جنم لیتے نئے خدشات

مقتدا منصور  جمعرات 3 مارچ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ضد، انا اور ہٹ دھرمی وہ رویے ہیں، جو آمرانہ سوچ کے مظہر ہوتے ہیں۔ نہ یونیفارم میں ملبوس ہر شخص ذہنی طور پر آمر ہوتا ہے اور نہ سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے والاہر سویلین رہنما جمہوری ہوتا ہے۔ اقتدار و اختیار کی مرکزیت اور عدم مرکزیت وہ پیمانہ ہے، جو آمریت اور جمہوریت کے درمیان حد فاصل کا کردار ادا کرتا ہے۔ جدید دنیا میں چارلس ڈیگال اور ہٹلر اس روش و رجحان کی نادر مثالیں ہیں۔

چارلس ڈیگال جو ایک سابق جرنیل تھا، مگر اس نے فرانس کی تعمیر نو میں نمایاں کردارادا کیا۔ ملک کو نیا آئین دیا۔ آئین کی منظوری سے قبل اسے عوام کے سامنے بحث و مباحثہ کے لیے رکھا ۔ ان کی جانب سے آنے والی تجاویزکو اس میں شامل کیا۔ اس کے برعکس ہٹلر منتخب ہوکر اقتدار میں آیا تھا، مگر اس نے جرمنی کو بدترین فاشزم کا شکار کردیا تھا۔

پاکستان میں جو سیاسی منظر نامہ ہے۔ وہ اس لحاظ سے خاصا تشویشناک ہے کہ ایک مخصوص اشرافیائی ٹولہ کبھی وردی والوں کے زیر سایہ، کبھی عام انتخابات میں اپنی دولت اور طاقت کی بنیاد پرکامیابی حاصل کرکے اقتدار پر قابض چلا آرہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اس طبقے کی کوشش رہی ہے کہ ریاستی اقتدار پر اس کی گرفت کسی طور کمزور نہ پڑنے پائے۔

اگر متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ اراکین اپنے حلقوں میں مقبولیت کی وجہ سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں، تو اس طبقے کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ ان لوگوں کو  اپنے مخصوص اشرافیائی کلب میں Co-opt کر کے اپنی راہ پر لگا لیا جائے۔ ان کی جانب سے اس کلچر کا حصہ بننے پر آمادہ نہ ہونے کی صورت میں مختلف حربوں کے ذریعے ان کی سیاست کا راستہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں میڈیا ٹرائیل بھی شامل ہوتا ہے، تاکہ ان کا فکر فلسفہ ملک کے دیگر حصوں تک پہنچ کر اشرافیائی سیاسی کلچر کو زک پہنچانے کا سبب نہ بن جائے۔

آج کی دنیا میں جمہوریت محض تسلسل کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس کے شراکتی کردار کو زیادہ سے زیادہ فعال بنانا ہے۔ یہ عمل اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار و اختیار جس قدر ممکن ہو ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک منتقل کیا جائے ، جب کہ اقتدار واختیار میں مناسب فاصلہ بھی پیدا کیا جانا ضروری تصور کیا جاتا ہے تاکہ طاقت کے بے جا استعمال یعنیPower Abuseکا خطرہ باقی نہ رہے اور عوام کو ترقیاتی منصوبہ سازی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے مواقعے میسر آسکیں۔

اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ آمرانہ طرز حکمرانی میں ترقیاتی منصوبہ بندی اوپر سے نیچے کی جانب منتقل ہوتی ہے۔ یعنی ریاست کا اقتدار اعلیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسی علاقے میں کس نوعیت کے ترقیاتی کام کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس شراکتی جمہوری عمل میں ترقیاتی منصوبہ بندی کا سفر نیچے سے اوپر کی جانب ہوتا ہے۔ نچلی سطح کا انتظامی یونٹ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے علاقے کے لیے کون سے ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت ہے۔ان منصوبوں کے لیے کس قدر مالی وسائل درکار ہیں؟ کتنے وسائل وہ خود مہیا کرسکتا ہے اور کتنے اسے صوبے یا وفاق سے درکار ہیں؟

پاکستان میں ریاستی انتظام کی مختلف سطحوں (Tiers)  کے درمیان عدم تعاون بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔اب تک کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت ہر قسم کی منصوبہ بندی کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی خواہ یونین کونسل کی سطح پر پرائمری اسکول کی تعمیر یا مرمت ہی سے متعلق کیوں نہ ہو۔ اگر کسی وجہ سے اسے یہ اختیار صوبے یا میونسپل حکومت کو منتقل کرنا پڑجائے تو اس منصوبے سے قطعی بے نیاز ہوکر محض تماشائی بن جاتی ہے۔

حالانکہ ریاست کے نچلی سطح کے انتظامی یونٹوں کی پیشہ ورانہ استعداد میں اضافے کے لیے رہنمائی اور تربیت فراہم کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کلیدی ذمے داری ہوتی ہے۔ Working Relationshipکا فقدان صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست کے مختلف شعبہ جات اور محکموں کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ریاستی ادارےPro-activeکے بجائےReactiveہوکر رہ گئے ہیں۔

اس روش اور رویے کی اصل وجہ حکمران اشرافیہ کا مرکزیت مائل Mindset ہے جو اختیارات کی صوبے، ضلع اور پھر یونین کونسل تک منتقلی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں وفاق کے تصور سے انحراف کی ابتدا ملک کے وجود میں آنے کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی۔ اسی روش اور رویے کے باعث ملک دولخت ہوا تھا۔

اب جب کہ18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو کسی حد تک خود مختاری حاصل ہوئی ہے، تو کوشش یہ کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کردیا جائے یا پھر اس میں مزید ترامیم کرکے صوبوں کے اختیارات محدود کردیے جائیں، تاکہ اقتدار و اختیار کی ایک بار پھر مرکزیت قائم کی جاسکے۔ جب کہ دوسری طرف صوبائی حکومتوں کا رویہ بھی غیر مناسب ہے۔ یہ حکومتیں ضلع اور اس سے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے پس و پیش کررہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے دباؤ پر بادل ناخواستہ انتخابات تو کرا دیے گئے مگر صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت کی بنیاد پر ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں بلدیاتی ادارے ریاستی انتظام کا تیسرے درجہ بننے کے بجائے ایک ایسا مفلوج ادارہ  بن جائیں جو صوبائی حکومت کی بیساکھیوں پر چلنے پر مجبور ہو۔ اس صورت میں سیاسی تناؤ کا بڑھنا لازمی امر ہے جو خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ برٹش انڈیا میں انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان بنیادی اختلاف اقتدار و اختیار کی منصفانہ تقسیم پر تھا۔ کانگریس اقتدار و اختیار کی مرکزیت پر یقین رکھتی تھی  جب کہ مسلم لیگ صوبائی خود مختاری اور مختلف اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی حامی تھی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی جانب سے سے میثاق لکھنو اور 14نکات ان کے اسی تصورکی عکاسی کرتے ہیں۔ تقریباً سبھی یورپی اور علاقائی مورخین اورتجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ قائد اعظم جون 1946تک تقسیم ہند کے مخالف تھے۔

اگر پنڈت جواہر لعل نہرو اور کانگریس کابینہ مشن کو دانستہ ناکام نہ کرتے تو شاید تقسیم ہند نہ ہوتی۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے بے لچک رویے کی وجہ سے تقسیم ہند ہوئی، جس میں لاکھوں افراد کا خون بہا اور اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ بے گھر ہوکر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ کروڑوں اور اربوں کی املاک الگ تباہ ہوئی۔ جب کہ دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں کی ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی، وہ68 برس گذرنے کے باوجود بھی پاٹی نہیں جا سکی ہے بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کانگریس اور بعد میں قائم ہونے والی بھارتی حکومتوں نے تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی سے سبق سیکھ لیا۔ نتیجتاً انھوں نے وقت گذرنے کے ساتھ صوبائی خودمختاری میں اضافہ کیا۔ اسی طرح شہری حکومتوں کو بھی زیادہ سے زیادہ اختیارات تفویض کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں رہنمائی کا کردار ادا کرتی ہیں جب کہ پاکستان، جس کے بانی کا بنیادی سیاسی فلسفہ صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ تھا، وہ روز اول ہی سے اختیارات کی مرکزیت کی بدترین مثال بن گیا۔ آج ملک کیmainstreamسیاسی جماعتیں شہری حکومتوں کے بارے میں وہی روش اختیار کیے ہوئے ہیں جو برٹش انڈیا میں انڈین نیشنل کانگریس نے صوبائی خود مختاری کے حوالے سے اختیار کیا تھا۔ جس کا منطقی انجام تقسیم ہند کی شکل میں ظاہر ہوا تھا۔

یہ  بات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ملک میں عوام کو بہتر حکمرانی دینے اور ان کے مسائل کے فوری حل کے لیے  ضلع حکومتوں کا ریاستی انتظام کا Third Tierبنایا جانا انتہائی اہم ہے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات کا نچلی سطح پر منتقل کیا جانا ضروری ہوچکا ہے، جب کہ تمام  صوبوں کی حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں اس عمل میں مختلف نوعیت کی رکاوٹیں ڈال رہی ہیں جس کے ردعمل میں مختلف علاقوں اور خطوں سے صوبوں کی تشکیل نو کے مطالبات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ نتیجتاً نئے تضادات جنم لے رہے ہیں، جو تصادم اور خونریزی کا باعث بن سکتے ہیں۔

کسی تجزیہ نگار کا کسی کمیونٹی یا جماعت کی جانب سے کیے گئے مطالبات اور ان کے مجوزہ حل سے متفق ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ اصل اہمیت ان معروضی حالات کو حاصل ہوتی ہے، جو اس نوعیت کے معاملات و مسائل کو جنم دینے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کسی ابھرنے والے مسئلے کی نشاندہی کا مقصد ان مجاز حلقوں کو اس کی حساسیت پر سنجیدگی سے غور کرنے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے، تاکہ ایک ایسا صائب اور متوازن حل نکالا جاسکے، جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو اور کشت و خون جیسی بھیانک صورتحال سے بچنے کی سبیل ہوسکے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ برٹش انڈیا یا بنگلہ دیش جیسی کسی صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بلدیاتی اداروں کو وہ تمام سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات منتقل کیے جائیں، جس سے ان اداروں کی فعالیت میں اضافہ ہوسکے اور تمام طبقات اور کمیونٹیز کو ریاستی منصوبہ سازی میں شراکت کا احساس ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔