بذلہ سنجی حاضر جوابی

رئیس فاطمہ  جمعرات 24 ستمبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

خلیفہ ہارون رشید نے ایک دن اپنے وزیر باتدبیر سے پوچھا کہ دنیا میں سب سے اچھی اور سب سے بری کیا شے ہے؟ وزیر نے جواب دیا ’’حضور والا! زبان۔‘‘ وہ کس طرح خلیفہ نے پوچھا تو عقل مند وزیر نے کہا کہ انسان کے جسم میں زبان وہ واحد عضو ہے جو دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا دیتی ہے۔ خلیفہ نے کوئی ثبوت مانگا تو وزیر نے کہا کہ کبھی نہ کبھی وہ ثبوت ضرور پیش کرے گا تاکہ خلیفہ کو اس بات پہ یقین آجائے۔ اتفاق سے کچھ دن بعد خلیفہ نے ایک خواب دیکھا کہ اس کے تمام دانت گر گئے ہیں۔

اس نے ایک عالم کو بلوایا اور خواب کی تعبیر پوچھی تو عالم نے بلاتامل کہا کہ ’’اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے تمام رشتے دار آپ کے سامنے مرجائیں گے۔‘‘ خلیفہ نے طیش میں آکر عالم کو زندان میں ڈلوادیا۔ اور پھر کسی دوسرے عالم کو بلوایا۔ اس نے تحمل سے خواب سنا اور مسکرا کر کہا کہ ’’حضور والا کا اقبال بلند ہو۔ آپ لمبی عمر پائیں گے، آپ کی عمر آپ کے تمام رشتے داروں سے زیادہ ہوگی، اللہ تعالیٰ کا کرم ہوگا آپ پر۔‘‘ خلیفہ یہ جواب سن کر خوش بھی ہوا اور مطمئن بھی، عالم کو انعام واکرام دے کر نوازا گیا۔ اس وقت وہ وزیر بھی وہاں موجود تھا۔

اس نے خلیفہ سے اجازت لے کر کہا کہ اس نے جو بات بہت پہلے کہی تھی آج اس کا ثبوت خود بخود مہیا ہوگیا ہے۔ وہ اس طرح کہ خلیفہ کے خواب کی تعبیر تو ایک ہی تھی لیکن دونوں عالموں کے بات کہنے کا انداز الگ تھا۔جس کی وجہ سے ایک زندان میں پہنچ گیا اور دوسرا انعام و اکرام لے کر گیا۔ کہ خلیفہ کی عمراس کے عزیزوں سے زیادہ ہوگی۔ خلیفہ وزیر کی دانائی کا قائل ہوگیا اور اس نے پہلے والے عالم کو بھی قید سے آزاد کرکے کہا کہ علم اپنی جگہ، لیکن اس کا اظہار اور پیرایہ بیان بات کا رنگ بدل دیتا ہے۔ سیف الدین سیف کا ایک شعر ہے:

سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات‘ نئی بات نہیں

پہلے زبان دانی پہ بہت زور دیا جاتا تھا کہ انسان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نہ صرف اس کی تہذیب بلکہ نسب بھی ظاہر کرتے ہیں۔ شعرا اور ادبا میں جب نوک جھونک ہوتی تھی تو نہایت معنی خیز بامحاورہ زبان میں بڑی سے بڑی بات کہہ دی جاتی تھی جب کہ آج ہم اپنے سیاست دانوں کی جہالت اورکم علمی کی بدولت ہر وقت ایسے فقرے اور جملے سنتے رہتے ہیں جو ایک مہذب معاشرے کے فرد کو زیب نہیں دیتے۔ بعض اوقات صرف اچھے اور برمحل الفاظ کا استعمال فساد کو بڑھنے نہیں دیتا۔ البتہ کم فہم اورکمزور مطالعے کے افراد اس خوبی سے عاری ہوتے ہیں۔

الفاظ کے چناؤ اوراس کے برمحل الفاظ کے استعمال کی ایک بڑی مثال خواجہ حافظ شیرازی اور تیمور لنگ کی ملاقات کا واقعہ ہے۔ حافظ کا ایک مشہور شعر ہے:

اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا
بخالِ ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را

امیر تیمور جب خراساں و فارس پامال کرتا ہوا شیراز پہنچا تو اس نے حافظ کو دربار میں طلب کیا، دوران گفتگو اس نے حافظ سے پوچھا کہ میں نے تو سالہا سال کی محنت اور جنگ کے بعد سمرقند و بخارا فتح کیا تھا۔ تم نے اسے اپنے محبوب کے چہرے کے سیاہ تل پہ قربان کردیا۔ یعنی تم نے محبوب کے قرب پر دونوں شہر نچھاور کردیے۔

حافظ ان دنوں بہت بیمار تھے۔ لیکن سامنے امیر تیمور تھا حد ادب بھی لازم تھا اور جواب بھی دینا تھا۔ لہٰذا حافظ نے نہایت حاضر جوابی سے جواب دیا ’’حضور! انھی غلط بخشیوں اور فیاضیوں کی بنا پر تو ان حالوں کو پہنچا ہوں۔‘‘ تیمور حافظ کی بذلہ سنجی سے بہت محظوظ ہوا اور اس کے دل سے ساری کدورت جاتی رہی۔

حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں اکبر الٰہ آبادی بہت شہرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے ایک دوست نے انھیں ایک ایسی ٹوپی پیش کی جس پر ’’قل ھو اللہ‘‘ کڑھا ہوا تھا، اکبر نے ٹوپی کو دیکھتے ہی کہا، ’’بھئی! بہت عمدہ۔ کسی دعوت میں کھانا ملنے میں دیر ہو جائے تو یہ ٹوپی پہن لو۔ سب سمجھ لیں گے کہ انتڑیاں قل ھو اللہ پڑھ رہی ہیں۔‘‘

اسی طرح ایک اور واقعہ بھی اکبرکی حاضر جوابی اور زبان دانی سے متعلق ہے۔ پنڈت موتی لعل نہرو جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے والد تھے ایک بار اکبر الٰہ آبادی سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے تو گھرکے باہر انھوں نے ’’عشرت منزل‘‘ کی تختی لگی دیکھی، عشرت اکبر الٰہ آبادی کے صاحبزادے تھے۔

پنڈت جی جب اندر آئے تو اکبر سے کہنے لگے ’’بھئی! ہمیں بھی کوئی اچھا سا نام بتاؤ گھر کے لیے۔ آپ نے اپنے گھر کا بہت اچھا نام رکھا ہے۔‘‘ اکبر نے برجستہ کہا ’’پنڈت جی! نئے نام کی کیا ضرورت ہے یہی نام لے لیجیے۔ یعنی عشرت منزل کی جگہ ’’آنند بھون‘‘۔ موتی لعل نہرو کو یہ نام اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اپنی رہائش گاہ کا یہی نام رکھ لیا۔

ریاست بھوپال کی نواب شاہ جہاں بیگم کے شوہر نواب صدیق حسن خاں کی خدمت میں ایک مولوی صاحب ملازمت کے امیدوار کی حیثیت سے آئے۔ نواب صاحب نے نام پوچھا تو انھوں نے جواب دیا ’’محمد مداح الدین قادری مجدّدی‘‘۔ نواب صاحب مسکرا کر بولے ’’آپ کے نام میں تو بہت سی دالیں ہیں۔‘‘ مولوی صاحب نے برجستہ کہا ’’سرکار! کوئی دال تو گل ہی جائے گی۔‘‘

نواب صاحب اس جواب سے بہت محظوظ ہوئے اور انھیں منشی کا عہدہ دے دیا۔ بامحاورہ زبان، بذلہ سنجی اور سخن فہمی دلی والوں کی زندگی میں یوں رچی بسی ہے کہ دلی کی پنواڑنیں اور منیھارنیں تک زبان کے معاملے میں یکتا تھیں۔ ایک بار حضرت داغ دہلوی اپنے ساتھیوں سمیت ’’پھول والوں کی سیر‘‘ میں گئے۔ داغ پان بہت کھاتے تھے۔

دوران سیر انھیں ایک نوجوان پنواڑن کی سجی سجائی دکان نظر آئی۔ یہ اس کی طرف لپکے اور پنواڑن سے بولے ’’بی پنواڑن! دس پان لگانا۔‘‘ پنواڑن کا جنم دلی کی گلیوں میں ہوا تھا۔ اسے یہ تو پتہ نہیں تھا کہ غالب کون ہے۔ لیکن اسے جملہ غیر فصیح لگا۔ اس نے اپنی جوتی کی نوک کو ہاتھ لگایا اور بولی ’’کیا فرمایا، کتنے لگاؤں؟‘‘

مرزا داغ جھینپ گئے اور پنواڑن سے صحیح محاورہ سن کر پھڑک گئے ’’اور سنبھل کر بولے ’’دس پان بنانا۔‘‘

واپس آکر انھوں نے اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو پنواڑن کی بامحاورہ زبان کے بارے میں بتایا جس نے ایک استاد شاعر کی زبان کی اصلاح کس خوبصورتی سے بغیر کسی تنبیہہ کے کردی تھی۔ تب کسی نے کہا کہ ’’صحیح محاورہ اور روزمرہ کے لیے صرف عالموں اور شعرا حضرات کی محفل ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے بازاروں اور گلی کوچوں کی سیر بھی ضروری ہے‘‘ خلیفہ ہارون رشید کے بیٹے امین کو شعر کہنے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ ملکہ زبیدہ نے شاہی دربارکے ملک الشعرا اور خلیفہ کے نہایت قریبی ساتھی ابونواس کو شہزادے کی شعرگوئی کی اصلاح پہ مامور کیا۔

ابو نواس انتہائی درجے کا بذلہ سنج اور ستم ظریف انسان تھا اورکسی سے مرعوب نہیں ہوتا تھا۔ نڈر اور بے باک اتنا کہ برملا خلیفہ کی غلط باتوں پہ اسے ٹوک دیتا تھا۔ چنانچہ اس نے جب شہزادے امین کی شاعری دیکھی تو اس میں عروض کی بے شمار غلطیاں تھیں۔ اس نے اشعار میں عروض کی تمام غلطیاں نکال کر شہزادے کے سامنے رکھ دیں۔ شہزادے کو طیش آگیا اور اس نے ابونواس کو قید کروا دیا۔ ہارون رشید کو پتا چلا تو اس نے رہائی دلوائی۔ اور پھر کچھ دن بعد بھرے دربار میں جب امین بھی موجود تھا تو خلیفہ نے بیٹے سے کہا ’’تمہارے استاد بیٹھے ہیں، کچھ تازہ شعر سناؤ!‘‘ شہزادے نے ابھی دو چار شعر ہی پڑھے تھے کہ ابونواس محفل سے اٹھ کھڑا ہوا۔ خلیفہ نے پوچھا ’’ابونواس! کدھر جا رہے ہو؟‘‘

ابونواس بولا ’’قید خانے۔‘‘

امیر تیمور لنگڑا کر چلتا تھا، اسی لیے اسے تیمور لنگ کہا جاتا تھا۔ اس نے جب سمرقند فتح کیا تو گرفتار مردوں اور عورتوں میں ایک اندھی عورت بھی تھی۔ تیمور کے سامنے جب وہ لائی گئی تو اس نے پوچھا ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘ عورت بولی ’’میرا نام دولت ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔