وادی لڑم ٹاپ کی رعنائیاں

اگر آپ کوہ نورد اور ایڈونچر کے شوقین ہیں تو قدرتی حسن سے بھرپور ’’وادی لڑم ٹاپ“ دلبرانہ خاموشی سے آپ کی منتظر ہے۔


عبدالستار کشف October 26, 2015
اس کی اونچائی کا اندازہ آپ اس طرح لگاسکتے ہیں کے اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے سوات، پشاور ،دیر بالا، باجوڑ اور افغانستان کے بعض علاقے با آسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ فوٹو: عبدالستار کشف

KARACHI: یوں تو مالاکنڈ ڈویژن کی پُر بہار وادیاں سیر و سیاحت کے حوالے سے معروف ہیں، لیکن دیر کی فلک پوش چوٹیوں میں گم "وادی لڑم" فطرت کی رعنایوں اور سحر آبگیں مناظر کے ساتھ ساتھ جغرافیائی اور تاریخی سیاسی اور سیاحتی لحاظ سے ایک الگ پس منظر بھی رکھتی ہے۔





فطرت کی رعنائیوں سے بھرپور اس وادی میں چکدرہ سے صرف 45 منٹ میں پہنچا جاسکتا ہے۔ اپنی خوبصورتی اور رعنائیوں کی وجہ سے یہ وادی انگریز دور سے ہی خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ انگریز خاتون "مس لرم" کے نام کی نسبت شہرت پانے والا "لڑم ٹاپ" سطح سمندر سے تقریباً 9 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔





تاریخ کے مطابق یہ 3 ہزار سال قبل وسطی ایشیاء اور افغانستان تک جانے کے لئے ایک اہم ترین گذرگاہ تھی، جبکہ سکندرِ اعظم، مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے بھی یہاں قیام کیا، تقسیم ہند سے قبل انگریزوں نے لڑم ٹاپ پر اس کے جیوسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر یہاں ایک قلعہ تعمیرکیا تھا، جس کے آثار آج تک موجود ہیں۔ تاہم ریاست دیر کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد اس طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ وادی سیاحتی مرکز کی حیثیت سے شہرت حاصل نہ کرسکی۔





یہ وادی بنیادی طور پر دو دروّں پر مشتمل ہے، دیر کے نوابوں اور ان کے مہمانوں کی شکار گاہ بھی رہی اور بعد میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے جب یہاں کا خصوصی دورہ کیا اور سیاحتی مرکز بنانے کیلئے مختلف منصوبوں کو زیر غور لایا گیا اور بعد میں شکار کی غرض سے یہیں آیا کرتے تھے۔ حسین نظاروں کا یہ مسکن آب و ہوا کے لحاظ سے کسی بھی طور ملک کے مشہور سیاحتی مراکز کالام، مری یا ناران وغیرہ سے کم نہیں، کیونکہ یہاں ہر سال کئی کئی فٹ برف باری ہوتی ہے، دسمبر سے اپریل تک یہاں کی پہاڑیاں برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ جون اور جولائی میں جہاں ملک کے دوسرے حصوں میں موسم کافی گرم ہوتا ہے، یہاں انتہائی خوشگوار اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور گرمیوں کی راتوں میں بھی لحاف اوڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔





اس کی اونچائی کا اندازہ آپ اس طرح لگاسکتے ہیں کے اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے سوات، پشاور، دیر بالا، باجوڑ اور افغانستان کے بعض علاقے با آسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ افغان روس لڑائی کے دوران یہاں پاک آرمی نے ریڈار نصب کئے تھے جس کی عمارت آج بھی موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس کا دوسرا نام "ریڈار ٹاپ" بھی ہے۔ البتہ تمام سیلولر کمپنیوں نے اپنے ٹاورز یہاں نصب کر رکھے ہیں یہیں سے پورے مالاکنڈ ڈویژن کو مواصلاتی نظام سے جوڑا جاتا ہے۔ گو کہ سیاحت دنیا بھر میں روزگار کے حوالے سے سب سے بڑی صنعت بن گئی ہے لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ حکومت کی عدم توجہی کے سبب لڑم ٹاپ پر نا ہی سیاحوں کیلئے ٹرانسپورٹ کا معقول انتظام ہے اور نہ ہی رکنے اور کھانے پینے کی سہولت۔ سڑک کی حالت بھی ناگفتہ ہے۔ ایم ایم اے کے دور حکومت میں PTDCنے یہاں ایک ہوٹل بنایا تھا لیکن MMA کے حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اختیارات صوبائی حکومت کو منتقل ہونے کی وجہ سے اس کی ملکیت کا مسئلہ ہوا تو ہوٹل بھی ویران ہوگیا۔ البتہ مقامی طور پرائیوٹ گیسٹ ہاﺅس تعمیر ہوئے ہیں لیکن یہ گیسٹ ہاﺅس زاتی نوعیت کے ہونے کے سبب یہاں صرف خواص کی رسائی ہے، عام افراد کی دسترس میں نہیں۔ باقاعدہ کوئی ہوٹل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں آنے والوں کو اپنے کھانے پکانے کے انتظامات خود ہی کرنے ہوتے ہیں۔ جو سیاح اِن حقائق سے بے خبری میں یہاں کا رُخ کرتے ہیں وہ اکثر مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔



الغرض! اگر آپ قریب میں ہی مالم جبہ جیسی خوبصورتی، ناران جیسی آب و ہوا، شوگران اور سری پائے جیسے پہاڑوں کو بادلوں کے ساتھ اٹھکلیاں کرتے دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور آپ کوہ نورد اور ایڈونچر کے شوقین ہیں تو قدرتی حسن اور دلکشی سے بھرپور حسین نظاروں کا یہ مسکن ''وادی لڑم ٹاپ" دلبرانہ خاموشی سے آپ کی منتظر ہے۔

[poll id="732"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

مقبول خبریں