اربوں کھربوں کی گنتی
رشوت کا چلن کب نہیں ہوا جب سے نقد روپیہ شروع ہوا ہے تب سے رشوت بھی شروع ہوئی ہے
رشوت کا چلن کب نہیں ہوا جب سے نقد روپیہ شروع ہوا ہے تب سے رشوت بھی شروع ہوئی ہے لیکن ایک حد کے اندر، اگر رشوت سو دو سو سے بڑھ گئی تو حد ہو گئی لیکن داد دیجیے ہمارے اس دور کو جس میں رشوت سیکڑوں ہزاروں لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر اربوں کھربوں تک جا پہنچی کہ ہمارے جیسا عام آدمی دیہات کے اسکولوں میں پڑھا ہوا اربوں اور کھربوں کو روپوں میں تقسیم ہی نہیں کر سکتا۔
مولانا ندوی اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ میں نے سعودی عرب میں ایک بدو سے پوچھا کہ تمہیں گنتی آتی ہے تو اس نے کہا کہ ہاں آتی ہے میں نے کہا سناؤ چنانچہ وہ سو سے شروع ہوا اور گنتے گنتے ہزار تک پہنچ کر رک گیا۔ میں نے کہا اس سے آگے تو بولا اس سے آ گے تو فیصل کو ہی معلوم ہو گا۔
یہ شاہ فیصل کا زمانہ تھا تو ہمارا بھی یہی بدو والا حال ہے زیادہ سے زیادہ ایک ارب تک جا کر رک جاتے ہیں اس سے آگے ہمارے کسی وزیراعظم یا صدر صاحب کو معلوم ہو گا یا شاید اس کے کسی خاص وزیر کو بھی۔آج ہمارے اخبار کے پہلے صفحے پر خبر چھپی ہے کہ وزارت پانی و بجلی میں ساڑھے دس کھرب کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
سب سے پہلے تو داد دیجیے ان گنتی کرنے والوں کو جو ساڑھے دس کھرب تک جا پہنچے ہیں یا پھر اس سے بھی زیادہ ان کو جنہوں نے اتنی عظیم الشان رقم کو ڈھونڈ کر اس کا انکشاف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ انھوں نے باقاعدہ گنتی کی ہو گی تب یہ الزام لگایا ہو گا۔ اسی طرح اب ایک ارب روپوں کا گھپلا تو بڑی حد تک ایک معمول بن چکا ہے۔
بات کھربوں کی ہو تو خبر بنتی ہے ورنہ اخبار والے اب چھوٹی موٹی رقم یعنی ارب دو ارب کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اتنی سی رقم تو ایسے کئی سابق سرکاری افسروں یا وزیروں کے نام پر بھی موجود ہے جن کو مجبوراً جیل میں بند کیا گیا ہے ورنہ جس کی جیب میں اتنی رقم ہو اسے ہاتھ لگانے کی جرات کون کر سکتا ہے کیونکہ اب طاقت کسی عہدے میں نہیں بلکہ اس عہدے سے پیدا ہونے والی آمدنی میں ہے۔
رشوت ستانی کی تاریخ تو کسی محقق کو ہی معلوم ہو گی جس نے رشوت پر تحقیق کی ہو گی ہم لوگ تو صرف اخباری خبروں تک محدود رہتے ہیں کہ ہماری رسائی صرف ان تک ہی ہوتی ہے اگر زیادہ نہیں تو مہینہ دو مہینہ کے اخباروں کو ہی دیکھ لیں اور ان میں درج رشوت کے مقدمے گنتے جائیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کن سخی لوگوں کے درمیان رہتے ہیں اور آپ خود کتنے غریب اور مسکین ہیں۔ کسی بینکار کی طرح لاکھوں کروڑوں پر قلم مگر جیب میں ایڈوانس کی کانپتی ہوئی درخواست کہ نہ جانے یہ منظور ہوگی یا زیر غور چلی جائے گی۔
دراصل یہی وہ عدم مساوات ہے یا معاشی ناہمواری ہے جو کسی معاشرے کو ہلا دیتی ہے اور اس سے چین چھین لیتی ہے بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ اسی معاشی ناہمواری نے کمیونزم نام کے ایک نظریہ زندگی کو پیدا کیا ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک کمیونسٹ بلاک دوسرا سرمایہ دارانہ بلاک۔ ان کے درمیان دشمنی اب تک چلی آ رہی ہے جس کی بنیاد یہی معاشی تفاوت ہے اور ذرا گہرائی میں جائیں تو یہی امیر و غریب کا فرق بعض حالات میں ناقابل برداشت ہو جاتا ہے اور بڑھتے بڑھتے ایک تحریک بن جاتا ہے۔
غریبی ہو یا امیری دونوں کی ایک حد ہونی چاہیے اور ان کے درمیان تفاوت اس قدر واضح نہیں ہونا چاہیے جو آج کے معاشرے میں موجود ہے یہی تفاوت دنیا الٹ پلٹ کر دیتا ہے اور اسے اس قدر واضح نہیں ہونا چاہیے کہ برداشت سے باہر ہو جائے۔
امیری اور غریبی کے اس فرق کو اسلام نے سب سے زیادہ محسوس کیا ہے اس قدر کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ''غریبی انسان کو کفر تک لے جا سکتی ہے'' غریبی کی اس سے زیادہ مذمت نہیں کی جا سکتی۔ کفر اور ایمان دونوں کیفیتیں اسلام میں اس قدر اہم ہیں کہ اسلام کی ساری عمارت ہی انھی پر کھڑی ہے کوئی مسلمان ہے اور کوئی کافر۔ بیچ میں جو ہیں ان کو منافق کہا گیا ہے اور نفاق کفر سے زیادہ خطرناک ہے۔
رشوت... امارت اور غربت کی تفریق کو نمایاں کرتی ہے۔ کچھ لوگ دن رات محنت کرتے کرتے نڈھال ہو جاتے ہیں تب کہیں دو وقت کی روکھی سوکھی ملتی ہے لیکن ان کے سامنے ہی کچھ لوگ ناجائز کام کر کے اور اس کی رشوت لے کر بظاہر آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں یوں یہ رشوت ستانی معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے اور حلال کی روزی تو نہیں کرتی ہے، جس معاشرے میں رزق حلال معیوب بن جائے اس کا خدا ہی حافظ ہے۔
باقی تو صرف رشوت اور ناجائز حصول زر رہ جاتا ہے جو رشوت کے ذریعے حاصل ہو یا کسی چوری چکاری سے۔ انسانوں میں نیکی اور بدی کا معیار یہی رزق حلال اور حرام ہے جو حلال کھاتے ہیں وہ مشکلات سے ضرور گزرتے ہیں لیکن ذرا غور کریں تو دل کا اطمینان صرف انھیں ہی حاصل ہوتا ہے جب کہ رزق حرام کھانے والے ہر وقت کسی نہ کسی خطرے میں گھرے رہتے ہیں۔
ٹی وی پر اکثر دیکھتے ہیں کہ ہماری آپ کی دنیا کے رؤسا میں سے کوئی پولیس کے نرغے میں گرتا پڑتا جیل کی طرف چل رہا ہے تو کوئی عدالتوں میں اپنے بارے میں کسی فیصلے کا منتظر ہے جو اسے تباہ بھی کر سکتا ہے یہ سب اس لیے کہ کسی نے رزق حرام کھایا ہے اور حلال کو ترک کر کے حرام کو اختیار کیا ہے۔ ان لوگوں کو اربوں کھربوں کی گنتی تو معلوم ہے لیکن اعمال کی سزا کی گنتی معلوم نہیں۔ وہ ان کے بڑوں کو معلوم ہے جو بظاہر خوش و خرم ہیں مگر ان کے دلوں کا حال اور مستقبل اللہ جانتا ہے۔