تم ہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

مقتدا منصور  پير 7 مارچ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

24 برس بعد کراچی کے سیاسی میدان میں دو نئے گھوڑے اتارے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے بعض منحرف رہنماؤں کے کراچی کی سیاست میں آنے کی بازگشت سرگوشیوں میں کافی عرصہ سے جاری تھی، جو بالآخر سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال اور ایم کیو ایم حیدرآباد کے سابق ذمے دار انچارج انیس قائم خانی کی شکل میں منظر عام پر آگئی ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کا انتہائی پراسرار انداز میں جمعرات کی علی الصبح کراچی پہنچنا اور اسی سہ پہر تین گھنٹوں پر مشتمل طویل پریس کانفرنس نے ان کے سیاسی عزائم کو خاصی حد تک واضح کردیا ہے۔ یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ اس کھیل کا اسکرپٹ کہاں اور کس نے تیار کیا۔

بہرحال ایم کیو ایم اور اس کی قیادت پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، وہ کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ انیس بیس کے فرق سے یہ وہی الزامات ہیں، جو 1992 میں ’’حقیقی‘‘ بناکر آفاق احمد اور عامر خان نے لگائے تھے۔ اس کے بعد 24 برسوں کے دوران انھی الزامات کو ذرایع ابلاغ کے ذریعے مسلسل دہرایا جاتا رہا ہے۔ البتہ اس مرتبہ صورتحال میں معمولی فرق آیا ہے۔ 1992 میں منحرف کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ایم کیو ایم (حقیقی) قائم ہوئی تھی، اس کے کارکنوں نے ایم کیو ایم کے علاقائی دفاتر پر قبضہ کیا تھا۔

اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم ایک پریس بریفنگ یہ کہا تھا کہ ’’جب مسلم لیگ کے کئی دھڑے ہوسکتے ہیں، تو ایم کیو ایم کے کیوں نہیں‘‘۔ لہٰذا ایم کیو ایم (حقیقی) کی تشکیل کے اسباب کو سمجھنا کوئی معمہ نہیں رہا تھا۔ مقصد کراچی کے سیاسی مینڈیٹ کو تقسیم کرنا تھا۔ دس برس تک ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کے درمیان بدترین کشت و خون ہوا تھا۔ مگر کراچی کی سیاست تقسیم نہ ہوسکی۔ رفتہ رفتہ یہ گروپ گہناتا چلا گیا، جب کہ عامر خان بھی ایم کیو ایم میں واپس چلے گئے۔

اس پورے تناظر میں اربن سندھ میں کئی دہائیوں سے جاری سیاسی ارتعاش کو سمجھنے کے لیے چند باتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اول، تقسیم ہند کے وقت ہجرت کرکے آنے والی کمیونٹی سے کیا سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ دوئم، ایم کیو ایم کیوں وجود میں آئی؟ سوئم، اس کی سیاسی حرکیات (Dynamics) کیا رہی ہیں؟ چہارم، 1992 سے مختلف نوعیت کے سنگین الزامات کے باوجود اس کی مقبولیت میں  کمی کیوں نہیں آسکی ہے؟ پنجم، 1987 کے بلدیاتی انتخابات سے 2016 کے بلدیاتی انتخابات تک ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے6، صوبائی اسمبلی کے 7 اور 3 بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی ہے، مگر اس کے مینڈیٹ کو سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ کن وجوہات کی بنیاد پر تسلیم کرنے سے گریزاں رہتی ہے؟

دنیا بھر میں ہجرت کرنے والوں کی مختلف انفرادی اور اجتماعی نفسیات ہوا کرتی ہیں۔ اسی بنیاد پر ان کی انفرادی اور اجتماعی سیاسی وسماجی حرکیات ترتیب پاتی ہیں۔ مگر ہر دو صورت میں اپنی سلامتی کی خاطر یہ لوگ مقامی آبادی کے ساتھ ناتا جوڑنے کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات مستحکم بنانے پر توجہ دیتے ہیں۔

برٹش انڈیا میں جب علیحدہ ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کا آغاز ہوا تو کئی جید علما نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو اس تحریک میںکئی اہم منطقی جواز کے ساتھ شمولیت سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن برصغیر کے مسلمان بالخصوص مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان اپنے عقیدے، ثقافتی ورثے اور معاشی استحکام کی خاطر اس تحریک کا سرگرم حصہ بنے۔ چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ علیحدہ ملک کے لیے سب سے زیادہ موثر اور سرگرم تحریک بنگال اور مسلم اقلیتی صوبوں میں چلی۔ جب کہ ہندوستان کا وہ خطہ جس پر پاکستان قائم ہے، یہ تحریک نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہی سبب ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر پورا برٹش انڈیا آگ وخون میں لتھڑ گیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، اول تو تقسیم ہند کے مخالف تھے، لیکن تقسیم ہوجانے کے بعد وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان نئے ملک کی جانب نقل مکانی کریں۔ کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ ان کے لیے نئے مسائل ومصائب جنم لیں گے۔ چنانچہ تقسیم کے دو ہفتے بعد جب دہلی میں کشت وخون کے بعد شدید خوف وہراس پھیلا ہوا تھا، انھوں نے جامع مسجد میں ایک انتہائی فکر انگیز تقریر کی، جس میں مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اب بھی وقت ہے، مت جاؤ، یہ مسائل ومصائب عارضی ہیں، جس خطے پر پاکستان بنا ہے، وہ اپنی قبائلی اور جاگیردارانہ تنگ نظری کے باعث تمہیں قبول نہیں کرسکے گا، تم بہت جلد اجنبیت کا شکار ہوجاؤ گے۔ جب اپنے حقوق کے لیے تنظیمیں بناؤ گے، تو تم پر حلقہ حیات تنگ کردیا جائے گا‘‘۔ مذہبی جذبات سے سرشار اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے مولانا کی تنبیہہ کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے ملک کی طرف ہجرت کرلی۔

مگر جلد ہی بعض افراد کو اندازہ ہونے لگا کہ ان کا فیصلہ شاید غلط تھا۔ تقسیم ہند کو 68 برس گزر چکے ہیں، مگر مسلم اقلیتی صوبوںسے تعلق رکھنے والے مسلمان دونوں جانب اذیت مسلسل کا شکار ہیں۔ وہاں انھیں پاکستان کا ایجنٹ سمجھا اور کہا جاتا ہے، جب کہ اب یہاں ان پر بھارت کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں وہاں اور یہاں کی مقامی آبادی ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کی اسٹبلشمنٹ بھی یہی کچھ تاثر دے رہی ہوتی ہے۔ بھارت میں تو پھر بھی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مسلمانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع کسی نہ کسی طرح مل جاتے ہیں۔ آج کے نامساعد حالات میں بھی وہاں کی فلمی صنعت کے 10 نامور ہیروز میں 7 مسلمان ہیں، جب کہ پاکستان میں ہجرت کرکے آنے والے بیوروکریٹس کو ذلیل کرکے نکالا گیا، فنکاروں کی بے عزتی کی گئی اور کھیلوں میں مختلف حیلوں بہانوں سے انھیں مواقع دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔

ایوب خان سے پرویز مشرف تک اس ملک پر چار فوجی آمر مسلط ہوئے، جن میں یحییٰ خان نے ملک کو دولخت تک کردیا، سابق آرمی چیف کے بھائیوں پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں، مگر مقدمات صرف پرویز مشرف پر قائم ہوئے۔ اسی طرح آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ببانگ دہل دعویٰ کریں، یا خواجہ آصف قومی اسمبلی کے فلور پر اسٹیبلشمنٹ کی دھجیاں بکھیردیں لیکن الطاف حسین پر مقدمات قائم ہوتے ہیں۔

اگر ہم 68 برس کی تاریخ بیان کرنے بیٹھ جائیں، تو یہ اظہاریہ ایک سلسلہ وار داستان بن جائے گا۔ اربن سندھ میں آباد ہجرت کرکے آنے والی کمیونٹیز سے بے انتہا سیاسی، سماجی اور فکری غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم بھی کوئی پاک پوتر سیاسی جماعت نہیں ہے۔ مگر کیا کبھی کسی نے اس کے قیام اور پھر گزشتہ 32 برسوں کے دوران مقبولیت کی حقیقی وجوہات کا جائزہ لینے کی کوشش کی؟ کیا کسی نے یہ تسلیم کیا کہ اس کمیونٹی میں احساس محرومی وفاقی دارالحکومت کے کراچی سے اسلام آباد منتقل کیے جانے سے شروع ہوا؟ کیونکہ ہجرت کرکے آنے والوں کی اکثریت کا تعلق تنخواہ دار مڈل کلاس سے تھا۔

دارالحکومت منتقل ہوجانے کے باعث انھیں معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آئین کی رو سے نان گزیٹیڈ ملازمتیں صرف مقامی سطح پر دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سرکاری ملازمتوں سے مہاجر افسران کے نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان نے 303 اعلیٰ افسران کو مختلف الزامات کے تحت برطرف کردیا۔ اس کے بعد 1972 میں مختلف پوزیشنز کے 1700 افسران کو فارغ کیا گیا۔ سندھ میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا۔ بھٹو دور میں صنعتوں کو قومیائے جانے کے نتیجے میں بھی اردو بولنے والی کمیونٹی کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اس طرح ان کے روزگار کے ذرایع مزید سکڑ گئے۔

کراچی پر اسٹیبلشمنٹ نے کنٹرول کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے ہیں، یہ ایک الگ داستان ہے۔ 2013 سے جاری آپریشن کے اہداف میں امن و امان کے قیام کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کا خاتمہ کرنا بھی شامل ہے۔ ادھر حقائق یہ ہیں کہ شہر کے جرائم میں مقامی آبادی کا صرف 30 فیصد حصہ ملوث ہے، جب کہ 70 فیصد جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہے۔ اب مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کراچی کی سیاست میں کیا تبدیلی لاتے ہیں، اس کا پتہ آنے والے وقت میں چل جائے گا البتہ میں ذاتی طور پر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ 1947 میں ہجرت کرنے والوں کی چوتھی نسل عصبیتوں اور امتیازی سلوک کی چکی میں پس رہی ہے۔ آج تقسیم ہند کی سزا سرحد کے دونوں جانب مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان بھگت رہے ہیں۔ نہ وہاں امان ہے نہ یہاں، جب کہ بنگلہ دیش میں تو کیمپوں میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔