رہے گا۔ حملہ آور ہمیشہ زبردست طاقت لے کر حملہ کرتا ہے۔

بھارت نے بھی یہی کیا لیکن ہمارے جرنیل اور سربراہ نے اس سے کہا کہ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ تم نے کس قوم کو للکارا ہے، حملہ آور کی فوجی طاقت ناکام ہو گئی جس طاقت نے جنگی روایات کے مطابق فتح یاب ہونا تھا وہ ناکام لوٹ گئی۔ ایک تو اس کا یہ حملہ ہی ناجائز تھا دوسرے وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے کس قوم کو للکارا تھا وہ قوم جو میدان جنگ میں زیادہ سے زیادہ شہید ہو کر ایک نئی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیض یاب ہوتی ہے، یہ بات کوئی غیر مسلم قوم نہیں سمجھ سکتی۔

بہر کیف اب جب ہم اس جنگ کا پچاس سالہ جشن منا رہے ہیں اور دشمن کو ایک بار پھر اس کی کسی نئی حماقت پر متنبہ کر رہے ہیں اور للکار رہے ہیں تاکہ وہ اب اپنے ایسے نقصان سے باز آ جائے جو اس کی برداشت سے باہر ہو۔ خدا نہ کرے کہ اب ہمیں اس کی پچاس سالہ پہلے کی حماقت کی سزا بھی دینی پڑ جائے اور کسی نئی حماقت کی بھی۔ ہمیں تو جنگ میں سرسبز درختوں عمر رسیدہ انسانوں اور بچوں عورتوں کو بھی قتل کی اجازت نہیں، ہم کسی قوم کو کس طرح نیست و نابود کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں اب کسی بھارتی حماقت کی سزا جس ہتھیار سے دینی ہوگی وہ انسانی تاریخ کا مہلک ترین ہتھیار ہے۔ ہم تو کسی قوم کو تباہ کرنے کے الزام سے بچنا چاہتے ہیں۔ اس کی تباہی سے کوئی تمغہ حاصل کرنا نہیں چاہتے۔

ہر پاکستانی کے حافظے میں 65ء کی جنگ کی کوئی نہ کوئی یاد زندہ ہے۔ مجھے اس میں قدرے برتری حاصل رہی جنگ کے بعد اس جنگ میں ہماری فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل نور خان تھے اور مجھ پر مہربان تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ جنگ سے پہلے ہمیں بھنک پڑی کہ بھارتی ہمارے خلاف جنگ کرنے والے ہیں۔ چنانچہ میں فوراً ہی جی ایچ کیو پہنچا اور بری فوج سے پوچھا کہ اس افواہ میں کہاں تک سچ ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ سچ ہے اور بھارت حملہ کرنے والا ہے۔

میں فوراً ہی واپس ائر ہیڈ کوارٹر پہنچا اور اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے صورت حال سے آگاہ کیا مشورے سے طے یہ ہوا کہ بھارتی ائر فورس کو جہاں وہ ہے وہیں ختم کر دیا جائے، اسے ہوا میں اڑنے نہ دیا جائے چنانچہ یہی ہوا۔ ہمارے ماہر اور شیر دل ہوا بازوں نے نقشے سامنے رکھے اور بھارتی ائر فورس کے اڈوں کو آپس میں تقسیم کر لیا اور پھر ان کے ہاں تباہی مچا دی۔ بھارتی ائر فورس کو ناکارہ کر دیا گیا جو جہاز بچ گیا ہماری فضاؤں میں ہمارا شکار بن گیا۔

ایک لطیفہ میں نے اپنے علاقے میں سنا کہ ہمارے قریب ہی شہر مٹھہ ٹوانہ کا بھی ایک ہندو پائلٹ تھا جو جہاز لے کر اپنے ساتھیوں کی ٹولی میں وادی سون کے ہوائی اڈے سکیسر کی تلاش میں نکلا مگر خدا نے اسے اندھا کر دیا کہ وہ سکیسر کے اوپر اڑتے ہوئے شور مچاتا رہا کہ کہاں ہے بلڈی سکیسر اور سکیسر کا پتہ نہ پا کر لوٹ گیا۔ سکیسر اور مٹھہ ٹوانہ میں کوئی ہوائی فاصلہ ہے ہی نہیں لیکن اس سے یہ فاصلہ طے نہ ہو سکا۔

اس اچانک جنگ میں کچھ فوجی جو چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے لوگوں نے دیکھا کہ رات ریڈیو پر جنگ کی خبر پا کر وہ صبح سویرے سڑک پر آ کر بیٹھ گئے اور جو بس ملی اس سے میدان جنگ کی تلاش میں روانہ ہو گئے۔ یہ ان کا احساس فرض تھا اور وطن کی حفاظت کا جذبہ کہ وہ گھروں میں بیٹھ نہ سکے۔ بعد میں ان میں سے بعض نے بتایا کہ انھیں اپنے یونٹ تلاش کرنے میں کتنی محنت کرنی پڑی کہ ہر کوئی میدان جنگ میں تھا لیکن وہ جوں توں کر کے میدان جنگ میں اپنی اپنی یونٹ میں پہنچ ہی گئے۔ ایسے سپاہیوں کو شکست کون دے سکتا ہے۔

ایک بات جو ہر پاکستانی کے دل میں تھی وہ فتح کی آرزو تھی خوف ہر گز نہیں تھا۔ عورتیں گھروں میں دعائیں کر رہی تھیں اور اپنے عزیزوں کو پیغام بھجوا رہی تھیں کہ ہم خیریت سے ہیں کہ ہماری فکر نہ کرو دشمن کی خبر لو ہمارے دیہات میں دشمن کا جو تصور ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ مثلاً مرحوم و مغفور ائر مارشل نور خان نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ جب ان کی اپنے ساتھیوں سے مشاورتی ملاقات ہوئی تو انھوں نے شدت جذبات میں آ کر کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی دشمن ہمارے سامنے ہم پر حملہ آور ہونے کی جرات کر سکے، اس پر کئی ہوا بازوں نے کہا کہ دشمن زندہ ہو گا تو ہمارے سامنے آئے گا ۔

یہی وہ جذبہ تھا کہ بھارت کی ائر فورس کے پر کتر دیے گئے۔ ہمارے ہوا باز جلدی میں تھے لیکن وہ مشکل نشانوں پر پہلے جانے کے لیے آپس میں لڑ بھی رہے تھے۔ جب یہ فضاؤں میں بلند ہوئے تو یوں لگا جیسے قدرت نے یہ فضائیں ان کو سونپ دی ہیں اور وہ ان کے مالک ہیں۔ ان ہوا بازوں کا لیڈر بذات خود ایک مجاہد ہوا باز تھا جو پاکستان میں کسی دشمن کو برداشت نہیں کر سکتا تھا اس کے ساتھی اس سے زیادہ تیز تھے۔ بہر کیف وہ اپنے اپنے مشن میں کامیاب رہے۔

پاکستان کی ائر فورس ائر مارشل اصغر خان نے تیار کی تھی ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نور خان آئے۔ یہ دونوں کسی دشمن کے لیے زندہ موت تھے۔ 65ء کی جنگ میں یہ دونوں حاضر تھے۔ نور خان کے پاس فوج کا چارج تھا۔ اصغر خان کے پاس ان کی تیار کی ہوئی فوج تھی۔ ان دونوں پاکستانی جرنیلوں نے دشمن کی ائر فورس کو ختم کر دیا اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ان کے سامنے دشمن کے جلتے ہوئے جہاز تھے اور ان سے اٹھتا ہوا دھواں۔

مقبول خبریں