وزیر اعظم اور چڑیا گھر کا ہاتھی

اب تو ہاتھی ہمارے لیے ایک تماشا بن گیا ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ ہاتھی کی سواری کسی کی شان و شوکت بڑھا دیتی تھی


Abdul Qadir Hassan September 19, 2015
[email protected]

ایک بہت ہی پرانی مثل ہے کہ حکمران رعایا کے مائی باپ ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران یعنی وزیر اعظم نے مدتوں پرانی اس مثل کو سچ کر دکھایا ہے اور انسان تو کیا انھوں نے چڑیا گھروں میں بند ہاتھیوں کو بھی بڑے پیار سے یاد کیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ لاہور چڑیا گھر کے ایک غیر ملکی ہاتھی کی دیکھ بھال پوری توجہ کے ساتھ نہیں کی جا رہی جو ایک قابل اعتراض بات ہے اس لیے اس پر فوراً توجہ کی جائے۔

اس سلسلے میں جناب وزیر اعظم نے کئی ہدایات بھی جاری کی ہیں گویا اب یہ تو یقینی ہے کہ اس ہاتھی کے دن پھر گئے ہیں اور اب وہ محض ایک نمائشی جانور نہیں بلکہ ایک اثاثہ بن کر موجود رہے گا اور ہمارے بچے اسے دیکھ کر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کریں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ ملک کے سب سے بڑے حکمران نے ایک پسماندہ قیدی اور پردیسی ہاتھی کی حالت پر توجہ دی ہے۔ میں ایک مدت سے چڑیا گھر نہیں گیا اور کسی دوسرے قیدی جانور کی حالت بیان نہیں کر سکتا اور نہ ہی وزیر اعظم کی اس طرف توجہ دلا سکتا ہوں۔

چڑیا گھر کے جانور بچوں کی تفریح کے لیے رکھے جاتے ہیں اور اس سے ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ جانور اپنی روزی خود ہی کماتے ہیں اور جو خبریں چھپتی ہیں ان کے مطابق یہ خاصے رئیس بھی ہوتے ہیں لیکن بہر حال ایک ہاتھی کی دیکھ بھال کوئی مذاق نہیں اس کا پیٹ بھرنا بے حد مشکل کام ہے اور اس کو بروقت پانی پلانا بھی بہت اہم ہے ہاتھی کو تو نہلانا بھی آسان نہیں ہوتا اور وہ خوش ہو کر اگر نہلانے والے پر پانی کا فوارہ چھوڑ دے تو یہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے بعض دیگر مشکلات بھی درپیش ہوتی ہیں لیکن چڑیا گھر کے کارکن ان پر قابو پا لیتے ہیں اور اپنے چڑیا گھر کی رونق کے لیے ہاتھی کو سرگرم رکھتے ہیں جو اپنے محدود دائرے میں گھوم پھر لیتا ہے اور یوں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں والی بات بن جاتی ہے۔

اب تو ہاتھی ہمارے لیے ایک تماشا بن گیا ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ ہاتھی کی سواری کسی کی شان و شوکت بڑھا دیتی تھی۔ ہاتھی کا رکھنا بھی ایک بہت ہی مہنگا سودا ہوتا تھا پھر اس کو سواری کے وقت بلانا بھی ہر ایک کا کام نہیں ہوتا اس لیے ایک سوار ہوتا ہے جو لوہے کا چابک رکھتا ہے اور اس کا سرا چبھو کر ہاتھی کو صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ ہاتھی چلانے والے سوار اور اس کے چابک وغیرہ کے لیے باقاعدہ اصطلاحات ہیں لیکن میں آپ کو اس مشکل میں نہیں ڈالتا۔

جیسا کہ عرض کیا ہے ہاتھی حکمرانوں اور اشرافیہ کی سواری تھی۔ ایران کے حضرت اعلیٰ نادر شاہ درانی کو ہمارے ہندوستانی بادشاہ نے خصوصی عزت یا خوشامد کے ساتھ اپنے ہاتھی پر سواری کی دعوت دی یہ فاتح اس عجیب و غریب سواری پر بیٹھ گیا اور کہا کہ اس کی لگام اور چابک مجھے دیا جائے تا کہ میں اسے اپنی مرضی سے چلا سکوں اس پر بتایا کہ حضور اس کو چلانے والے الگ لوگ ہوتے ہیں جو مہاوت کہلاتے ہیں اور وہی اسے درست راستے پر لے جاتے ہیں۔

یہ سن کر نادر شاہ اس سواری سے یہ کہہ کر اتر گیا کہ جس سواری کی باگ میرے ہاتھ میں نہ ہو میں اس پر کیسے بیٹھ سکتا ہوں لیکن ہاتھی کی سواری بعد میں بھی مقبول رہی اور راجے مہاراجے اس پر سواری کرتے رہے اور ان کے محلات کے اونچے دروازوں سے ہاتھی گزرتے رہے اور جھومتے رہے۔ ہاتھی ایک ایسا جانور ہے جس کا ذکر تاریخ میں بارہا ملتا ہے۔

کعبہ پر حملہ کرنے کے لیے جو بدنصیب چلا تھا اس کے پاس یہی ہاتھی تھے جو ابابیلوں کے کنکروں سے تباہ ہو گئے اور پاکستان میں سکندر اور راجہ پورس کی لڑائی میں بھی ہاتھی کا بڑا کردار تھا۔ برطانوی دور سے پہلے ہندوستان میں ہاتھی جھومتے تھے لیکن بعد میں نہ وہ راجے مہاراجے رہے نہ وہ شان و شوکت والے اشرافیہ چنانچہ رفتہ رفتہ ہاتھی حویلیوں سے نکل کر چڑیا گھروں میں پہنچ گئے جہاں عوام کے بچے ان پر سواری کرتے ہیں اور ان کی ہیبت ناک شکل و صورت کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔

ہاتھی اور اس کے ساتھی جانوروں کے چڑیا گھر کا صحافت سے بھی ایک خاص تعلق رہا ہے۔ رپورٹروں میں مشہور تھا کہ خبر نہ ملے تو چڑیا گھر چلے جاؤ وہاں کے جانوروں کی حالت اور ان کے تماشائیوں سے کوئی خبر ضرور مل جائے گی اب تو خبروں کے سورس بہت بدل اور پھیل گئے ہیں لیکن چڑیا گھر سے خبر اب بھی مل سکتی ہے البتہ چڑیا گھر کی خبر بنانے کے لیے ایک ذہین اور تیز نگاہ رپورٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔

خبروں کے ذکر سے یاد آیا کہ اب تو میں دیکھتا ہوں کہ خبروں کی تلاش کا سلسلہ کچھ ماند پڑتا جا رہا ہے۔ خبر خود چل کر آ جائے تو دوسری بات ہے جو آج کے دور میں سیاستدان خبریں لیے پھرتے رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی خبر ایک سیاستدان نے دی میاں صاحب جو سب سے کامیاب سیاستدان ہیں ایک کامیاب خبر ساز بھی بن گئے ہیں۔

مقبول خبریں