دیش بھگتی (حب الوطنی) کی نئی تفہیم؟

مقتدا منصور  پير 29 فروری 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بھارت کی نوجوان نسل نے دیش بھگتی (حب الوطنی)، جمہوری اقدار، اختلاف رائے کی آزادی اور میڈیا کے کردار کے بارے میں بعض نئے مگر چبھتے ہوئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بھارت ان دنوں طلبا کے ملک گیر احتجاج میں گھرا ہوا ہے، جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) طلبا یونین کے صدر کنہیاکمار اور پروفیسر گیلانی کی گرفتاری اور دیگر پانچ طلبا کے خلاف جاری ہونے والے وارنٹ کے نتیجے میں شروع ہوا ہے۔ یونین صدر سمیت ان طلبا پر الزام ہے کہ انھوں نے تین برس قبل پھانسی پانے والے کشمیری رہنما افضل گرو کی برسی منانے کی کوشش کی تھی، جس سے قومی وقار کو دھچکا لگا ہے۔

اس صورتحال نے بھارت میں جمہوریت اور سیکولرازم کے مستقبل کے بارے میں نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے افضل گرو کی متنازعہ پھانسی اور گؤہتھیا کے نام پر ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جاری ناروا سلوک پر خصوصی گفتگو ہو رہی ہے۔ چند روز قبل ہی بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی کے چدم برم نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ افضل گرو کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ لیکن بھارت میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایک بہت بڑا حلقہ ان موضوعات کو غیر ضروری اور نان ایشو سمجھتا ہے۔

اس کے نزدیک سیکولرازم کو تحفظ فراہم کرنے سے زیادہ اہم معاملہ معاشی اہداف کا حصول ہے۔ اسی طرح وہ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے فسادات کو بھی آج کے سیاسی و سماجی منظرنامہ میں نان ایشو تصور کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اسی طبقے نے 2013ء کے عام انتخابات میں نریندر مودی اور بی جے پی کو فقیدالمثال کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔

اس کے برعکس بھارت سمیت دنیا بھر کے آزاد خیال اور انسانیت دوست حلقے اس تصور کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں بھارت میں سیکولرازم کو پہنچنے والا نقصان دراصل بھارت کی سیاسی و سماجی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔ ان حلقوں کے خیال میں بھارت جیسے ملک میں جہاں  درجنوں مذاہب اور سیکڑوں کی تعداد میں نسلی و لسانی کمیونٹیاں آباد ہیں، انھیں سیکولر آئین نے ایک ریاستی لڑی میں پرویا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد برطانیہ کی مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والے 75 اساتذہ کا ایک خط روزنامہ The Independent میں شایع ہوا تھا، جس میں ان ماہرین تعلیم کا کہنا تھا کہ ’’نریندر مودی کی قیادت میں قائم ہونے والی BJP کی حکومت کی وجہ سے انھیں بھارت میں جمہوری اقدار، فکری کثرتیت اور انسانی حقوق شدید خطرات میں گھرے نظر آ رہے ہیں‘‘۔ اس خط کو بھارتی میڈیا نے پاکستانی لابی کی سازش قرار دے کر رد کر دیا تھا۔

لیکن حکومت کے قیام کے بعد معاشی اہداف کے حصول کی منصوبہ بندی اور پیش قدمی تو ایک طرف رہ گئی، BJP سرکار نے اپنے فکری محاذ کو ترجیحی بنیادوں پر مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ جس میں نصاب تعلیم میں تبدیلیاں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف معاندانہ رویہ اور پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے میں شدت شامل ہے۔

گؤ ہتھیا پر مختلف ریاستوں میں قائم BJP حکومتوں کی جانب سے غیر تحریری پابندیاں، ہریانہ کے وزیر صحت کی جانب سے گائے کا گوشت کھانے والوں کو ریاست میں نہ آنے کا مشورہ، گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں کئی مسلمانوں کا مشتعل انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل، مسیحی خواتین کے ساتھ مختلف شہروں میں اجتماعی زیادتی، ایسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے بھارت کا سیکولر آئین اور جمہوریت واقعی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

ماہرین سیاسیات و عمرانیات کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات اس وقت تک عوام تک نہیں پہنچ سکتے، جب تک کہ ریاست کے ساتھ معاشرہ بھی جمہوری نہ ہو جائے، یعنی Democratisation of society is necessary alongwith the democratisation of state۔ اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ فکری کثرتیت کے لیے قبولیت پیدا کیے بغیر محض انتخابی عمل کو جمہوریت تسلیم کیے جانے کی صورت میں بعض اوقات ایسی قوتیں سیاسی طاقت حاصل کر لیتی ہیں جو جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے خطرہ بن جاتی ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود بھارت ہے، جہاں گزشتہ 68 برسوں سے جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے، لیکن معاشرے میں فکری کثرتیت کے لیے قبولیت پیدا نہ ہونے کے باعث سیکولر ازم پر حقیقتاً عمل نہیں ہو پا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں مذہبی اقلیتوں اور نچلی جاتیوں کے لیے ان گنت مسائل ہنوز موجود ہیں، جو دھارمک قوتوں کی سیاسی قوت میں اضافہ کے باعث مسلسل پیچیدہ ہو رہے ہیں۔

دوسری مثال مصر کی ہے، جہاں مقبول سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت ختم ہو گئی، مگر عام انتخابات میں مذہبی شدت پسند اخوان جیت گئے، جنھوں نے ریاست کو تھیوکریٹک بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ نتیجتاً انھیں ہٹانے کے لیے فوج کو ایک بار پھر اقتدار میں آنا پڑا۔ یہی کچھ معاملہ شام میں ہو رہا ہے، جہاں بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی خواہش کے نتیجے میں داعش جیسی مذہبی شدت پسند جماعتیں وجود میں آ گئی ہیں، جو مغرب سمیت علاقائی ممالک کے لیے درد سر بن گئی ہیں۔

اگر ہم اپنے ملک پر نظر دوڑائیں، تو آمریت سے چھٹکارا پانے کے لیے چلنے والی عوامی تحاریک کے نتیجے میں انتخابی عمل تو ضرور بحال ہوا، مگر سیاست پر ایک مخصوص اشرافیہ حاوی ہوتی چلی گئی، جو بنیادی طور پر آمریت ہی کی گود میں پلی تھی۔ پاکستان میں بھارت کی طرح دھارمک (مذہبی) سیاسی قوتیں انتخابات میں تو عوامی مقبولیت حاصل نہیں کر پاتیں، مگر اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی اور لبرل سیاسی اشرافیہ کی کوتاہ بینی کے سبب ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آ چکی ہیں۔ گو پاکستان کا آئین سیکولر نہیں ہے، مگر اس میں مذہبی اور لسانی و نسلی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، جس پر بعض آئینی شقوں اور متنازع قوانین کی وجہ سے عمل نہیں ہو پا رہا۔

اس لیے معاشرے کا جمہوریانا (Democratisation) ابھی دور کی بات ہے۔ اس کے برعکس بھارت کا آئین سیکولر ہے، جو ہر بھارتی شہری کو ہر قسم کے تحفظ کے ساتھ میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت میں اکثریتی عقیدے کے عوام آئین پر عملدرآمد کا راستہ روک کر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

برنارڈشا نے کہا تھا کہ ’’حب الوطنی بدقماش لوگوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے‘‘۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بالعموم، جب کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بالخصوص دین/ دھرم اور حب الوطنی کو سیاسی طاقت کے حصول کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان ممالک میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے ساتھ ہر قسم کے امتیازی سلوک کو معیوب کے بجائے دین/ دھرم سے محبت اور حب الوطنی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔

چنانچہ جنوبی ایشیائی ممالک میں نسلی و مذہبی اقلیتوں اور سماج کے محروم طبقات کی خواتین کو اپنا دین/ دھرم تبدیل کر کے اکثریتی آبادی کے نوجوانوں کے ساتھ جبراً شادی پر مجبور کیے جانے کو برا نہیں سمجھا جاتا، بلکہ انکار یا مزاحمت کی صورت میں انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جانا بھی عام سی بات بن گئی ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت کی سول سوسائٹی اور اہل دانش (Intellegentsia) ہمارے مقابلے میں خاصی طاقتور اور پراثر ہے۔ مگر وہ بھی دھارمک قوتوں کے آگے بند باندھنے میں ناکام ہے، جب کہ میڈیا (جس میں فلم بھی شامل ہے) اپنے کاروباری مفادات کی خاطر مذہبی شدت پسند قوتوں کو Glamourise کرتی ہے، جس کی وجہ سے RSS، شیوسینا اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ قوتیں، جو اپنی سرشت میں جمہوری نہیں ہیں، مگر جمہوری کلچر کو مسلسل اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہوئے قوم پرستی کو دھرم سے مشروط کرنے کی پالیسی پر کارفرما ہیں۔

اگر بھارت میں پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں، تو کم و بیش ویسا ہی منظرنامہ اپنے یہاں بھی نظر آئے گا۔ ہمارے یہاں بھی میڈیا مذہبی شدت پسند عناصر کو حد سے زیادہ Glamourise کرتا ہے، خاص طور پر 9/11  کے بعد ہمارے ذرایع ابلاغ نے ریٹنگ کے چکر میں مغرب پر بے جا تنقید اور جہادی قوتوں کے ہر اقدامات کو منطقی جواز فراہم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔

ہندوستانی معاشرہ جو صوفیائے کرام اور سادھو سنتوں کی تعلیمات کی وجہ سے سات سو برس تک سماجی و ثقافتی تنوع اور روادارانہ رنگارنگی کی عالیشان مثال بنا ہوا تھا، جسے اکبر کی سیکولر طرز حکمرانی نے مزید مہمیز لگا کر رواداری اور قبولیت کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی تھی۔ ہندوستانی معاشرے کے اس تنوع اور رنگارنگی کو انگریز حکمرانوں نے اپنی ڈیڑھ سو برس سے زائد عرصہ پر محیط حکمرانی کے تحفظ کی خاطر تباہ کر دیا۔

انگریز کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں دیش بھگتی (حب الوطنی) کی جو وسیع المشرب تعریف و تشریح متعارف ہوئی تھی، وہ ہندوستان کی خون آلود تقسیم کے نتیجے میں انسانی رشتوں کی طرح ایک بار پھر بری طرح متاثر ہو گئی۔ اس لیے قوم پرستی اور حب الوطنی پر ازسر نو غور فکر کی ضرورت ہے۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ JNU سے اٹھنے والی نوجوانوں کی اس نئی تحریک نے قوم پرستی، اختلاف رائے کے حق اور میڈیا کے کردار کے حوالے سے جو سوالات اٹھانا شروع کیے ہیں، وہ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں قوم پرستی کی ازسرنو تفہیم، اظہار رائے کی آزادی کے اصول و ضوابط اور ذرایع ابلاغ کے لیے موثر ضابطہ اخلاق (Code of Conduct) کی تیاری کے لیے پیش رفت ثابت ہوئے ہیں۔

ان ممالک کو فکری کثرتیت، تمام شہریوں کے لیے (بلاامتیاز صنف، عقیدہ اور نسلی و لسانی تقسیم) مساوی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ قوم پرستی  کے موضوع پر JNU کی استاد پروفیسر عائشہ قدوائی کا لیکچر خاصا فکر انگیز ہے، جو انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے، جس سے پورے خطے کے ہر متوشش شہری کو استفادہ کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔