کاغذی پیرہن

رئیس فاطمہ  اتوار 14 فروری 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ایک خاتون پروفیسر نے مجھے بتایا کہ جب انھوں نے ڈرائیونگ سیکھی تو لائسنس لینے کے بعد ایک جاننے والے کلینر کو ساتھ بٹھایا، تا کہ کہیں غلطی ہو تو وہ سنبھال لے اور ان کی پریکٹس بھی ہو جائے گی۔

ساتھ ہی انھوں نے اپنے ڈرائیونگ اسکول کا عطا کردہ لائسنس بھی ڈیش بورڈ پہ رکھ لیا۔ کلینر نے ادب سے لائسنس اٹھا کر اندر خانے میں رکھ دیا اور بولا۔ ’’میڈم گاڑی کاغذ سے نہیں، بلکہ مہارت اور تجربے سے چلتی ہے، چودہ دن کا لائسنس آپ کو ماہر ڈرائیور نہیں بنا سکتا۔‘‘ انھیں یہ جملہ بہت اچھا لگا اور کہنے لگیں کہ ’’یہی تو بدقسمتی ہے کہ سارا نظام کاغذوں پہ چل رہا ہے۔‘‘ ان کے جملے میں بلاغت تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ تعلیم سے لے کر تمام سرکاری اداروں تک میں جعلی ڈگری اور کاغذی سفارش نے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے۔

اسی میرٹ کے قتل عام نے نوجوان نسل میں مایوسی پیدا کر دی ہے۔ جب ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ برملا اور فخریہ کہہ سکتا ہے کہ ’’ڈگری تو ڈگری ہے، جعلی ہو یا اصلی۔‘‘ اس سے ان کی صدیوں پرانی سرداری سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ جس طرح دیمک قیمتی فرنیچر، لکڑی اور نادر کتابوں کو کھا جاتی ہے، اسی طرح منفی سوچ اور حکمرانوں کے ہتھکنڈے بھی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔

ذرا ایک نظر اپنے ریاستی ڈھانچے پہ ڈالیے، مغل شہنشاہوں والے شاہانہ جاہ و جلال کو مات کر دینے والے نقلی اور بناوٹی شان و شوکت کے مظاہرے دیکھیے، تو انگریز اور مغلوں کا دور ایک نعمت لگتا ہے۔ ہر پگڑی کے لیے سر بھی الگ ہوتا ہے۔ یہاں یہ حال ہے کہ بلونگڑوں کو شہزادہ جان عالم بنا دیا گیا ہے۔ جو کنیز بننے کے قابل بھی نہ تھیں انھیں شہزادی گلبدن بیگم بنانے کی تیاریاں ہیں۔ سر بہت چھوٹے ہیں، لیکن پگڑیاں بہت بڑی۔ چھوٹے چھوٹے دماغوں کا خلا کیسے پُر کریں؟

بقراطوں اور ’’دانش مند‘‘ وزیروں نے مشورے دیے کہ میٹرو بس چلاؤ، اورنج ٹرین لاؤ، موٹر وے بناؤ اور اپنے ’’عزیز و اقربا‘‘ کے علاقوں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے اسے وہاں سے خم دے دو، موڑ بنا دو جہاں ان کی ضرورت نہیں۔ بہت سے بہت کیا ہو گا؟ کچھ حادثے ہوں گے، کچھ لوگ مریں گے، جلال الدین محمد اکبر کے جانشین تو ہیلی کاپٹروں اور ذاتی جہازوں میں اڑتے پھرتے ہیں۔ انھیں کیا پرواہ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ صوبے کے تمام تر فنڈز اور ترقیاتی منصوبے صرف ایک شہرکے لیے؟

دعویٰ ’’اللہ کے فضل و کرم سے‘‘ عوامی لیڈر ہونے کا، ملک کی تقدیر بدلنے کا۔ جس کے لیے بیرونی دورے لازمی ہیں۔ کبھی غور کیا آپ نے کہ جب لوگ وزارتوں کے منصب پر ہوتے ہیں۔ ملک میں ہر سیاہ و سفید شے کے مالک ہوتے ہیں، تب پورے پورے خاندان کے ساتھ بیرونی دورے، ہنی مون، ناتوں نواسوں، پوتے پوتیوں کی شادیوں پر شاہانہ اخراجات۔ لیکن یہ وہ خزانے نہیں ہیں جو پرانے زمانے کے بادشاہ عوام کے لیے کھول دیتے تھے۔ ایسے میں کسی پیر مرد، کسی بزرگ کی دعا سے بادشاہ کی دلی مرادیں بھی پوری ہو جاتی تھیں اور رعایا کی دعاؤں سے بادشاہ کا خاندان بھی تاابد نیک نام رہتا تھا۔

بات کاغذی ڈگری سے چلی تھی، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سارا نظام محض کاغذی کارروائی پہ چل رہا ہے۔ یہاں پل، اسکول، کارخانے سب کاغذی نقشوں پہ بنتے ہیں، اسکولوں کے اساتذہ کی خصوصاً دیہاتی اور قصباتی علاقوں میں تقرریاں محض کاغذی رجسٹروں پہ ہوتی ہیں۔

اور بھی بہت سے سرکاری اداروں میں بھرتیاں سفارشی کاغذوں پر ہوتی ہیں۔ آدھی تنخواہیں سفارش کرنے والے کی جیب میں جاتی ہیں، باقی کاغذی اہلکار کی جیب میں۔ جس کے عوض وہ صرف رجسٹر میں حاضری لگانے آتا ہے وہ بھی ہفتے میں ایک یا دو دن چھوٹے شہروں کے اسکول وڈیروں، سرداروں اور خانوں کے ڈیرے اور اوطاق بن چکے ہیں، کہ کہیں یہ بدنصیب کمی کاری پڑھ لکھ کر حکومت میں نہ آ جائیں۔

کسی بھی محلے میں اگر وہاں کے ملازمین کی ڈگریاں چیک کی جائیں تو بلامبالغہ 40 فی صد جعلی نکلیں گی۔ وہ بھی کسی سیاسی پارٹی یا حکمراں پارٹی کے لوگوں کی۔ پبلک سروس کمیشن کی سلیکشن بھی محض سفارشی بنیادوں پر ہو رہی ہیں، البتہ ’’نظر بٹو‘‘ کے طور پر دس لوگوں میں سے کوئی ایک میرٹ پر اس لیے سلیکٹ کر لیا جاتا ہے کہ کوئی آدمی ایسا بھی تو چاہیے جسے کام کرنا آتا ہو۔ باقی تو سب پارٹی لیڈر اور حاکموں کے لاڈلے دلارے ہی ہوتے ہیں۔

البتہ پیپلز پارٹی کے ہر دور میں سفارشی بنیادوں کے علاوہ پیسے کا کھیل بڑی ایمانداری اور کھلم کھلا جاری رہتا ہے۔ ’’اتنے لاؤ اور نوکری لے لو‘‘ ہر گریڈ کی قیمت الگ الگ مقرر ہے۔ کچھ ڈھکا چھپا نہیں۔ اور تو اور سرکاری جامعات اور سرکاری ادبی ادارے بھی اسی صف میں شامل ہیں، حاکموں، سیاسی لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کے چہیتوں کو مسلسل ایکسٹینشن ملتی رہتی ہے۔

اور حاضر سروس زیادتی پر آنسو بہاتے چپ چاپ ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ گناہگار آنکھوں نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ’’بااثر‘‘ لوگوں کے قدموں میں جھکتے اور ان کے گھٹنے چھوتے دیکھا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ وہی طرم خاں ہیں جو تیوری پہ بل ڈالے کسی کے سلام کا جواب بھی نہیں دیتے۔ اور جب اپنے ’’ان داتا‘‘ کے حضور پیش ہوتے ہیں تو مارے ہیبت اور خوشامد کے گھگھی بندھ جاتی ہے۔ یہ منافق ہی سوسائٹی کی اصل دیمک ہیں۔

اسٹیل مل اور پی آئی اے کا حال اب سب پر منکشف ہے، دنیا کی بہترین ایئرلائن کیوں تباہ ہوئی یا جان بوجھ کر تباہ کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ بھی نااہل کارکنوں کی سیاسی بھرتیاں ہیں جو اقتدار میں آیا اس نے اپنے لوگوں کو بھرتی کیا۔ سب سے زیادہ بھرتیاں پی پی کے ہر دور میں ہوئیں، کہ سفارش اور پیسہ دونوں کی وافر کھپت ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’مرا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا‘‘ پی آئی اے اور اسٹیل مل دونوں اس کہاوت پہ پورے اترتے ہیں۔

وہ زمانے گئے جب کوئی ’’حرا سے اتر کر سوئے قوم‘‘ آیا تھا۔ اب تو مال بنانے والے چنگیزوں کی یلغار ہے۔ کسی کو کھوپڑی کے مینار بنانے کا شوق تھا تو آج انھی کے جانشینوں کو تمام تر قومی اداروں کو بیچنے کی دھن۔ کہ اب چوتھی باری تو ملنے سے رہی۔ میرٹ کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں کا کاروبار اس لیے عروج پر ہے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔ ایک ماسٹر ڈگری ہولڈر سے اس کے سبجیکٹ یہ سوال کر کے دیکھ لیں، قلعی کھل جائے گی۔ بس روئیے اور سر پیٹیے کہ پاکستانیوں کا یہی مقدر ہے۔ قوم کی کشتی بھنور میں پھنسی ہے۔

کوئی ملاح ہے نہ پتوار تھامنے والا۔ دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت، تعصب، لسانی اختلافات کو ہوا دینے والے بہت۔ لیکن محبت یا خیر کا کلمہ کہنے والا کوئی نہیں۔کسی حکومت میں مجال نہیں کہ دہشت گردوں کے اصل سہولت کاروں کو گرفتار کر سکے، کیونکہ ان ہی کے تعاون سے تو حکومتیں اپنی مدت ملازمت پوری کرتی ہیں۔

یہ وہ جونکیں ہیں جنھیں عوام کا خون اور ٹیکس پلا کر پالا جاتا ہے۔ پھر ان کے چہرے ٹیلی ویژن پہ بڑے عزت و احترام سے دکھائے جاتے ہیں۔ انھیں بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں ہوئی، روز انسان مارے جا رہے ہیں اور مذہب اسلام بدنام ہو رہا ہے۔ مگر کسی کو کیا پرواہ۔ انھیں اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔