بذلہ سنجی اور حاضر جوابی

رئیس فاطمہ  جمعرات 1 اکتوبر 2015
عذاب الٰہی کی پیشن گوئی کرنے والی بے شمار علامتیں ہیں

عذاب الٰہی کی پیشن گوئی کرنے والی بے شمار علامتیں ہیں

24 ستمبر کا کالم دو حصوں پر مشتمل تھا۔ جن قارئین نے اس تشنگی کو محسوس کیا، اپنی ای میل اور SMS سے اس جانب توجہ دلائی ان سب کا بہت بہت شکریہ۔ لیجیے کالم کا بقیہ حصہ حاضر ہے۔

امیر تیمور کے دربار میں قیدیوں میں شامل ایک اندھی عورت کو پیش کیا گیا اور تیمور نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا۔

’’میرا نام دولت ہے۔‘‘

تیمور لنگ نام سن کر ہنسا اور بولا ’’کیا دولت اندھی بھی ہوتی ہے؟‘‘

عورت نے نڈر ہوکر برجستہ جواب دیا ’’اگر اندھی نہ ہوتی تو لنگڑے کے گھرکیوں آتی؟‘‘

ایک بار برطانیہ کے وزیر اعظم لائڈ جارج پارلیمنٹ میں تقریرکر رہے تھے، تقریر کے دوران جوش خطابت میں بولتے چلے گئے ’’ہم ڈنمارک اور ناروے کی آزادی کے لیے لڑیں گے۔ ہم عوام کی خاطر سوئٹزرلینڈ کی آزادی کے لیے بھی لڑیں گے۔‘‘ انھوں نے اس طرح کئی ممالک کے نام گنوا دیے۔ حزب اختلاف کے سربراہ نے طولانی تقریر سے جھلا کرکہا ’’اور ہم جہنم کی آزادی کے لیے بھی لڑیں گے۔‘‘

’’ضرور۔۔۔ضرور۔‘‘ لائڈ جارج مسکراتے ہوئے اسی لہجے میں بولے۔’’ہر شخص کو اپنے وطن کی آزادی کی فکر ہونی چاہیے۔‘‘

لائڈ جارج برطانیہ کی ایک مشہور شخصیت تھے۔ ان کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ انتہائی اشتعال کے عالم میں بھی طیش اور غصے میں نہیں آتے تھے اور توازن برقرار رکھتے تھے۔ الیکشن کا زمانہ تھا۔ انتخابی جلسے عروج پر تھے۔ لائڈ جارج بھی اپنی انتخابی مہم زورشور سے چلا رہا تھا۔ ایک دن وہ کسی جلسے میں لوگوں سے خطاب کر رہا تھا کہ دوران تقریر ایک عورت جو لائڈ سے سخت نفرت کرتی تھی اچانک کھڑی ہوگئی اور جارج کو مخاطب کرکے بولی ’’سنو! اگر میں تمہاری بیوی ہوتی تو تمہیں زہر دے دیتی۔‘‘ ظاہر ہے یہ فقرہ لائڈ جارج ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کو مشتعل کر دینے کو کافی تھا جو جارج کو پسند کرتے تھے۔

جلسے میں سناٹا چھاگیا اور یوں لگا کہ اب برہم ہوکر لائڈ کیا جواب دیتا ہے۔ لیکن لائڈ جارج نے مسکرا کر اس خاتون کو مخاطب کیا اور شگفتگی سے بولا ’’محترم خاتون! اگر میں تمہارا شوہر ہوتا تو اس زہرکو خوشی سے پی جاتا۔‘‘ لائڈ جارج کے اس فقرے نے تمام حاضرین کو اس کا طرف دار بنا دیا اور وہ اپنی خوش مزاجی اور حاضر جوابی کی بنا پر بہت زیادہ ووٹ لے کرکامیاب ہوا۔

ایک امریکی سیاح شملہ کانفرنس کے دوران قائد اعظم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ وہاں آکر اسے پتا چلا کہ محمد علی جناح آدھی آدھی رات تک اپنے کمرے میں بیٹھے کام کرتے رہتے ہیں۔ دوران ملاقات اس نے قائد اعظم سے پوچھا کہ ’’کانگریس کے تمام لیڈر اس وقت سو چکے ہیں، لیکن آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔‘‘

قائد نے مسکرا کر جواب دیا ’’جی ہاں! کانگریس کے لیڈر اس لیے سو رہے ہیں کہ ان کی قوم جاگتی ہے۔ اور مجھے اس لیے جاگنا پڑتا ہے کہ میری قوم سو رہی ہے۔‘‘

ایک بار قائد اعظم سے کسی صاحب نے پوچھا ’’آپ شیعہ ہیں یا سنی؟‘‘ قائد اعظم نے جواب میں الٹا انھی حضرت سے سوال کر ڈالا ’’حضرت محمد مصطفیٰؐ مذہباً کیا تھے؟‘‘ اس شخص نے کہا ’’مسلمان۔‘‘

قائد اعظم نے جواب دیا ’’میں بھی مسلمان ہوں۔‘‘

شاہ ایڈورڈ ہفتم کی ولی عہدی کا زمانہ تھا،انھوں نے اپنی والدہ ملکہ وکٹوریہ کو ایک خط لکھ کر ان سے پانچ پونڈ طلب کیے۔ ملکہ نے رقم بھیجنے کے بجائے ایک لمبا چوڑا خط بیٹے کو لکھا جس میں فضول خرچی اورکفایت شعاری کا فرق اور فائدے بتائے گئے تھے۔ ایک ہفتے بعد ولی عہد نے ماں کا شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ اب اسے پانچ پونڈ کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے ملکہ کا خط بیس پونڈ میں فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلی ہے۔

ایک بار نواب مرزا داغ دہلوی کے گھر ان کے ایک شاگرد مستجاب خاں خلیق ملنے کے لیے آئے تو دیکھا کہ استاد مغرب کی نماز پڑھ رہے ہیں، وہ واپس جانے کے لیے مڑے تو داغ نے سلام پھیرا اور قریب بیٹھے ہوئے نوح ناروی سے کہا ’’انھیں بلایے!‘‘ وہ آئے تو کہنے لگے ’’آکر واپس جانے کی بھلا کیا ضرورت تھی، میں نماز پڑھ رہا تھا، لاحول تو نہیں پڑھ رہا تھا۔‘‘

سر شیخ عبدالقادر بھی بلا کے حاضر جواب تھے، ایک بار لندن میں پنڈت نہرو کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا،اس میں دیگر معزز مہمانوں کے ساتھ ڈیوک آف ونڈسر اور شیخ عبدالقادر بھی مدعو تھے۔ کھانا شروع ہوا تو ڈیوک آف ونڈسر نے چھری اور کانٹے سے کھانا کھاتے ہوئے سر عبدالقادر پہ چوٹ کی۔’’سر عبدالقادر! تمہارے مسلمان اب بھی ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں؟‘‘ سر عبدالقادر فوراً بولے ’’جی ہاں جناب! بالکل اسی طرح جس طرح حضرت عیسیٰ کھایا کرتے تھے۔‘‘

ایک مرتبہ مولانا محمد علی جوہر عربی لباس پہن کر ایک اجلاس میں شریک ہونے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات سردار ولبھ بھائی پٹیل سے ہوئی۔ سردار صاحب نے مولانا کا تعارف ایک انگریز سے کروایا، انگریز نے مولانا کے عربی لباس کو بغور دیکھا اورکہا ’’آپ تو اس لباس میں پورے عرب معلوم ہو رہے ہیں۔‘‘ اس پر مولانا نے برجستہ کہا ’’میں چودہ برس تک انگریزی لباس پہنتا رہا لیکن کسی نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ ’’آپ انگریز معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ آج میں نے اپنا مذہبی لباس پہنا تو آپ کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی؟‘‘

ایران کا بادشاہ نوشیروان اور اس کا وزیر اعظم بزرجمہر کسی ویرانے میں درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ بزرجمہر کو خدا نے جانوروں کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔ اسی درخت پر دو الّو آکر بیٹھ گئے اور آپس میں بولنے لگے، جب کافی دیر تک وہ درخت پہ بیٹھے بولتے رہے تو نوشیروان نے بزرچمہر سے پوچھا کہ ’’یہ پرندے کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘

اس نے کہا ’’یہ دونوں آپس میں رشتہ کرنا چاہتے ہیں،لیکن بیٹی کا باپ لڑکے کے باپ سے دس ویران بستیاں مانگ رہا ہے۔‘‘ نوشیروان نے پوچھا ’’پھر؟آگے کہو ۔‘‘

بزرجمہر نے کہا ’’وہ بات گستاخی کی ہے، اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔‘‘

نوشیروان نے جان بخشی کا وعدہ کیا تو وزیر نے کہا۔’’دوسرا اُلّو کہہ رہا ہے کہ یہ کون سی بڑی بات ہے، جب تک نوشیروان اس ملک کا بادشاہ ہے، اجڑی بستیوں کی کیا کمی ہے۔ تم دس مانگ رہے ہو میں سو دینے کو تیار ہوں۔‘‘

نوشیروان یہ سن کر لرزگیا، پرندوں کی بات کو غیبی تنبیہہ سمجھا اوراس دن سے ایسا بدلا اورعدل و انصاف کا بول بالا کیا کہ ’’عادل‘‘ اس کے نام کا حصہ بن گیا اور تاریخ میں ’’نوشیروان عادل‘‘ کے نام سے امر ہوگیا۔ اس کی وفات 579 عیسوی میں ضرور ہوئی، لیکن تا ابد نیک نامی محض عدل و انصاف اور رعایا کی خیر خواہی کی بدولت نصیب ہوئی۔

سوال یہ ہے کہ آج کوئی پاکستانی حکمراں نہ خدا سے ڈرتا ہے، نہ عذاب الٰہی سے، جہاں تک دانش مند وزیروں کی بات ہے تو ان کی نسل بھی بزرجمہر کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ کیا آج کے دور میں کوئی وزیر، کوئی اینکر کوئی میزبان، کوئی تجزیہ کار، کوئی کالم نویس، کوئی رکن اسمبلی موجودہ لیڈروں کے سامنے حق بات کہنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ ہر گز نہیں کہ پہلے بادشاہوں کے ظلم اور بے انصافیوں سے بستیاں ویران ہوجاتی تھیں۔

اب یہ انسانی بستیاں، بم دھماکوں، ڈینگی بخار، کانگو وائرس، جعلی ادویات، ملاوٹ شدہ غذاؤں، مذہبی انتہا پسندی، غلاظت، گندگی اور تعصب کے ذریعے ایک خودکار نظام کے تحت تباہ و برباد ہو رہی ہیں۔ عذاب الٰہی کی پیشن گوئی کرنے والی بے شمار علامتیں ہیں، لیکن انھیں سمجھنے اور سمجھانے والا کوئی بزرجمہر نہیں، اور نہ ہی نوشیروان جیسا خوف خدا سے لرز اور ڈر کر ظلم و بے انصافی سے توبہ کرنے والا بادشاہ موجود ہے جو ’’عادل‘‘ کہلایا اب جو ہیں وہ ان طاغوتی قوتوں کے نرغے میں ہیں جنھوں نے سب کو ’’مایا جال‘‘ میں پھنسایا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔